ویشالی کی نگر ودھو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(وشالی کی نگر ودھو سے رجوع مکرر)

وشالی کی نگر ودھو (ہندی زبان:वैशाली की नगरवधू) آچاریہ چتور سین شاستری کا ہندی زبان میں لکھا گیا ایک ناول ہے جو ہندی کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ دہلی سے 1948ء-1948ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کے بارے یمں خود مصنف نے کہا تھا “میں اب تک اپنی ساری تخلیق کو رد کرتا ہوں اور ‘وشالی کی نگر ودھو ‘کو اپنی تخلیق محض ہونے کا اعلان کرتا ہوں“

تفصیل[ترمیم]

قدیم زمانے میں برصغیر سولہ مہا جنپدوں ( ریاستوں ) میں منقسم تھا، جن میں سلطنت مگدھ، کوشل، وارانسی، وجّی، ودیھ اور کرو مملکت وغیرہ نمایاں تھے۔ جب ریاست ودیھ ٹوٹی، تب وجّی سنگھ( یونین ) بنا۔ وجّی سنگھ کو دنیا کا پہلا جمہوریہ مانا جاتا ہے۔ وجّی سنگھ میں 8 کُل ( خاندان ) ودیھ، لیچھوی، چھاتریک، وجّی، اُگر، بھوج، اِچھواکو اور کورو شامل تھے۔۔ اِن میں سے پہلے چار مشہور تھے۔ ودیھ کی راجدھانی میتھلا، لیچھوی کی راجدھانی ویشالی، چھاتريک کی راجدھانی کنڈ پور اور وجّی کی راجدھانی کولاگ تھی۔ یہ سب برصغیر کے شمالی حصے میں واقع تھے۔ ویشالی اُس پورے اتحاد کی راجدھانی تھی۔ سلطنت مگدھ جو اُس وقت بڑی اور طاقتور ریاستوں میں سے ایک مانی جاتی تھی، ویشالی کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ مانتی تھی اور اُس پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ تمام ریاستیں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے برسرِ پیکار رہتی تھیں اور ہمہ وقت باہم سازشوں میں لگی رہتی تھیں۔۔

ویشالی اِس وقت بھارت کی ریاست بہار کا ایک ضلع ہے جو ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کا مرکز رہا ہے۔ گیان حاصل کرنے کے پانچ سال بعد بھگوان بدھ کی ویشالی آمد ہوئی تھی۔ یہاں پر بدھ تین بار آئے۔ اُن ہی کی سرپرستی میں ویشالی کی نگر ودھو آمر پالی کے ساتھ چوراسی ہزار افراد بودھ مذہب میں شامل ہوئے۔ تھے۔ ویشالی کے نزدیک کولہوا میں ہی بدھ نے اپنا آخری اپدیش دیا تھا۔ 599 قبل مسیح میں جین مت کے چوبیسویں تیرتھ مہا ویر جین کی پیدائش وسو کنڈ میں ہوئی۔ چینی مسافر ہينسانگ اور فاہیان نے اپنے سفر ناموں میں ویشالی کا تذکرہ کیا ہے۔ اچاریہ چتور سین ہندی ادب کے مشہور مصنّف ہیں۔ انھوں نے ہندی زبان میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، جن میں مذہبی اور تاریخی مضامین پر مشتمل کئی ناول بھی شامل ہیں۔۔ مثال کے طور پر سوم ناتھ (ناول) ، ویم رکشهمہ ، ویشالی کی نگر ودھو اور دھرم پُتر (ناول) وغیرہ۔ دھرم پُتر پر فلم بھی بن چکی ہے جسے بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

"ویشالی کی نگر ودھو" اُن کا سب سے مقبول ناول ہے، جسے لکھنے کے بعد انھوں نے علانیہ کہا کہ؛

میں نے اب تک جو کچھ بھی لکھا ہے اُسے مسترد کرتا ہوں اور "ویشالی کی نگر ودھو" کو اپنی واحد تحریر گردانتا ہوں "۔

اِس ناول کو ہندی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے اور اِسے لکھنے کے لیے چتور سین نے آریا ، جین ، بدھ مت اور ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت پر دس سال تحقیق کی۔ یہ ناول 1939ء سے 1947ء کے دوران میں لکھا گیا جو پہلے پہل دو حصّوں میں شائع ہوا، بعد ازاں 1957ء میں دونوں حصّوں کو یکجا کر کے ایک مکمل کتابی شکل دے دی گئی۔ مصنف نے ناول میں اُس وقت ہونے والی سیاسی سازشوں ، غلاموں کی خرید و فروخت ، ڈاکوؤں کی لوٹ مار، دہشت گردی ، وش کنیّا کے کام، جاسوسوں کی سرگرمیوں، آریوں کے گھٹتے اور جین و بودھ مذاہب کے بڑھتے اثر و رسوخ پر برہمنوں کی پریشانی اور اُنکی منافقت پر تفصیلا رقم طرازی کی ہے۔۔ ناول میں زیادہ تر سنسکرت زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔۔ آمر پالی پر فلم اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں۔

ویشالی کی نگر ودھو کہانی ہے آمر پالی کی۔ چونکہ اُسے پالنے والے کو وہ آم کے ایک پیڑ کے نیچے ملی تھی، اِس لیے اُسکا نام امب پالی یا آمر پالی پڑ گیا۔ آمر پالی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، جیسے کہ ہنسانگ اور فاہیان کی کتابیں وغیرہ۔

ویشالی کے قانون کے مطابق نگر کی سب سے خوبصورت عورت کو نگر ودھو بنا دیا جاتا تھا، جس پر نگر کے سارے مردوں کا حق ہوتا تھا۔ وہ کسی سے شادی کر سکتی تھی نہ محبّت۔ نگر ودھو کوئی عام سی ویشیا نہیں ہوتی تھی۔ اُس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بے انتہا دولت خرچ کرنی پڑتی تھی۔ وہ ایک محل نُما گھر میں رہتی تھی، جہاں ہر وقت لاتعداد داس اور داسیاں اُسکی خدمت کرنے میں جُٹی رہتی تھیں۔ اُس کا رہن سہن کسی رانی سے ہرگز کم نہیں ہوتا تھا۔ نگر کے راجا، سیٹھ یا پھر جاگیر دار ہی بمشکل اُسکی قربتوں سے لطف اندوز ہو پاتے تھے۔ عام لوگ چند سکوں کے عوض محض اُسکی بزمِ رقص و سرود میں دو چار لمحے گزار کر شراب سے دل بہلا سکتے تھے۔

آمر پالی ویشالی کے اِس بوسیدہ قانون کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اُسے اپنے نسوانی حقوق سے دستبرداری گوارا نہیں تھی مگر دربار میں بیٹھے منتری، اچاریہ، سیٹھ اور جاگیردار لوگ ویشالی میں امن اور تحفّظ کی دہائی دے کر اُسے نگر ودھو بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اگر آمر پالی کسی ایک کی بیوی بن کر رہتی تو نگر میں جنگ چھڑ جاتی۔ مجبوراً کچھ شرائط رکھنے کے بعد وہ خود کو قربان کرنے کی ہامی بھر لیتی ہے مگر اپنی اِس بے عزتی کو کبھی نہیں بھولتی اور بدلہ لینے کی قسم کھاتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ مگدھ کا راجا بیمبسار آمر پالی پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ مگدھ اور ويشالی کے درمیان میں جنگ ہوتی ہے، جس میں مگدھ سرخرو ہوتا ہے۔ آمر پالی بيمبسار کے بیٹے کو جنم دیتی ہے، عام طور پر اُس بیٹے ہی کو اجات شترو قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ بات کسی بھی تاریخ کی کتاب سے ثابت نہیں ہوتی ہے۔۔ آمر پالی دنیاوی زندگی سے بیزار ہو کر بدھ کی شرن میں چلی جاتی ہے۔۔ اگرچہ بدھ مٹھ میں عورتوں کے آنے کے مخالف ہوتے ہیں مگر آمر پالی کے بہت اصرار پر وہ اُسے آنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ آمر پالی اور اُسکے والدین کون تھے، یہ راز ناول کے آخر میں فاش ہوتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]