نواب واجد علی شاہ کی گوپیاں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جب کوئی قوم زوال پزیر ہوتی ہے تو اس کے رنگ ڈھنگ اور شوق کتنے بدل جاتے ہیں۔ برصغیر میں عہد زوال میں لکھنؤ کے شاہان صرف نام کے بادشاہ رہے تھے۔ وہ رزم ہٹ کر بزم میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے یہ شوق و انداز جو انھوں نے اپنائے یہ زوال پزیری نشانیاں ہیں مگر یہ جذبات کے اظہار کا راستہ ہیں۔ یہاں آخری تاجدار نواب واجد علی جان علم عرف رنگیلے کی بیگمات کا مختصر سے تذکرہ ہے۔

تعداد[ترمیم]

لکھنؤ میں جان عالم کی بیویوں کی تعداد تین سو زائد تھی۔ جو لکھنؤ کے قیصر باغ میں مقیم تھیں۔ جان عالم کے محبانہ خطوط جو انھوں نے بعض بیگمات کو لکھے تھے اپنی رنگینی بیان معنی آفرینی سے دنیائے ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں۔ کلکتہ میں ان کی نکاحی بیویوں کے علاوہ متاعی بیویوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔ انھیں آٹھ درجوں میں تقسیم کرکے ڈیڑھ سو سے پندرہ سو روپے گزارے کے لیے دیے جاتے تھے۔ بعض کو یکمشت رقم دے کر رخصت کر دیا گیا تھا۔ ان کی متاعی بیویوں کو تین حصوں محلات، بیگمیں اور خلوقیان میں تقسیم کیا ہے       ۔

خطابات[ترمیم]

محلات[ترمیم]

یہ وہ بیویاں جو صاھب اولاد تھیں۔ مثلاً فخر محل، نازک محل، الفت محل اور ممتاز محل وغیرہ۔

بیگمیں[ترمیم]

یہ وہ بیویاں تھیں جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ مثلاً افضل بیگم چندری بیگم، مہر بیگم چمن بیگم وغیرہ۔

خلوقیان[ترمیم]

ان سے متعہ کر لیا گیا تھا مگر یہ بعض ادنیٰ خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔ مثلاً مصفا بیگم، آبرساں بیگم، آبدار جان بیگم، امانی بیگم وغیرہ۔

اسیری[ترمیم]

کلکتہ میں جب فورٹ ولیم میں اودھ کے کنھیا کو نذر بند کر دیا گیا تو واجد علی شاہ اپنی گوپیوں یا بیگمات سے زندگی میں پہلی بار جدا ہوئے۔ جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا اور تنہائی سے گھبرا کر معزول شاہ اپنی محبوب بیگمات سے ان کی نشانیاں طلب فرماتے اور اپنے زخمی دل کو تسکین پہنچاتے۔ جو بیگمات ان کی فرمائش پوری کردیتیں وہ ان سے خوش ہوجاتے اور جو شوخ مزاجی سے ٹال جاتیں ان سے انھیں گلے شکوے رہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے دلدار محل سے مسی، صغرا بیگم سے ڈوپٹہ، قیصر بیگم سے پاؤں کا چھلا، معشوق محل سے کٹے ناخن اور اختر محل سے ذلفوں کے بال، دلدار محل نے اپنی مسی، اختر محل نے اپنے بال بھیجے۔ واجد علی شاہ ہمشہ انھیں اپنی نگھاؤں کے سامنے رکھتے اور بار بار سونگھتے۔ بعض نے کچھ نہیں بھیجا تھا۔ اختر محل کے یہاں سے روزانہ ایک خوان کھانے کا اور پانچ گلوریاں پان کی آتی تھیں۔ واجد علی شاہ نے قید ہونے کے باوجود انھیں تیس ہزار روپیہ نقد عطا کیے۔ اس بارے میں خود ہی لکھتے ہیں۔

منظوم[ترمیم]

نہ بھیجی کسی نے مجھے کوئی چیز

کسی نے نہ کی دوستی کی تمیز

مگر ہاں اک اختر محل ہے لٰیئق

وہ زندہ میں میری ہوئی ہے رفیق

رکھے موئے سر اپنے دل کے قریں

یہ سمجھا کہ دل میں ہے وہ مہ جبیں

وہ پہنچاتی ہے مجھ کو خوان طعام

تو آتا ہے ہر روز اے نیک نام

عجب اس میں کیا کس کی دختر ہے وہ

وہ اختر ہے مہر منور ہے وہ

اسی دن کو ہیں ذی حسب کا کے

اس دن کو ہیں خوش نسب کام کے

ان بیویوں میں مشہور نواب حضرت محل صاحبہ، نواب عالم آرا بیگم بیاہتا بیوی تھیں، نواب اختر محل صاحبہ، رونق آرا بیگم، نواب اشتیاق محل۔ نواب سلیماں محل صاحبہ، نواب امیر محل صاحبہ، پری محل، عاشق محل نواب انجم النساء بیگم صاحبہ، نواب معشوق محل صاحبہ، سکندر محل، سرفراز محل، نواب سلطان جہاں محل، چتر محل اور ممتاز محل ثالث زیادہ مشہور ہیں۔

ماخذ[ترمیم]

شیخ تصدیو حسن۔ بیگمات اود