وثق - تاریخ سے چند سطریں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تاریخ سے چند سطریں کے وثق میں فی الحال ارادہ ہر ماہ کی یکم کو ایک ایسا چھوٹا سا مضمون رکھنے کا ہے جو اپنی جگہ مکمل بھی ہو اور اس قطہ / سیکشن کے نام اور صفحہ اول کی وضع قطع کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے 150 تا 160 الفاظ سے زیادہ طویل بھی نہ ہو، اگر آپ یکم کے علاوہ کسی اور دن میں کوئی مضمون رکھنا چاہتے ہوں تو اس کی تاریخ کا اندراج ضرور کر دیجیے گا۔

گذشتہ سطور

  • کاغذ ---- قبل مسیح سے دریائے نیل کے کنارے درخت (انجیر، شہتوت) کی چھال کو لکھنے کے لیے کاغذ کی شکل دینے کے آثار ملتے ہیں مگر 105ء میں چین میں تسائی لن نے وہ کاغذ تیار کیا جسے آجکے کاغذ کی ابتدا کہا جاسکتاہے۔ پھر 800ء میں یہ علم چین جانے والے مسلم تاجروں نے حاصل کیا اور جلد ہی بغداد، دمشق اور قاہرہ میں کاغذ کے کارخانے قائم ہوئے۔ مسلمانوں نے الگ خام مال اور طرز استعمال کیں، ان کے کاغذ پر استرکاری (coating) ہوتی تھی جس سے خوبصورتی اور لکھنے کے لیے بہتر سطح پیداہوتی۔ اب کاغذ کی صنعت مغربی جانب پھیل کر شام تک پہنچ چکی تھی اور پھر ایک صدی بعد مراکش سے اسپین کے راستے یورپ میں داخل ہوئی، 13ویں صدی کے بعد سے یورپ بطورخاص اٹلی کو مسلم کاغذ اپنی تیاری کے اصول اور رازوں کے ساتھ برآمد ہونے کا ذکر بہت سی تاریخی کتب میں آیا ہے۔
  • اسباب ---- اس بحث کے علمی تچزیات بڑے نفسیاتی، سیاسی اور معاشری پہلو رکھتے ہیں کہ آج دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے طب و حکمت اور بنیادی سائنسی علوم سمیت کسی بھی سائنسی شعبے میں کوئی ذرا برابر بھی حصہ داری نہیں کی جا رہی۔ صدیوں تک (7ویں تا 16ویں صدی) علم اور سائنس کی واحد زبان کا درجہ رکھنے والی اور اپنی فصاحت اور بلاغت پر فخر کرنے والی عربی زبان میں آج جدید سائنسی علوم کے الفاظ کم کم اور مشکل سے ہی ملتے ہیں۔ یہ وہ ہی زبان تھی جو آج انگریزی - سائنس کے لیے ہے۔ آخر کیا ہوا کہ وہ قوم کہ جو عرصے تک سائنس میں دنیا کی رہنمائی کرتی رہی آج اسقد ر ناکارہ اور مفلوج ہو گئی کہ دنیا کی آبادی کا 20 فیصد سے زیادہ ہوتے ہوئے بھی وہ پوری دنیا کے کل سائنسدانوں کا ایک فیصد بھی مہیا نہیں کرتی؟
  • 17-09-2006 : پوری انسانی تاریخ المحارب اور اشرف المخلوقات کی خون آشامی و درندگی کے تمام تر نوشتہ جات میں مرکزی اسلحہ صرف اور صرف دو بار ہی استعمال ہوا ہے (کم از کم کھلی شہادت کے ساتھ دو بار ہی کہ سکتے ہیں)، جب جنگ عظیم دوم میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے دو شہروں پر مرکزی قنبلہ (ایٹم بم) گرایا گیا۔ پہلا یورنیم پرمنحصر قنبلہ 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا اور اس کا خوبصورت نام لٹل بوائے تجویز کیا گیا، جبکہ دوسرا اس کے تین روز بعد دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پر نازل ہوا جس کا نام فیٹ مین تھا اور یہ پلوٹونیم پر منحصر قنبلہ تھا۔ اس مہلک اور مہیب اسلحہ کے استعمال نے 100000 سے 200000 انسانوں کو تو آن کی آن میں ہی فنا کر دیا اور بعد میں اس تعداد میں مزید ہلاکتوں نے اضافہ کیا، عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ لٹل بواۓ پیدا ہوتے رہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس کے استعمال کے عرصہ بعد آج بھی بحث جاری ہے کہ اس کا استعمال برحق تھا کہ ناحق، ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ استعمال غلط تھا اور دوسرا یہ انکشاف کرتا ہے کہ یہ استعمال برحق تھا اور اس کی وجہ سے جنگ بند ہو گئی اور دونوں اطراف ہلاکتیں بھی تھم گئیں۔
  • کیفیت حیات یا Quality of life ایک کثیر العوامل مظہر ہے جس میں، معیار زندگی، معاشی صورت حال، ضروریات زندگی تک افراد کی دسترس، حالت ذہنی سکون، ماحول کی صحت اور آذادی کا احساس ہونا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر کی مختصر تعریف سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیفیت حیات ایک ایسا شعبہ حیات ہے جس میں صرف پیسہ نہیں بلکہ انسانی کی ان بنیادی ضروریات زندگی سے واسطہ ہوتا ہے جو انسان کو حیوان سے مختلف کر کے اس کو معاشری حیوان کے درجے میں لانے کے لیے لازمی ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے عالمی اداروں کے جاری کردہ معیاروں اور ترقی یافتہ ممالک کے پیمانوں کا ذکر تو مجبورا کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ تمام تعریفیں ان ہی اداروں کی تیار کردہ ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ کیفیت حیات یا Quality of life کی ان ممالک کے سیاق وسباق کے حوالے سے تشریح کی کوشش بھی کی جانی چاہیے کہ جن کے لیے، کیفیت حیات اور معیار زندگی کی باتیں کرنا عیـاشـی کے زمرے میں آتی ہیں، جہاں انسان آج بھی اس حالت میں ہیں (یا رکھے جا رہے ہیں) جس روز فاقـہ نہ گذرے تو اس رات کا چاند، ہلال عید کی طرح مسکراتا نظر آتا ہے۔
  • بیڑی (cigarette)، مصلب یعنی cured تمباکو کی پتیوں کو کاغذ میں لپیٹ کر بنائی گئی ایک ایسی چھڑی کو کہتے ہیں جس کے ایک سرے پر 4000 کیمیائی مادوں کی سلگتی ہوئی بھٹی اور دوسرے سرے پر ایک ایسا شخص ہوتا ہے کہ جو سائنسی اندازوں کے مطابق اپنی طبیعی موت سے 7 تا 10 سال قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ بیماریوں سے پاک اور صحت مند زندگی تقریباً 14 سال کم ہو جائے گی۔ ان 4000 دخانی مرکبات میں سے 50 سے زائد (اب تک کی تحقیقات کے مطابق) ، مطفر یعنی سرطان پیدا کرنے والے ثابت ہو چکے ہیں۔ گو پہلا تاثر یہی ہے کہ بیڑی، پھیپڑوں کو متاثر کرتی ہے، مگر ایسا نہیں۔ tar سمیت کئی مرکبات منہ میں ہی جذب ہوجاتے ہیں اور یوں براہ راست معدہ اور آنتوں کا مزاج پوچھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ، گردوں اور قلبی امراض سے اموات میں 11 فیصد اضافہ بھی بیڑی کے فوائد میں شامل ہے۔ جلد پر جھریاں پڑجانا اور ہونٹ گلاب سیاہ کی مانند ہوجانا تو معمولی باتیں ہیں۔ مہنگی اور اعلی بیڑیوں پر مصافہ (filter) بھی لگایا جاتا ہے جس کی حیثیت ایک دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اعدادوشمار بمطابق ڈبلو ایچ او و دیگر طبی جرائد
  • معاشرہ 02-03-2007 :   اپنے اندر پوشیدہ شفقت اور رحمدلی کو ختم نہ ہونے دو، اسے استعمال کرو ورنہ انسانیت کے اس تابدار ہیرے پر خود غرضی اور حیوانیت کا زنگ چڑھنے میں مدت نہیں لگا کرتی۔ کتنا پرسکون اور راحت بخش ہوگا وہ معاشرہ جہاں لوگ راہ چلتے بھی خود کو اتنا محفوظ سمجھیں جتنا گھر میں، جہاں بازاروں اور گلی کوچوں میں نکل جانے والا کوئی اکیلا بچہ اتنی ہی امان و سلامتی میں ہو جتنا اپنی ماں کی گود میں، جہاں مدرسے سے گھر واپس ہوتی ہوئی ایک دسویں جماعت کی طالبہ للچائی ہوئی اور بے شرم نظروں سے خود کو بچاتی ہوئی خوفزدہ اور سہمی سہمی نہ چل رہی ہو۔
  • انسان حیوان اور ترقی 05-03-2007 :   انسان اور حیوان کو جدا کرنے والی بنیادی صفت، فکر و ادراک ہے اور اسی تفکر سے انسان میں احترام و عزت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس کے انسان، دوسرے انسانوں کو اپنے جیسا انسان نہ سمجھیں اور جس معاشرے کے انسانوں میں ناتواں اور غریب انسانوں کے لیے جذبۂ احترام و عزت پایا جاتا ہو اسے آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ دوسروں کی غلطیوں کو تحمل سے نظر انداز کرتے ہوئے ان کی راہنمائی کرنا دراصل خود اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ جس معاشرے کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہو کہ ایک سرکاری اہلکار، کسی مخزن (بنک) میں اپنی مہینے بھر کی محنت کی تنخواہ لینے جانے والے ایک بوسیدہ سے شخص کو تو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہوئے درشت جواب دے اور ایک اعلیٰ قیمتی لباس اور ٹائی میں پھنسی ہوئی گردن کو دیکھ کر ادب سے کھڑا ہوکر کرسی پیش کرے ؛ تو ایسے معاشرے کو نہ تو صنعتیں ترقی دے سکتی ہیں اور نہ ہی کمپیوٹرائزیشن۔ وہ مسرت اور خوشی جو اپنے سے کمزور شخص کو عزت دے کر حاصل ہوتی ہے اسے رپے پیسے سے نہیں خریدا جا سکتا، دوسروں کی خوشی میں فرحت پانے والی روح دراصل اپنی بزرگی اور بلندی کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔ روح کی یہ فرحت انسان کو لافانیت کا احساس دلاتی ہے اور اسی لافانیت کے احساس سے انسان عارضی فائدے کی بجائے مستقبل کے فائدے اور خوشی پر نظر ڈال سکتا ہے اور یہی مستقبل پر نظر معاشروں کو ترقی کی جانب لے جانے والا واحد راستہ ہے۔
  • خیال، خواب اور مستقبل 16-04-2007 :   ایک محتاط تجزیے کے مطابق اس وقت ترقی پزیر دنیا کی ایک بہت بڑی کمی مستند اور منظم معلومات کی عدم دستیابی ہے جسے پورا کرنے کے لیے ان لوگوں کو قدم اٹھانا پڑے گا جن کے ذہن میں دوسروں کی راہنمائی کا خیال موجود ہے۔ اور خیال کیا ہے؟ خیال تو جب تک ذہن میں رہے خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور جب قلم کی نوک پر آجائے تو اس سے زیادہ طاقتور کچھ بھی نہیں۔ آپ کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ مستقبل کے لیے راستہ بنانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں ۔۔۔ اور اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں کہ راستہ بنا دیا جائے اور پھر مستقبل کو مستقبل کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ آسان اور سہل کام کرنے والے کبھی مستقبل پر اثرانداز نہیں ہوا کرتے اور وقت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتا اگر کوئی اسے عام آدمی کی نسبت دگنا یا تین گنا استعمال کرنے کا طریقہ جانتا ہو اور اس کی ہمت رکھتا ہو۔ بہتر ہے کہ جو انسان سوچتا ہے اسے کر بھی ڈالے اور جو معلومات رکھتا ہے اسے لکھ بھی ڈالے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے سے سوائے پریشانی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔