نواب سدھنوتی سردار شمس خان سدوزئ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سردار شمس خان سدوزئ ریاست جموں کشمیر کی سابقہ قبائلی ریاست سدھنوتی کے آخری سولہویں نواب سدھنوتی تھے [1] آپ نے سکھ خالصہ سے تین جنگیں لڑی پہلی سکھ سدھنوتی جنگ میں آپ نے سکھ خالصہ کو شکست دی دوسری سکھ سدھنوتی جنگ کے نتیجے میں آپ سے سکھ خالصہ نے معاہدہ امن کیا [2] آپ کی تیسری اور آخری سکھ سدھنوتی جنگ 1832ء تھی[3]

نواب سدھنوتی شمس خان سدوزئ
Portrait of Sudhan tribal chief, Shams Khan in the Sameet-e-Sudhozai
سردار نواب شمس خان سدوزئ جو تیسری سکھ سدھنوتی جنگ میں اپنے قبائل کے پچس ہزار سدوزئیوں سمیت میدان جنگ کام آئے[4] جس کے بعد سدھنوتی پر سکھ خالصہ کو فتح حاصل ہوئی
نواب سردار شمس خان سدوزئ
معلومات شخصیت
پیدائش یکم جنوری 1780
پاکستان کشمیر بارڈر
وفات 29 جولائی 1832ء
آزاد کشمیر
قومیت سدھن پٹھان

تاریخی کتب سے ثابت ہوتا ہے کہ 1818 میں مہارجہ رنجیت سنگھ اور سدھنوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ امن ہوا تھا جس کی فضا مہاراجا کے وزیر اعظم عزیز الدین نے ہموار کی تھی۔ بمطابق معائدہ امن پونچھ میں سدھنوں کی ہی آپ راجی بحال رہے گی۔ اور ضامن کے طور پر شمس خان کو دھیان سنگھ کا خاص مشیر مقرر کر کے رضا کارانا طور پر لاہور لے جایا گیا۔ دھیان سنگھ نے راجا پونچھ دیوان دلباغ راےُ کو ہدایت کی کہ وہ پونچھ کے معاملات شمس خان کی مشاورت سے طے کرے. لیکن بعد میں شمس خان نے راجا پوبچھ کی بے جا مداخلت اور ظلم و ستم سے تنگ آکر اعلان بغاوت کر دیا.. اور ایک تاریخی جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں واقع منگ بھی پیش آیا جس سے کشمیر کا بچہ بچہ واقف ہے تاریخی ریکارڈ کی درستی اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے نہایت مختصر الفاظ میں کچھ غیر جانبدار مورخین جن میں انگریز اور دیگر غیر مسلم مصنفین کی تاریخی کتب سے چند حوالاجات درج ہیں۔ کوشش ہے شمس خان کے ہم عصر مورخین نے کتب لکھی ہیں زیادہ ان کے ہی حوالہ جات دئے جائیں جن سے انکار کسی بھی ذی شعور کے لیے ممکن نہیں۔

  • THE PUNJAB CHIEPS (1865) by " Sr LEPEL HENRY GRIFFIN AND CHARLES FRANCIS MASSY “۔

Page # 365 There country had been made over to Gulab Singh and when he had reduced Yousufzai to smoothing like order he marched with twenty thousand men with regular and irregular to crush the revolt in the Muree and Hazara hills. At first they insurgents were successful, under the leadership of shamas khan a Sudhan. Who had been confidential follower of Raja Dhian singh.

  • Archaeological survey of India(1871) by “Sr Alexander Cunningham”.

Page 12 Of the other hill tribe Called Satti, Dund and Sudhan. I know very little. The Dund and Satties occupy the hills on the west bank of the jehlam above Gakars, and the Sudhan tribe holds the district punch districton the east of the jehlam. The gallant resistance which Shamas khan, chief of the Sudhan tribe of pounch, offered for a long time to all the power of Galab Sing.

  • FOUR REPORTS MADE DURING THE YEAR.(1871) by “Sr Alexander Cunningham”.

Page 13 The gallant resistdnce which resistence which Shamas Khan, chief of Sudhan tribe of punch, offered for a long time to all the power of Gulab Sing, was however quite worthy of a Rajput.

  • The History of Reigning Family of Lahore W. Thcker.(1847) by “George Carmchale Smyth”.

Page 206 Shamas Khan, One of the head men of the Sudhan tribe when it submitted to the dogras, was Shamas Khan. This men as a hostage for the fidelity of his clan and family, was kept about the person of Raja dhian Sing, whom he acually served as a private Gorechar trooper.

ميجر جی سی سمتھ نے چار سے زاہد مرتبہ شمس خان کو سدھن قبیلہ کا سردار لکھا۔ سمتھ نے لکھا ہے کہ ڈوگرا نے شمس خان کی گرفتاری کا حکم منگ کے تھانیدار (میاں چین سنگھ ہنسیالی) کو دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے شمس خان منگ تھانے کے آس پاس کا ہی رہاشی تھا۔ اگر وه پونچھ شہر کے کسی اور ایریا کا رہاشی ہوتا تو ڈوگرا گرفتاری کا حکم پونچھ تھانہ میں کرتا نہ کہ وہاں کے مقامی تھانے میں۔

  • The history of sikhs VOL-5 (1978) by “Hari Ram Gupta”

Page 136 Sudhan tribe,, Shamas khan was taken as a hostage, and he sereved raja dhian sing as a Ghorcharha trooper.

  • History of jammu and Kashmir state(1980) by “ Manohar Lal Kapoor”.

Page 51 The authority of Dogra brother is the hill region of poonch was however, seriously threadened in 1837 by one Shamas khan. He was the chief of sudhan tribe. But had submitted to the dogras and taken service with Dhyan Singh.

  • History of Jammu and Kashmir Refles 1820—1956, (1990) by K. Brahma Sing.

Page 12 The leader of the insurgents was shamas Khan. One of the headmen of the Sudhan tribe. He had been kept obout the person of Raja Dhyan sing as sort of hostage to insure the fidelity of his clan and family.

  • THE QUARTELY REVIEW HISTORICAL STUDIES, VOL-29 by Institute of Historical studies CALCUTTA India.

Page 146 Shamas Khan the hero of the second bellad was one of the head man of the Sudhan tribe. He served as a private trooper(Gorechar) to Raja Dhyan Sing brother of Gulab Sing.

  • Hastings Donnan, Marriage Among Muslims: Preference and choice in northern Pakistan.

Page 41 Under tbe leadership of Shamas khan, a Sudhan who had been a confidential follower of Raja Dehan Sing, the whole country lead them, and all the hill forts of the Jammu Raja had fallen into there hands.

"*PROCEEDING PUNJAB HISTORY CONFERINCE ISSUES 22-24" published by 'DEPARTMENT OF PUNJAB HISTORICAL STUDIES 1985' Shamas khan the hero of the second ballad was one of the headman of the Sudhan tribe. . . . . . . . . .

  • PUNJABI MUSLIMS by Lef.. J. Vekley.
1838میں باالتفاق لکھتے ہیں جس مجاہد کمانڈر کا مہاراجا نے سر کاٹ کر بھمبر کے مقام ادھ ٹیک کے چوراہے پر لٹکا رکھا تھا وہ سدھن گوریلہ لیڈر سردار شمس خان تھا۔ 
  • "HISTORY OF THE AZAD KASHMIR REGIMENT" VOL-1 by AK Regimental History cell.

Page no 13 مکمل ریسرچ کے بعد اس پیج پر لکھا ہے کہ "پونچھ کے جس شمس خان کو یرغمالی کے طور پر لاہور دربار میں لے جایا گیا تھا وه سدھن قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس کے اعلی صلاحیتوں کے پیش نظر دھیان سنگھ نے اسے اپنا مشیر خاص مقرر کر لیا تھا۔ دھیان سنگھ ریاستی امور شمس خان کی مشاورت سے طے کیا کرتا تھا۔

شمس خان کے ایک اور ہم عصر غیر جانبدار مصنف جن کا شمار شمس خان کے مخالفین میں بھی کیا جاتا ہے جناب ديوان کرپا رام نے اپنی مشہور کتاب گلاب نامہ جس کا ترجمہ 1977 میں شائع ہوا کے صفحہ. 158 پر لکھا ہے کہ

Shamas khan one of the headmen of the Sudhan tribe when submitted to the dogras was shamas khan. This man as a hostage for the fidelity of his clan and family was kept about the person of raja Dehan singh ,

گلاب نامہ" مطبوعہ 1907 صفحہ 23 سالگرام کول نے شمس خان کو سدھن لکھا ہے۔

"تاریخ کشمیر " مصنف ، پروفیسر نذیر احمد تشنہ, کے صفحہ 415 پر لکھا ہے ' مفتوح پونچھ قبائل میں اطاعت قبول کرنے والے سدھن قبیلہ کا ایک نوجوان شمس خان بھی تھا راجا دھیان سنگھ اسے اپنا مصاحب بنا کر لاہور لے گیا تاکہ شمس خان کا قبیلہ فرماں بردار رہے۔ . . . . . . . . . . .

عبدالله صدیقی کی کتاب تاریخ کشمیر 1819 تا 1947 جو ایم اے تاریخ کے نصاب میں شامل ہے کے صفحہ 75 – 171 میں پڑھایا جا رہا ہے کہ شمس خان کا تعلق سدھن قبیلے سے تھا جس کو بطور یرغمالی راجا دھیان سنگھ کی ملازمت میں دیا گیا تھا۔ اس کے علاوه

PUNJAB CHIEFS HISTORICAL AND BIOLOGICAL  NOTICE* by Sr lepal Henri Graphen. اور   Sukh Dev Singh,   اور تاریخ سدھن قبائل میں شمس خان کو سدھن ہی لکھا گیا۔ نریندر کرشن سہنا نے اپنی مشہور تصنیف .ًرنجیت سنگھ.ً میں شمس خان کو سدھن لکھا ہے۔ عسکری ادارے ، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ اور آزاد کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ و تحقیق نے راجا دھیان سنگھ کے مشیر شمس خان کو سدھن ہی لکھا ہے.. اس کے علاوہ بھی تاریخ کی کتب کے مستند حوالہ جات موجود ہیں جن کے لیے طویل مضمون کی ضرورت ہے۔

تحقیق میں 1871 سے قبل شائع ہونے والی مصنفین کی تصانیف میں سے ہر ایک نے شمس خان کو سدھن قبیلے کا سردار لکھا۔ ان تمام مصنفین کا تعلق عہد شمس خان سے ہے۔ عہد شمس خان کے کسی ایک مصنف نے بھی اگر شمس خان کو غیر سدھن لکھا ہوتا تو مزید تحقیق کی جاتی۔ مگر ایسا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں مل سکا۔ ان تمام حوالاجات کے بعد کسی ثبوت کی چنداں ضرورت نہیں رہی کے مزید حوالے پیش کیے جائییں۔ یہ بات ثابت ہے کہ سمش خان سدھن قبیلے کا ہی قابل فخر سپوت تھا.

شمس خان پہلی سکھ سدھنوتی جنگ[ترمیم]

پہلی سکھ سدھنوتی جنگ کا آغاز سکھ خالصہ حکومت نے سدھنوتی سے اپنے عروج زمانہ حکومت میں اس وقت کیا جب سکھ پنجاب سے خیبر پختون خواہ جمرود تک جمرود سے سائل سندھ تک اپنی حکومت کو توسیع دینے میں کامیاب ہوئے[5] اسی دوران سکھ خالصہ نے سب سے پہلے ریاست جموں پر حملہ کیا پھر 2 کشمیر اور 3 ریاست پونچھ، 4 ریاست راجوری، 5 ریاست بھمبر ، 6 ریاست مظفرآباد پر حملہ کر کے ان 6 ریاستوں کو چالیس دنوں میں فتح کر کے جموں کشمیر کی ساتویں ریاست سدھنوتی پر 4 دسمبر 1919ء کو حملہ کیا ریاست سدھنوتی پونچھ کے انتہائی شمال میں بلند و بالا پہاڑی ریاست ہے جس کا 50 فیصد حصہ گھنٹے جنگلات اور 96 فیصد علاقہ مشکل ترین پہاڑی جغرافیائی حدود پر مشتمل ہے جہاں پنجاب کے سکھوں کو ایک ماہ تک پے در سدھنوتی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا [6] جس کے باعث مہاراجا رنجیت سنگھ نے سدھنوتی سے مزید کسی قسم کی کوئی جنگ کیے بے غیر جموں کشمیر کی ان چھ ریاستوں کی فتح کو ہی غنیمت جانتے ہوئے لاہور خالصہ کی راہ لی [7] چنانچہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے لاہور سکھ خالصہ دربار پہنچ کر اپنی فتح کا جشن منایا اور اسی جشن میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ اپنے جرنیل میاں گلاب سنگھ اور ریاست پونچھ گلاب سنگھ کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو بطور انعام جاگیر عطاء کی

دوسری شمس خان سکھ سدھنوتی جنگ[ترمیم]

دوسری سکھ سدھنوتی جنگ کا پس منظر دراصل یہ تھا کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی طرف سے ڈوگرہ میاں گلاب سنگھ اور اس کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو جب جموں اور پونچھ جیسی دو جاگیریں ملی تو ڈوگرہ برادران پر لازم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ریاست سدھنوتی کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹائیں تاکہ مستقبل میں ریاست سدھنوتی بھی ان کی جاگیر بن کر سکھ خالصہ حکومت کے زیر اہتمام آ جائے جس سے ان کی جاگیریں بھی ہمشیہ کے لیے محفوظ ہو جائیں چنانچہ ان ہی حالات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈوگرہ برادران نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو ریاست سدھنوتی پر دوسری مرتبہ چڑھائی کرنے کے لیے کاہل کیا [8]چنانچہ سکھ خالصہ نے ایک سو پچاس پہاڑی توپوں بہم بیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ 12 جون 1820ء کو ریاست سدھنوتی پر دوسرا حملہ کیا تو سکھ خالصہ فوج کی توپوں نے سدوزئیوں کو تمام میدانی علاقوں میں شکست دی جس کے جواب میں سدوزئیوں نے پہاڑیوں پر مورچہ بند دفاعی جنگ لڑنا شروع کر دی جس کے باعث سکھ خالصہ کی فتح شکست میں بدل گئی سدوزئیوں کی پہاڑوں پر مورچہ بند گوریلا کارروائیوں نے سکھ خالصہ کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جنگ کو بھی جب طویل تول دینا شروع کیا تو سکھ خالصہ کو مجبوراً سدوزئیوں سے معاہدہ امن کرنا پڑھا جسے نواب سدھنوتی نے منظور کر لیا سکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی اور سدھنوتی کے حکمران نواب شمس خان لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلائیں گے چنانچہ اس طرح ریاست سدھنوتی اور سکھ خالصہ پنجاب کی یہ دوسری لڑائی جنگ بندی ہو کر معاہدہ امن میں تبدیل ہو گئی [9][10]

بغاوت شمس خان سدوزئ 1832ء[ترمیم]

سکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا تھا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی .[11] اس لیے نواب شمس خان کو لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلانا پڑتے تھے اسی لیے نواب سدھنوتی کو سکھ خالصہ میں ہی رہنا پڑتا تھا نواب سدھنوتی عرصہ بارہ سال سکھ خالصہ میں ولی سدھنوتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے چنانچہ وہاں سے وہ سکھ خالصہ کی ہر طاقت و کمزوری سے بڑی اچھی طرح واقف ہو چکے تھے چنانچہ جب سکھ خالصہ نے وادی سوات کے یوسفزئیوں سے جنگ شروع کی تو شاہ اسماعیل شہید نے بھی سکھ خالصہ پر پے در پے حملے شروع کر دیے ان حالات میں سکھ خالصہ کو دو دو طاقتوں سے لڑنا پڑا چنانچہ نواب سدھنوتی نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے سدھنوتی میں بھی سکھ خالصہ سے بغاوت کر دی جو کامیاب ثابت ہوئی[12] شمس خان سدوزئ نے اس بغاوت میں آٹھ سو سکھ فوجیوں کے قتل عام کے ساتھ ہی نہ فقط ریاست سدھنوتی بلکہ ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر بھی قبضہ کر کے 22 مئی 1832 کو منگ سدھنوتی پر حکمرانی کا اعلان کر دیا [13]

تیسری شمس خان سدوزئ سکھ سدھنوتی جنگ[ترمیم]

ریاست سدھنوتی کے نواب شمس خان سدوزئ کی بغاوت کامیاب ثابت ہوئی شمس خان نے سدھنوتی سمیت ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا ایسے حالات دیکھتے ہوئے سکھ خالصہ نے ریاست سوات اور امیر شریعت شاہ اسماعیل شہید سے ترک جنگ کر کے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاست سدھنوتی سے اخری فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر لی[14][15] یوں بھی سکھ خالصہ اس وقت کی سپر پاور تھی جس کی سالانہ دو کروڑ 46 لاکھ نانک شاہی سکہ آمدن تھی جبکہ ریاست سدھنوتی کے پاس پندرہ قلعے چار ہزار فوج اور سالانہ 45000 آمدن والی انتہائی مختصر پہاڑی ریاست جس نے ہر مرتبہ سکھ خالصہ کو ایسے زخم دیے جسے سکھ خالصہ برسوں تک چاٹتے رہے چنانچہ اسی انتقام میں سکھ خالصہ نے چالیس ہزار فوج اور آٹھ سو توپوں کے ساتھ ریاست سدھنوتی پر 22 مئی 1832 کو تیسرا بڑا حملہ کیا [16] حملہ اتنا شدید تھا جس نے ریاست سدھنوتی میں سدوزئیوں کی ایٹ سے ایٹ بجا دی اس جنگ میں پچس ہزار سدوزئ مارے گئے جن میں چھ ہزار بچے اور خواتین بھی شامل تھے پانچ ہزار سدوزئ جنگی قیدی بنے 27 سدوزئ جرنیلوں کی زندہ جسم سے کھال تک اتار دی گئی پانچ ہزار قیدیوں میں بھی سیکڑوں سدوزئیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں مار دیا گیا چنانچہ پچس سے تیس ہزار سدوزئیوں کی اس خون ریزی کے بعد ریاست سدھنوتی سے 478 سال بعد سدوزئ اقتدار کا خاتمہ آخری نواب شمس خان سدوزئ کی بعد شہادت ہوا [17]

  1. J. S. Grewal, The Sikhs of the Punjab, Volumes 2–3, Cambridge University Press, 8 Oct 1998, p.120
  2. Charles E. Buckland (1999)۔ Dictionary of Indian Biography۔ Cosmo Publication۔ صفحہ: 128–۔ ISBN 978-81-7020-897-6۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2018 
  3. History of the Punjab Hill States by Hutchison and Vogel, reprinted edition, 2 volumes in 1 Chapter XXIV. 1933 AD
  4. "Michael Madhusudan Dutta"۔ Calcuttaweb۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2018  [self-published source]
  5. Sir Alexander Cunningham, Four Reports Made During The Years 1862-63-64-65, (The Government Central Press, 1871), Volume I, Page 13.[1]
  6. Hastings Donnan, Marriage Among Muslims: Preference and Choice in Northern Pakistan, (Brill, 1997), 41.[2]
  7. Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 51 
  8. Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India 
  9. Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India 
  10. Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3 
  11. Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3، The Sudhans claim their origin from Afghanistan and they consider themselves to be descendants of a common ancestor Jassi Khan, 
  12. Pizada Irshad Ahmad (2003)۔ A Hand Book on Azad Jammu & Kashmir۔ Nawab Sons Publication۔ صفحہ: 152۔ ISBN 9789695300503 
  13. Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ Kashmir History۔ صفحہ: 52  النص "location" تم تجاهله (معاونت)
  14. Manohar Lal Kapur، Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 52 
  15. Arjun Nath Sapru (1931)۔ The Building of the Jammu and Kashmir State۔ India۔ صفحہ: 5 
  16. Muhammad Yusuf Saraf (1977)۔ Kashmiris Fight for Freedom۔ India: Ferozsons۔ صفحہ: 88 
  17. محمد دین فوق، تاریخ اقوام پونچھ،