نوید انجم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نوید انجم ٹیسٹ کیپ نمبر 113
ذاتی معلومات
پیدائش (1963-07-27) 27 جولائی 1963 (age 60)
لاہور, پنجاب، پاکستان, پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا فاسٹ میڈیم گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 113)23 نومبر 1989  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ26 اکتوبر 1990  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
پہلا ایک روزہ (کیپ 48)26 مارچ 1984  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ایک روزہ30 دسمبر 1992  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 2 13
رنز بنائے 44 113
بیٹنگ اوسط 14.66 12.55
100s/50s -/- -/-
ٹاپ اسکور 22 30
گیندیں کرائیں 342 472
وکٹ 4 8
بولنگ اوسط 40.50 43.00
اننگز میں 5 وکٹ - -
میچ میں 10 وکٹ - n/a
بہترین بولنگ 2/57 2/27
کیچ/سٹمپ -/- -/-
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006

نوید انجم (پیدائش: 27 جولائی 1963ء لاہور, پنجاب) ایک سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے جنھوں نے 1984ء سے 1992ء تک 2 ٹیسٹ اور 13 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے۔ وہ دائیں ہاتھ کے ایک بلے باز اور زبردست ایکشن کے مالک دائیں ہاتھ کے باولر تھے جنھوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ حبیب بینک لمیٹڈ ، لاہور، پاکستان ریلوے، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی

ٹیسٹ کرکٹ[ترمیم]

نوید انجم کو بھارت کے خلاف فیصل آباد کے مقام پر 1989ء میں کرکٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ انھوں نے بیٹنگ میں صرف 12 رنز بنائے مگر ٹیسٹ میں انھوں نے 4 وکٹیں حاصل کیں۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 288 رنز بنائے۔ سنجے منجریکر 76 اور سچن ٹنڈولکر 59 کے ساتھ نمایاں بلے باز تھے۔ نوید انجم نے سنجے منجریکر کو سلیم ملک کے ہاتھوں کیچ کروا کے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ کو ممکن بنایا۔ انھوں نے بعد میں کپل دیو کو بھی آئوٹ کیا۔ اس طرح پہلی اننگ میں انھوں نے 57 رنز کے عوض 2 وکٹیں اپنے قبضے میں کیں۔ بھارت کی دوسری اننگ میں بھی نوید انجم 2 مزید وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے جس کے لیے انھیں 92 رنز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ اس بار انھوں نے سنجے منجریکر اور محمد اظہر الدین کو کریز سے رخصت کیا تھا۔ یہ ٹیسٹ برابری پر اختتام پزیر ہوا۔ نوید انجم کو ایک سال کے بعد 1990ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف فیصل آباد ہی کے مقام پر میچ کا حصہ بنایا گیا جس میں وہ 10 اور 22 رنز بنانے کے علاوہ بولنگ میں 13 رنز کے عوض کوئی وکٹ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

ون ڈے کرکٹ[ترمیم]

نوید انجم کو 1984ء میں انگلستان کی مہمان ٹیم کے خلاف کراچی کے ایک روزہ مقابلے میں ڈیبیو کا موقع ملا جس میں انھوں نے 9 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلستان کی 6 وکٹوں سے فتح پر ختم ہونے والے اس میچ میں نوید انجم نے ایلن لیمب کو 19 رنز پر سلیم ملک کے ہاتھوں کیچ کروا کے اپنی پہلی بین الاقوامی وکٹ حاصل کی تھی۔ اسی سیزن میں اس نے کوئٹہ میں بھارت کے خلاف 27/2 کی کارکردگی دکھائی جبکہ 1992ء میں لارڈز کے میدان پر انگلستان کے خلاف ان کے حصے میں 48/2 کے اعداد و شمار آئے۔ نوید انجم نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں ملی جلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1984ء میں بھارت کے خلاف کوئٹہ میں ان کے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سب سے زیادہ رنز ہیں۔ ان کا ایک روزہ بین الاقوامی کیریئر 1992ء میں اپنے اختتام کو پہنچا جب نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ کے میچ میں کھیلنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے 30 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔

کرکٹ چھوڑنے کے بعد[ترمیم]

بین الاقوامی کرکٹ چھوڑنے کے بعد انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ میں ملازمت شروع کر دی۔ انھوں نے کینیڈا میں 2001ء کی آئی سی سی ٹرافی میں متحدہ عرب امارات کی کوچنگ کی۔ وہ فیصل آباد ریجنل ٹیم، فیصل آباد وولوز فرنچائز اور ملتان کے ہیڈ کوچ کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔

اعداد و شمار[ترمیم]

نوید انجم نے 2 ٹیسٹ میچوں کی 3 اننگز میں 44 رنز بنائے۔ 14.66 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 22 اس کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ انھوں نے 13 ایک روزہ مقابلوں کی 12 اننگز میں 3 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 30 کے سب سے زیادہ انفرادی سکور کے ساتھ 113 رنز بنائے جس کی اوسط 12.55 تھی۔ نوید انجم نے 151 فرسٹ کلاس میچوں کی 235 اننگز میں 20 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 5981 رنز سکور کیے۔ 27.81 کی اوسط سے بنائے جانے والے اس مجموعہ میں 159 ان کے کسی ایک میچ کا سب سے بڑا انفرادی سکور تھا۔ 6 سنچریاں اور 27 نصف سنچریاں بھی معاون ثابت ہوئیں۔ نوید انجم نے 162 رنز دے کر 4 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں۔ 2/57 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین بولنگ اور 4/149 کسی ایک میچ کی بہترین کارکردگی انجام پائی تھی۔ اسے 40.50 فی وکٹ اوسط ملی۔ ایک روزہ مقابلوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 8 تھی جس کے حصول کے لیے انھوں نے 344 رنز دیے تھے۔ 2/27 ان کے کسی ایک کی بہترین بولنگ پرفارمنس تھی۔ نوید انجم نے 8777 رنز دے کر 409 فرسٹ کلاس وکٹوں کے حصول میں کامیابی حاصل کی۔ 9/35 ان کے کسی ایک میچ میں بہترین کارکردگی کے اعداد و شمار تھے۔ 21.45 کی اوسط سے حاصل کیے گئی ان وکٹوں میں 23 مرتبہ کسی ایک اننگ میں 5 اور دو مرتبہ ایک اننگ میں 10 وکٹوں کا حصول بھی شامل تھا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]