کڈپہ ضلع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(وائی۔یس۔آر۔ ضلع سے رجوع مکرر)

کڈپہ
ضلع
Montage of Kadapa city. clockwise from Top Left: A Clock tower in Kadapa, Railway Station, An Industry near Kadapa, RIMS Dental College in Kadapa
Montage of Kadapa city. clockwise from Top Left: A Clock tower in Kadapa, Railway Station, An Industry near Kadapa, RIMS Dental College in Kadapa
آندھرا پردیش، بھارت میں ضلع کڈپہ کا جغرافیائی خاکہ
آندھرا پردیش، بھارت میں ضلع کڈپہ کا جغرافیائی خاکہ
ملکبھارت
ریاستآندھرا پردیش
Regionرائل سیما
وجہ تسمیہوائی یس راجشیکھر ریڈی
رقبہ
 • کل15,379 کلومیٹر2 (5,938 میل مربع)
بلندی378.7 میل (1,242.5 فٹ)
آبادی (2001)
 • کل2,601,797
 • کثافت169/کلومیٹر2 (440/میل مربع)
زبانیں
 • دفتریتیلگو زبان, اردو
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
آیزو 3166 رمزآیزو 3166-2:IN
ویب سائٹkadapa.ap.nic.in

کَڈَپَہ ضلع (Kadapa District) (تیلگو زبان :కడప జిల్లా) یا وائی۔ یس۔ آر۔ ضلع (انگریزی: YSR district) - بھارت کی ریاست آندھرا پردیش کے 13 اضلاع میں سے ایک ہے۔ یہ رائل سیما علاقے میں واقع ہے۔ اس کا صدرمقام شہر کڈپہ ہے۔ اس ضلع کی آبادی 2001 مردم شماری کے حساب سے 2,601,797 ہے۔ [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ censusindiamaps.net (Error: unknown archive URL)

اس ضلع میں 3 ریونیو ڈیویژن اور 51 منڈل ہیں۔

آندھرا پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ وائی۔ یس۔ راجسیکھر ریڈی اسی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

صوبہ آندھراپردیش میں رائل سیما کے اضلاع میں، ضلع کڑپہ تاریخی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی اعتبارسے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ سلطان عبد اللہ قطب شاہ (1626-1672ء) کے مشہور سپہ سالار محمد سعید میر جملہ نے ایک منظم حملے کے بعد کڑپہ اور سدھوٹ کو فتح کیا۔ اس طرح کڑپہ قطب شاہیوں کے زوال تک ان کے زیر اقتدار رہا۔ دکن میں جب مغلیہ سلطنت کی داغ بیل پڑی تو قطب شاہی سلطنت کے عامل کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے عبد النبی خاں نے مغلوں کی تابعداری قبول کرلی اور اس طرح کڑپہ پر پٹھانوں کا قبضہ ہو گیا۔ ضلع کڑپہ کے نوابوں کا خاندان ’’میانا‘‘ کہلاتا ہے۔ نیک نام خان نے ’’نیک نام آباد‘‘ کے نام سے یہ شہر بسایا تھا جو وقت کے گزرتے گزرتے کڑپہ کہلایا۔ کڑپہ کا قدیم نام نیک نام آباد تھا، بعد میں یہ کڑپہ اور پھر گڑپہ میں تبدیل ہو گیا۔ خطہ کڑپہ کرۂ ارض کا ایک قدیم ترین خطہ ہے۔ کڑپہ کی قدیم تاریخ کے آثار پتھر کے دور میں دریافت ہوئے۔ تہذیبی، ثقافتی و تمدنی لحاظ سے جنوبی ہند کا ایک اہم علاقہ ہے۔ موجودہ دور میں تہذیبی و ادبی خدمات کے اعتبار سے حیدرآباد کے بعد ضلع کڑپہ سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے اپنے ایک مضمون ’’کڑپہ ایک تاریخی شہر ہے‘‘ میں لکھا ہے: ’’کڑپہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ شہر ادبا، شعرا، علما و فضلا کا معنون رہا ہے اس کا تمدنی و تہذیبی حلیہ بڑا ہی تابناک اور بہت ہی پاک رہا ہے یہ شہر علما و حکما کا مسکن بھی تھا اور اہلِ حرفت و اہلِ سنت کا مئامن بھی تھا ۔۔۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی برابر قدر افزائی کی تھی۔‘‘ (کڑپہ ساونیر، 2006ء، ص: 2) یہاں کئی ہندو راجا حکومت کرچکے ہیں زمانہ قدیم سے یہاں تلگو اور دوسری زبانیں بولی جاتی تھیں یہ زبانیں چھٹی اور ساتویں عیسوی سے بولی جاتی تھیں اس سے قبل سنسکرت کا بول بالا رہا ہے۔ بہ قول محمود شاہد: ’’کڑپہ پر جن حکمرانوں نے حکومت کی ان میں ساتاواہنا، پلاوا، راکشواس، چالوکیا اور کاکتیہ حکمران قابل ذکر ہیں۔‘‘ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک فوجی سردار نے جس کا نام نیک نام خاں تھا اس علاقے میں مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی اور اس علاقہ کا نام نیک نام آباد رکھا مغل حکومت کے سقوط و انتشار کے بعد صوبہ داروں نے اپنی ریاستیں قائم کر لیں ان میں میانہ خاندان کی حکومت بھی ہے بہ قول ڈاکٹر راہی فدائی: ’’حاکم وقت نواب میانہ عبد النبی نے شہر کڑپہ کے مندروں اور مسجدوں کو انعام و اکرام سے خوب نوازا تھا جس کا تابندہ ثبوت آج بھی یہاں کی عبادت گاہوں اور صنم کدوں میں جلوہ گر ہے۔‘‘ (کتاب مذکور، ص: 2) عبدالنبی خاں ابن عبد الکریم خاں نے نیک نام آباد سے کڑپہ کیا ’’کڑپہ یا گڑپہ‘‘ کے معنی دہلیز کے ہیں یہ مذہبی سفر کا پہلا پڑاؤ ہے یہاں سے ہوتے ہوئے مسافر تروپتی مندر کا سفر کرتے ہیں۔ سرزمین کڑپہ میں اردو زبان کئی صدیوں سے رائج ہے۔ شعری مجموعہ ’’اسلوب‘‘ کے حرف اولین میں مولانا مولوی سید شاہ مصطفی حسین بخاری قادری نے انگریزی محقق و مورخ ڈی۔ جی۔گربل کا قول نقل کیا ہے: ’’کڑپہ میں مسلمانوں کے قیام کو 1570ء قرار دیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ زبان اسی وقت سے رائج ہے۔‘‘ (اسلوب از حبیب احمد ساجد، ص: 9)

جغرافیہ[ترمیم]

رائل سیما کے اضلاع میں ضلع کڑپہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس ضلع کے شمال میں کرنول ضلع کی سرحد جنوب میں چتور کی سرحد، مشرق میں نیلور ضلع کی سرحد اور مغرب میں اننت پور ضلع کی سرحد موجود ہے۔ ضلع کڑپہ 15378 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کی زمین لال، کالی اور ملی جلی مٹی کی زمین ہے۔ کڑپہ کی تاریخی عمارتوں میں ’’سدھوٹ‘‘ بہت مشہور ہے جو شہر سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہاں پر لگ بھگ 18 راجاؤں نے حکومت کی اور 1807ء سے 1812ء تک یہ ضلع کا مرکز رہا ہے۔ دوسری عمارت گنڈی کوٹا جو کڑپہ سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر اقع ہے جس کی اونچائی تقریباً 40 فٹ ہے۔ یہاں پر پائے جانے والے میوزیم کے نام اگر لیے جائیں تو بھگوان مہاویر میوزیم اور میلاورم میوزیم قابلِ ذکر ہیں۔

محل وقوع[ترمیم]

یہ ضلع، سطح سمندر سے 378.7 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

اہم دریا اور ندیاں[ترمیم]

ضلع کڑپہ کی مشہور ندیوں میں پینا، کندور، سگیلیر، چئیرو، پاپگھنی وغیرہ اہم دریا ہیں۔ چتراوتی ندیاں اہم ہیں اور پراجکٹوں میں میلاورم، پِنچھا، بوگا ونکا ،انامیا، لویر سگی لیرو، اپّر سگی لیرو، تیلگو گنگا، کے۔ سی۔ کینال، پُلی ویندلا برانچ نالا، وغیرہ موجود ہیں اور 224 بڑے تالاب اور 1602 چھوٹے تالاب پائے جاتے ہیں۔

انتظامیہ[ترمیم]

ضلع کڑپہ کو تین زون میں تقسیم کیا گیا ہے (1) جمّل مڈگو، (2) راجم پیٹ اور (3) کڑپہ اور دو بلدیہ کا نظم و نسق یہاں پر ہے جو پردوٹور اور کڑپہ میں قائم ہے۔

یہاں تقریباً 51 روینیو منڈل، 880 روینیو قریے ہیں اور مجرا قریوں کی تعداد تقریباً 4254 (Habitation) یہاں کی آبادی تقربیاً 25.73 لاکھ ہے تقریباً 950 گرام پنچائت قائم ہیں۔

مذاہب اور تہذیب[ترمیم]

ضلع کڑپہ میں مشترکہ تہذیب پائی جاتی ہے یہاں پر کئی مذاہب کے نمونے جیسے مندروں، مسجدوں، خانقاہوں، مٹھوں، درگاہوں اور کلیساؤں کی تعمیرات ہیں۔ ضلع کڑپہ کی تاریخ بہت قدیم ہے 274-236 قبل مسیح میں مہاراجا اشوک اس علاقہ پر حکومت کرتا رہا۔ بعد ازاں ساتا واہن خاندان نے بھی یہاں حکومت کی۔ 250-450 کے دور میں پلّاوا راجاؤں نے اور راشٹرا کوٹ چولا، کلیانی چالوکیہ اور کاکتیہ حکمران کے بعد دیگرے اس علاقے پر حکومت کرتے رہے۔ ایک طویل عرصے سے کڑپہ شہر علمی، ادبی و مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ کڑپہ میں کئی ادبی انجمنیں و محفلیں قائم ہیں مثال کے طور پر ’’بزم زکی‘‘، ’’انجمن ترقی اردو شاخ کڑپہ‘‘، ’’مسلم اسوسیشن کڑپہ‘‘، ’’اردو کلچرل اینڈ لیٹریری اسوسیشن کڑپہ‘‘ ان ادبی محفلوں اور انجمنوں کے تحت شہر کڑپہ میں بے شمار تعلیمی، تہذیبی و ادبی محفلیں سجتی رہتی ہیں۔ ہر سال کم از کم دو تین کل ہند مشاعروں کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ہندوستان کے مشہور و معروف شعرا کو مدعو کیا جاتا ہے۔ (کڑپہ میں اردو نثر وسیلہ،یکم مارچ 2009ء) علاوہ ازیں یہاں منادر و مساجد اور گرجا گھر بھی پائے جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ آستانوں اور خانقاہوں کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ آستانوں میں ’’آستانہ مخدوم الہی‘‘، ’’آستانہ شہمیریہ‘‘، آستانہ بخاریہ‘‘، ’’من عرف گنج بخش‘‘، ’’آستانہ میر قدیری‘‘، ’’آستانہ رقبیہ‘‘، ’’آستانہ بغداویہ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔

صنعت[ترمیم]

ضلع کڑپہ میں سیشاچلم پہاڑی سلسلہ بھی موجود ہے۔ جس کو نلّاملّا پہاڑی بھی کہا جاتا ہے کڑپہ کے خربوزے اور پان بہت مشہو رہیں یہاں چاول، گیہوں، جوار، ہلدی، مونگ پھلی اور کپاس کی پیداوار ہوتی ہے اس علاقے میں ایک خاص قسم کے سفید نرم پتھر کی کانیں موجود ہیں جن کو انگریزی میں بیراٹیس (Biratees) کہا جاتا ہے۔ مشینوں کے ذریعے اس کا سفوف بناتے ہیں جس کو پٹرول کے صاف کرنے اور رنگ میں چمک پیدا کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ یہ ضلع سمنٹ کی صنعتوں کے لیے بھی مشہور ہے یراگنٹلا (Yerraguntla) کی صنعت کا اس سلسلے میں نام لیا جا سکتا ہے۔ مُدّنور کے قریب ایک تھرمل پَور ہے جو ساری ریاست کے لیے برقی فراہم کرتا ہے۔

یہ ضلع سمینٹ کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ گرانائٹ، بائرائٹ کے کان کافی ہیں۔

ادبی پس منظر[ترمیم]

اردو ادب میں کڑپہ کا ذکر سب سے پہلے عہد سلطان علی عادل شاہ ثانی کے باکمال شاعر سید میراں جی میاں ہاشمی بیجاپوری کے اشعار میں ہمیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’کڑپہ میں اردو‘‘ میں ان اشعار کا حوالہ دیا ہے۔ اگر تین سو سالہ ادبی تاریخ کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے اردو شعرا کا تذکرہ کیا جائے تو کئی ادبا و شعرا کی خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ضلع کڑپہ میں پچھلی چار صدیوں سے اردو کو فروغ حاصل ہوا ہے یوسف صفی نے اپنے ایک مضمون کڑپہ میں اردو اسٹیج اور ڈراما میں لکھا ہے: ’’رائلسیما میں عموماً اور کڑپہ میں خصوصاً اردو زبان، ادب و فن اور فنون لطیفہ کا زرین دور 1940ء سے 1960ء تک کا ہے۔ یہاں اردو والوں کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ رہا ہو جہاں سال کے ہر مہینے میں مشاعرہ، محفل قوالی، نعت و منقبت کی مجلس، مرثیہ گوئی اور قصہ و داستاں گوئی کی انجمنیں آراستہ نہ کی جاتی رہی ہوں۔ نقالی بھانڈ، نکر ناٹک (ڈراما)، رقص و موسیقی کی دلکش محفلیں نہ سجائی جاتی رہی ہوں 1960ء تک پہنچتے پہنچتے فنون لطیفہ کا شجر قدآور ہو گیا اور اپنی مضبوط جڑیں دور دور تک پھیلانے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ (یوسف صفی کڑپہ میں اردو اسٹیج اور ڈراما، ص: 1) شہر کڑپہ اردو ادب کا گہوارہ رہا ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں پر دکنی کے مشہور شاعر ابن رضا نے "قصیدۂ بردہ" کا دکنی میں ترجمہ کیا اور محمد حیدر نے ابن نشاطی کی مثنوی پھول بن میں تین سو اشعار کا اضافہ کیا ہے بہ قول ڈاکٹر ستّار ساحرؔ : ’’کڑپہ کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہاں شعر و شاعری کی بنیاد پہلے پڑی اور اس کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ کڑپہ کے ابتدائی شعرا میں دکنی کے قدآور شاعر ابن رضا کڑپہ کے نامور حاکم خاں بہادر عبد النبی خاں کے دربار سے وابستہ تھے جنھوں نے نعتیہ تخلیق قصیدۂ بردہ کا سب سے پہلے دکنی میں ترجمہ کیا تھا محمد حیدر بہ معروف ابن جعفر کا شمار اسی دور کے شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے قطب شاہی شاعر ابن نشاطی کی مثنوی ’’پھول بن‘‘ میں تین سو اشعار کا اضافہ کیا تھا مشہور شاعر ولی ویلوری نے بھی یہاں کے دربار سے وابستہ رہ کر مثنوی رتن پدم تصنیف کی تھی۔ خانوادۂ شہمیریہ کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں اس خاندان کے بزرگوں میں کئی صاحب دیوان شاعر گذرے ہیں و نیز تصوف کے مسائل پر کئی رسالے کتب بھی نثر میں تصنیف و تالیف کیے مثلاً "اسرار التوحید"، "رسالہ عینیت وغیریت" (حضرت شاہ میر اول)، بیرنگ کا نعتیہ کلام، دیوانِ شہمیر ثالث، حقیقت محمدیہ (شہمیر ثالث)، بستانا المعروفت (سالک)، دیوان محزن العرفان (شاہ کمال)، دیوانِ مقبل (مقبل) وغیرہ۔‘‘ (ساو نیر کڑپہ سنہ 2006ء، ص: 15) اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کڑپہ کئی ادبا و شعرا کا مسکن رہا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ شہر کڑپہ کئی صدیوں سے مختلف مذاہب، عقائد اور تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے کہا: ’’شہر کڑپہ ایک دلنواز سرزمین ہے جو زمانہ دراز سے روحانی فیوض و برکات، شعری و ادبی کارناموں، تہذیبی اقدار، محبت و اخلاص، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ششتگی و شائستگی کی اپنی ایک مہتم بالشان تاریخ رکھتی ہے۔‘‘ (خطبہ صدارت بہ تقریب 56 واں مشاعرہ آستانہ مخدوم الہٰی، ص: 4)

ضلع کڈپہ میں اردو ادب[ترمیم]

آندھرا پردیش کے رائل سیما علاقے میں، کرنول ضلع کے بعد کڈپہ ضلع کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اردو مدارس، مکاتب، ثانوی مدارس، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے قابل شمار ہیں۔ اردو کے اجلاس، سیمینار، مشاعرے، قوالیاں، عام ہیں۔ علاقائی اعتبار سے قابل قبول شعرا کی تعداد بھی کافی اچھی ملتی ہے۔ ادب ذوق، ادب نواز، اردو دان قابل ذکر تعداد میں ہیں۔

ضلع کڈپہ کے قدیم شعرا کا تذکرہ[ترمیم]

اہم شعرا[ترمیم]

ضلع کڈپہ میں ادب برائے اطفال[ترمیم]

کڈپہ میں بچوں کے ادب پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ جس میں بچوں کو علم و ادب کی طرف راغب کرنے اور اخلاقی تعلیم میں دلچسپی بڑھانے کی خاطر کئی نظمیں تخلیق کیے جا رہے ہیں اور انھیں کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کی بے انتہا کوشش کی جا رہی ہے۔ سنہ 2014 کو ‘‘ دھنک ‘‘ کے نام سے ستار فیضی نے بچوں کی نظموں کو منظر عام پر لایا ہے، جس میں مختصر نظمیں، قطعات، وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح شکیل احمد شکیل کی اور امام قاسم ساقی کی نظمیں بھی کئی مدارس میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ خصوصاََ امام قاسم ساقی کو کیرالہ کے SCERT کے ورک شاپ میں مدعو کیا گیا اور ان کی لگ بھگ بارہ (12) نظمیں کیرالہ کی سرکاری نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ بچوں کے ادب میں اہم شعرا ستار فیضی، نور محمد جالب اور شکیل احمد شکیل ہیں۔

تفصیلات[ترمیم]

وائی۔ یس۔ آر۔ ضلع کا رقبہ 15,379 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 2,601,797 افراد پر مشتمل ہے۔

اہم شہر[ترمیم]

  1. کڈپہ
  2. میدوکور
  3. پلی ویندولہ
  4. راجمپیٹ
  5. رائے چوٹی
  6. بدویل
  7. جملا مڈوگو

قابل دید علاقے[ترمیم]

کڈپہ شہر، شہر میں آستانئہ مخدوم الٰہی، آستانئہ شہمیریہ، گنڈی قلہ، وغیرہ۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حواشی[ترمیم]

  • یہ مضمون مقالہ “ شعرائے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات “ سے لیا گیا ہے : مقالہ نگار امام قاسم ساقی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مندرجہ بالا قدیم شعرا کا تذکرہ راہی فدائ کی کتاب کڈپہ میں اردو سے لیا گیا ہے

بیرونی روابط[ترمیم]