ولید بن مسلم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ولید بن مسلم
 

معلومات شخصیت
لقب ابو العباس دمشقي
عملی زندگی
استاذ مالک بن انس  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعارف[ترمیم]

حضرت ولید بن مسلمؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔ شیخ ولید بن مسلم کا شمار ان اتباع تابعین میں ہوتا ہے جنھوں نے بکثرت تصانیف یادگار چھوڑیں،وہ امام اوزاعی کے ارشد تلامذہ میں تھے،مغازی ان کا خاص فن تھا،طویل احادیث اورآثار قیامت کے سلسلہ کی احادیث کے خاص طور پر حافظ تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

ولید نام ابو العباس کنیت تھی،والد کا نام مسلم تھا،اس سے آگے کے سلسلہ نسب کا پتہ نہیں چلتا،بنو امیہ کے غلام ہونے کی بنا پر اموی لکھے جاتے ہیں۔

وطن اور ولادت[ترمیم]

دمشق کے رہنے والے تھے،وہیں 119ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ [1]

تحصیل علم اور شیوخ[ترمیم]

شیخ ولید کو اپنے وقت کے جن ممتاز اہل علم و فضل سے اکتساب فیض کا موقع ملا ان میں کبار تابعین اوراتباع تابعین کے نام شامل ہیں،چند نام یہ ہیں: یحییٰ بن الحارث،ثور بن یزید،محمد بن عجلان،ہشام بن حسان،ابن جریج،امام اوزاعی،یزید بن مریم، صفوان بن عمرو۔ وہ بعض اساتذہ کی خدمت میں مدت دراز تک رہے ؛چنانچہ ان کے کاتب حمام شیخ ولید کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: جالست ابن جابر سبع عشر سنۃ میں سترہ برس تک جابر کی صحبت میں رہا۔فقیہ شام امام اوزاعی سے ولید بن مسلم کو خاص تلمذ کی سعادت حاصل تھی،مروان بن محمد کہا کرتے تھے کہ جب ولید کے واسطے سے امام اوزاعی کی روایت کسی کو مل جائے تو اسے پھر کسی اور راوی کے چھوٹنے کی پروا نہ کرنا چاہئیے۔ [2] ان ائمہ وفضلا کی صحبت اورفیض نے ان میں حدیث نبوی کا خاص ذوق پیدا کر دیا تھا اور بعد میں وہ خود بھی اکابر محدثین میں شمار کیے جانے لگے۔

علم و فضل[ترمیم]

ولید بن مسلم کے علمی مرتبہ اورمہارتِ فنی کو تمام محققین نے سراہا ہے، امام نوویؒ کا بیان ہے کہ ان کی علمی بلندی،جلالتِ شان اور ثقاہت پر سب کا اتفاق ہے [3]حافظ ذہبیؒ انھیں الامام الحافظ لکھتے ہیں،ابن ناصر الدین کہتے ہیں کہ ولید امام حافظ اوردمشقیوں کے عالم تھے۔ [4] علاوہ ازیں صدقہ بن الفضل المروزی بیان کرتے ہیں کہ طویل حدیثوں اور تمام ابواب کو یاد رکھنے میں ان سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا [5]ابراہیم بن المنذر کا قول ہے کہ ایک مرتبہ مجھ سے علی بن المدینی نے فرمائش کی کہ میں ان کو ولید بن مسلم کی بعض احادیث سُناؤں میں نے کہا سبحان اللہ! آپ کے سماع کو میرے سماع سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ وہ بولے کہ ولید جب شام آئے،تو ان کے پاس علم کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اورمیں اس سب سے فیض یاب نہیں ہو سکتا تھا، میں نے ان کو کچھ حدیثیں سنائیں،تو بہت متعجب ہوئے اورکہنے لگے واقعی ولید بالکل ٹھیک کہتے تھے۔ابن مدینی ہی کا بیان ہے کہ میں نے ان سے حدیث کا سماع حاصل کیا ہے،جب میں نے انھیں دیکھا تو وہ بہت سی ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے جس میں ان کا کوئی دوسرا شریک نہیں تھا۔ [6]

ائمہ حدیث کی رائے[ترمیم]

تمام ائمہ حدیث نے ان کے علم و فضل اور روایت حدیث پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے،ابو حاتم سے محمد بن ابراہیم نے دریافت کیا کہ آپ ولید بن مسلم کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں؟ بولے وہ صالح حدیث ہیں،امام احمد بن حنبل نے ابوزرعہ الدمشقی سے کہا تین بزرگ واقعی اصحاب حدیث ہیں مروان بن محمد، ولید بن مسلم اور ابو مسہر۔ یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ کہ میں نے اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ لوگوں کا علم صرف دو شخصوں کے پاس ہے،اسماعیل بن عیاش اور ولید بن مسلمؒ، لیکن ولید کو تو میں جانتا ہوں کہ وہ نہایت قابل تعریف طور پر اخیر وقت تک چلتے رہے ،وہ اہل علم کے نزدیک پسندیدہ قابلِ وثوق،صحیح الحدیث اورصحیح العلم تھے۔ [7] ان کی جلالت علم بلندی مرتبہ اوروثوق فی الحدیث پر سب لوگ متفق ہیں۔

تلامذہ[ترمیم]

ان کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے اس میں جلیل القدر ائمہ اورنادرہ روزگار فضلاء کی بھی خاصی تعداد شامل ہے،ابن حوضا کا بیان ہے کہ: لم نزل نسمع انہ من کتب مصنفات الولید صلح ان یلی القضاء [8] ہم لوگ برابر اس بات کو سنتے آئے ہیں جس شخص نے ولید کی کتابیں لکھ لیں وہ عہد قضا کے قابل ہوجائے گا۔ ان کے تلامذہ میں درجِ ذیل اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔ احمد بن حنبل،ہشام بن عمار، ابو خثیمہ،کثیر بن عبید، محمود بن غیلان،موسیٰ بن عامر[9]حمیدی ،صفوان بن صالح،عبد اللہ بن وہب،محمد بن المبارک،عبد الرحمن بن ابراہیم، نعیم بن حماد،اسحاق بن اسرائیل۔

جرح[ترمیم]

بعض ناقدینِ حدیث نے کہا کہ ولید بھی کبھی ضعیف راویوں سے احادیث روایت کرتے تھے اور کبھی وہ تدلیس بھی کرتے تھے،یعنی جس شخص سے روایت کرتے تھے،اس کا معروف نام نہیں لیتے تھے،ہشیم بن خارجہ نے ان سے کہا کہ:"آپ امام اوزاعی کی احادیث کو خراب کرڈالتے ہیں،آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ بولے تم یہ بات کیسے کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: آپ کبھی عن الاوزاعی عن ابن عمر کرکے روایت بیان کرتے ہیں اور کبھی عن الاوزاعی عن الزھری اورکبھی یحییٰ بن سعید سے روایت بیان کرتے ہیں،آپ کے علاوہ لوگ تو امام اوزاعی اورنافع کے درمیان عبد اللہ بن عامر کا ذکر کرتے ہیں،امام زہری اوراوزاعی کے درمیان ابراہیم بن مرہ کا ذکر کرتے ہیں، تو آپ ایسا کیوں کرتے ہیں،فرمایا کہ میں امام اوزاعی کو ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں پھر انھوں نے کچھ کہا،مگر شیخ ولید نے کوئی توجہ نہ دی،بہرحال اتنا مسلم ہے کہ وہ کبھی کبھی تدلیس سے کام لیتے تھے،مگر اس سے ان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛چنانچہ علامہ ذہبیؒ ان پر لوگوں کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: لانزاع فی حفظہ و علمہ وانما الرجل مدلس فلا یحتج بہ الا اذا صرح بالسماع [10] ولید کے حفظ اوران کے علم میں کوئی اختلاف نہیں ہے،البتہ وہ مدلس تھے اس لیے جب تک سماع کی تصریح نہ کریں اسے حجت نہیں بنایا جا سکتا ۔

عقل وفرزانگی[ترمیم]

فہم ودانش کے اعتبار سے بھی وہ معاصرین ارباب کمال میں ممتاز تھے،امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:"میں نے اہل شام میں ان سے زیادہ عقلمند نہیں دیکھا’۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

کمال علم و فضل کے ساتھ ان کے اخلاق و عادات بھی نہایت کریمانہ اوربزرگانہ تھے،ہشام بن عمار سے کسی نے ان کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ ولید بہت بڑے عالم صاحب زہد وورع اورمتواضع الطبع تھے۔

وفات[ترمیم]

حج سے واپس آ رہے تھے کہ دمشق پہنچنے سے پہلے ہی ذی المروہ نامی ایک موضع میں بیمار پڑ گئے،اپنے ایک دوست حرملہ بن عبد العزیز کے مکان پر قیام کیا اوروُہیں ان کی وفات ہو گئی،سنہ وفات میں محققین کا قدرے اختلاف ہے،کسی نے 195ھ اورکسی نے199ھ لکھا ہے،مگر صحیح 194ھ ہے امام بخاریؒ وغیرہ نے ا سی کو مرجح قرار دیا ہے۔

تصنیفات[ترمیم]

شیخ ولید کا شمار ان محدثین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی بہت سی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں علامہ ذہبیؒ ،حافظ ابن حجرؒ اور دوسرے اہل تذکرہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے ستر کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ ومصنفات الولید سبعون کتاباً ولید کی تصنیفات کی تعداد ستر ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان کی یہ تصانیف حدیث،فقہ اورتاریخ سے متعلق تھیں؛چنانچہ علامہ ذہبیؒ نے فن تاریخ میں بھی ان کی کچھ کتابوں کا ذکر کیا ہے"صنف التصانیف والتواریخ"علاوہ ازیں ابو زرعہ رازی کا بیان ہے کہ ولید مغازی میں وکیع بن جراحؒ سے بڑے عالم تھے،ظاہر ہے مغازی بھی تاریخ ہی کا ایک شعبہ ہے۔ تاہم ولید کی تصنیفات کی مزیدکوئی تصریح اورتفضیل نہیں ملتی اورنہ ان میں سے کسی کے وجود کا پتہ چلتا ہے،مشہور مؤرخ اسحاق بن ندیم نے دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ [11] 1۔کتاب السنن فی الفقہ 2۔کتاب المغازی


حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تذکرۃ الحفاظ:1/376)
  2. (تہذیب التہذیب:11/153)
  3. (تہذیب الاسماء:2/147)
  4. (شذرات الذہب:1/344)
  5. (تہذیب التہذیب:8/154،وتذکرہ الحفاظ:1/277)
  6. (تہذیب التہذیب:8/155)
  7. (تہذیب التہذ:8/153)
  8. (تہذیب التہذیب:11/153)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/276)
  10. (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:1/274)
  11. (الفہرست:318)