وادیٔ سندھ کی تہذیب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
وادیٔ سندھ کی تہذیب
جغرافیائی حدودایشیا
دورکانسی دور
تاریخc. 3300 ق-م – 1700 ق-م[1][2]
اس کے بعدویدک دور
پسنی میں وادی سندھ تہذیب کے مکانات کی ایک تشبیہ
وادی سندھ تہذیب میں آباد لوگوں کی کھوپڑیاں جو آج بھی بھارتی عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔
کوئٹہ میں دریافت شدہ برتن، جو تقریباََ 2500–1900 قبل مسیح میں بنایا گیا تھا

وادیٔ سندھ کی تہذیب سنہ 3800 سے 1300 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادیٔ سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔

سوتی کپڑا کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔

خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کر دیا۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔

دریافت[ترمیم]

1921ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔ 1931ء میں فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا۔ اس اثنائ میں محکمہ نے دوسرے مقامات پر اثری تلاش شروع کی۔ اس میں بڑی کامیابی ہوئی اور پتہ چلا کہ یہ قدیم تہذیب موہنجوداڑو اور ہڑپہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سلسلہ صوبہ سندھ میں چنہودڑو، جھوکر، علی مراد اور آمری اور صوبہ پنجاب میں روپر اور بلوچستان میں نال اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔

جغرافیائی پھیلاؤ[ترمیم]

وادئ سندھ کے اہم مراکز لال نقطوں سے ظاہر کیے گئے ہیں۔

وادی سندھ سے صرف موجودہ سندھ مراد نہیں بلکہ موجودہ پاکستان، افغانستان کا مشرقی حصہ، بھارت کا مغربی حصہ وادئ سندھ میں شمار ہوتا ہے۔ وادئ سندھ مغرب میں پاکستانی صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں اتر پردیش تک پھیلا ہوا ہے،جبکہ شمال میں افغانستان کے شمال مشرقی حصے سے لے کر جنوب مغرب میں بھارتی ریاست مہراشٹرا تک پھیلی ہوئی تھی۔

سندھ و گنگ کا میدان

سندھ و گنگ کا میدان (انگریزی: Indo-Gangetic Plains) ایک بہت بڑا میدانی علاقہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصّے میں واقع ہے۔ اس میدان کا نام سندھ اور گنگا کے دو بڑے دریاؤں پر پڑا ہے جن کی وجہ سے اس میدان کی زمین بے حد زرخیز ہے۔ یہ میدان چار ملکوں میں پھیلا ہوا ہے - پاکستان، ہندوستان، نیپال اور بنگلہ دیش.

اہمیت[ترمیم]

ابھی ہم متاخر حجری عہد سے گزرتے ہی سندھ کی وادی میں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے، بستیاں بسنے، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ اب یک بارگی ہمیں عالی شان شہر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات وادی سندھ کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔

وادی سندھ کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور مغربی ایشائی کے تہذیبی عروج و زوال کا تمتہ تھی۔ لیکن 1950ء میں ڈاکٹر ایف اے خان نے کوٹ ڈیجی کی کھدائی کی۔ اس سے نئی چیزیں سامنے آئیں اور پرانے تصورات میں تبدیلی واقع ہوئی۔ کوٹ ڈیجی میں ہڑپہ کے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون آبادی ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ریڈیو کاربن کے ذریعے کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ آبادی ہڑپہ سے بھی 800 سال پرانی ثقافت ہے۔ اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے۔ یہ مقامی سماج کے ارتقا کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانوی اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے۔ اس کا دائرہ اثر شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں ساحل سمندر تک ہے۔ جہاں یہ بلوچستان کے ساحل سے لے کر کاٹھیاواڑ تک محیط ہے۔ پرانی کھدائیوں میں اس تہذیب سے وابستہ شہر اور قبضے بیالیس کی تعداد میں تھی۔ اب اس کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا، جھنگ، بٹھیال، وادی سوات میں غالاگئی، وادی گومل میں کے کئی مقامات، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں۔ بھارت میں دریائے گھگھر (ہاکڑہ) اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان آثار سے پر ہے۔ اس میں راجپوتانہ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے صوبے شامل ہیں۔ یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن، سیسوال، بانے والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے شہر تھے۔ ان کے علاوہ چھوٹی بستیاں بہت زیادہ ہیں۔

اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا شہر موہنجوداڑو تھا۔ بعد میں اب گنویری والا ملا ہے۔ جو ہڑپہ سے بڑا شہر ہے لیکن ماہرین زیادہ اہمیت ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو دی۔

بڑے شہروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آبادی وسیع تھی۔ شہروں میں تو تھی ہی، دیہات میں بھی بہت تھی۔ جو وافر مقدار میں اجناس ۔۔۔ اپنی مقامی ضرورتوں سے زائد ۔۔۔ پیدا کر رہی تھی کہ یہ اجناس شہروں کو بھیجی جاسکیں۔ ملک کے طول و عرض میں پختہ اینٹوں کا کثرت سے استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ وسیع جنگلات تھے۔ برتن اور مہروں پر جانوروں کی شکلیں اور دفینوں پر ان کی ہڈیاں جانوروں کی کثرت سے موجودگی اور دوسرے لفظوں میں جنگلوں کی کثرت کا ثبوت ہیں۔ جانوروں میں گینڈے، شیر، دریائی بھینس اور ہاتھی کثیر تھے۔ ان کے علاوہ گھڑیال کا ثبوت ملا ہے۔ ریچھ کی بعض نسلیں، بندر گلہری اور طوطا بھی ملا ہے۔ بارہ سنگھا اور ہرن بھی ملے ہیں۔

اس تہذہب کے نمایاں شہر موہنجوداڑو، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو، ستکگن دڑو، بالاکوٹ، سوتکا کوہ، ٹوچی، مزینہ دمب، سیاہ دمب، جھائی، علی مراد، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں۔

مرکزی حکومت[ترمیم]

مادی ثقافت کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین آثار عظیم تر وادی سندھ کہتے ہیں ۔۔۔ آپس میں مکمل یکسانی رکھتا ہے۔ مٹی کے برتن ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں، مکانات طے شدہ معیاری نقشوں پر بنے ہیں اور پختہ اینٹوں کے ہیں۔ مہریں ایک طرح کے کھدے ہوئے مناظر سے مزین ہیں اور رسم الخط سب جگہ ایک ہی ہے۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیاری نظام ہر جگہ رائج ہے ۔

ماہرین عموماً وادی سندھ کی تہذیب کے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن شاید پگٹ اور ویلر نے سرسری طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جب کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کی کوئی دوسری تشریح ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ وادی سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبر دست یکسانی اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ ایک طاقت ور مرکزی حکومت موجود تھی۔ جو سارے علاقے کو کنٹرول کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مسوط سلسلہ تھا جس کو وہ کنٹرول کرتی تھی۔ اس کا یقینا ایک محصول چونگی اور شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے، جو یقناً جڑواں دالحکومت تھے۔ ان دونوں شہروں کے اندر بلند و بالا قلعے تھے۔ جو باقی ماندہ آبادی پر غالب نظر آتے تھے۔ اس لیے قیاس آرئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکزی حکومت کے دالحکومت تھے۔

ملک کے طول و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانی صرف مرکزی حکومت کے سخت قوانین کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ سماج کے تجارتی قوانین بھی ۔۔۔ جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا ۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا۔ ہر علاقے میں اوزان کا یکساں تھے۔ کانسی کی کلہاڑی کی بناوٹ اور بھالے کی شکل ایک سی تھی۔ اینٹوں کا سائز، مکانوں کا نقشہ، بڑی گلیوں کی ترتیب، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک سی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی کی ویسی بنتی رہیں۔ ایک گھر کی خارجی چار دیواری کئی صدیوں تک نہیں بدلی تھی۔ اس کا مطلب ہے حکمران اور محکوم دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے آ رہے تھے اور کچھ ایسا ہی حال اونچے طبقات کا تھا ۔

وادی سندھ کی یکسانی زمان اور مکان میں ایک جیسی شدت تھی۔ ایک طرف یہ بلوچستان سے لے کر پنجاب اور خیبر پختوںخوا تک یکساں ہے۔ دوسری طرف تیرہ سو سال کے عرصے پر محیط جب تک یہ تہذیب زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں آیا ۔

تہذیب کا جمود[ترمیم]

موہنجوداڑو میں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن ان متفرق ادوار کی مادی ثقافت میں زرا فرق نہیں ملتا۔ نہ زبان بدلی ہے نہ رسم الخط۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زبان نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں اور رسم الخط بار بار یکسر تبدیل ہوا ہے اس میں ایک ہی رسم الخط کا تسلسل اس کے ٹہراؤ کا بڑ ثبوت ہے ۔

ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے۔ دوسری طرف تیرہ سو سال تک انھوں نے عکاد اور سومیر سے بدلتے ہوئے صنعتی طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس مطلب ہے کہ ٹہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے ۔

کوسمبی مزید کہتا ہے کہ اس تہذیب میں پھیلاؤ کا فقدان تھا۔ یعنی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے شہر آباد تھے۔ باقی تمام آبادی چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل تھی اور یہ تہذیب وادی گنگ و جمن اور خاکنائے دکن کی طرف نہیں گئی ۔[3][4][5][6][7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
  2. پروفیسر محمد مجیب۔ تاریخ تمذن ہند
  3. ٹی ایچ۔ سورلے گزیٹیر سندھ
  4. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
  5. ڈی ڈی کوسمبی۔ قدیم ہندوستان