وکرم آدیتیا
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 102 ق مء اوجین |
|||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان | |||
درستی - ترمیم |
وِکرم آدیتیا (سنسکرتविक्रमआदित्यः) ایک افسانوی بادشاہ تھا[1][2][3]، جیسا کہ قدیم ہندوستانی ادب میں ذکر کیا گیا ہے، جس میں روایتی کہانیاں شامل ہیں جن میں "بیٹال پچیسی اور سنگھاسن پچیسی" شامل ہیں۔ بہت سے لوگ اسے ایک حکمران بتاتے ہیں جس کی راجدھانی اجین میں تھی (کچھ کہانیوں میں پاٹلی پتر یا پراتِستھان)۔ "وکرم آدیتیا" ایک عام لقب بھی تھا جسے قدیم اور قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں کئی بادشاہوں نے اپنایا تھا، اور وکرم آدتییا کے افسانے مختلف بادشاہوں (خاص طور پر چندر گپت دوم) کے دیدہ زیب واقعات ہوسکتے ہیں۔ مشہور روایت کے مطابق، وکرم آدیتیا نے شاکوں کو شکست دینے کے بعد 57 قبل مسیح میں وکرم سموَت کی تقویم شروع کی، اور جو لوگ اس کو تاریخی شخصیت تسلیم کرتے ہیں ان کے مطابق اس کا دور پہلی صدی قبل از مسیح کا ہے ۔ تاہم، اس تقویم کی شناخت نویں صدی عیسوی کے بعد "وکرم سموت" کے نام سے کی جاتی ہے۔
نام اور وجہ تسمیہ
[ترمیم]وکرم آدیتیا کا مطلب ہے "بہادری کا سورج" (وکرم کا مطلب "بہادری" اور آدتییا کا مطلب "سورج")۔ اسے وکرما، بکرم جیت اور وکرم آرک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے (آرک کا مطلب بھی "سورج" ہے)۔ کچھ افسانے اسے ملیچھ حملہ آوروں سے ہندوستان کو آزاد کرانے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ حملہ آوروں کی شناخت زیادہ تر شاکوں کے نام سے کی جاتی ہے، اور بادشاہ کو شَکّاری ("شاکوں کا دشمن") کے نام سے جانا جاتا ہے۔[4]
وجہ شہرت
[ترمیم]وہ ایک عظیم شہنشاہ تھے ۔ وہ اپنی رحم دلی ، سخاوت ، بہادری اور شجاعت کے لیے پورے جنوبی ایشیا میں جانے جاتے ہیں ۔ آپ نے ہی دنیا کے قدیم ترین کیلینڈر ہندی کیلنڈر کا اجرا کیا تھا جسے بکرمی تقویم کہا جاتا ہے۔ اس کا پہلا مہینہ چیت اور آخری مہینہ پھاگن ہے۔ وہ اپنے علم، بہادری اور سخاوت کی بنا پر مشہور تھے۔ ان کی نسبت سے ہندوستانی تاریخ میں بعد کے دوسرے بہت سے بادشاہوں نے وکرمادتیہ کا لقب اختیار کیا۔
والد کا نام
[ترمیم]تاریخ کشتواڑ میں بکرما جیت کے والد کانام گندھرب سین گرجر دیا ہوا ہے۔ راجا وکرما جیت کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح کا ہے کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ کہ وہ وکرما جیت ہی تھا جس نے سنہ اٹھاون قبل مسیح میں شکوں کی ایک بڑی فوج کو شکست دی تھی۔ کچھ لوگ راجا بکرما جیت کی اولاد کو کاہلوں کہتے ہیں۔جن میں گجر اور جٹ دونوں شامل ہیں ۔حوالہ
بطور لقب
[ترمیم]بکرما جیت ایک لقب بھی ہے جسے تاریخ قدیم کے نامور حکمرانوں نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے اختیار کیا تھا۔ گپت خاندان میں چندر گپت بکرما جیت کے علاوہ اس کا پوتا پوروگپتا 73۔467ء بھی اپنے آپ کو وکرما دتیہ کہلاتا تھا اور ایسا اس کے عہد کے سکوں سے ظاہر ہے۔ مؤرخین نے حکمران کا اصل نام بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس کا لقب بکرما جیت یا وکرما دتیہ لکھا ہے۔ اور آنے والے مورخوں نے بھی اصل نام دریافت کرنے کی بجائے لقب ہی لکھنے پر اکتفا کیا۔ بکرما جیت وہی ہے جس کے بیٹے شلادتیہ پرتاپ شیل 600۔550ء کو سری نگر شہر کے بانی راجا پرورسین نے اجین جا کر شکست دی تھی۔
بکرمی سنہ
[ترمیم]بکرما جیت نے بکرمی سنہ کا آغاز اپنی پیدائش سے کیا جس کو سمبت کہا جاتا ہے۔ اس میں عیسوی سنہ سے 57 سالوں کی زیادتی پائی جاتی ہے۔ عام طور پر چندر گپت بکرما جیت جس کا عہد حکومت 414۔375ء ہے اور جو گپت خاندان کا نامور حکمران ہوا ہے وہ چند گپت کہلاتا ہے، اس کے نورتن مشہور ہیں۔[5]
دار الحکومت
[ترمیم]اجین جسے مذہبی شہر کہا جاتا ہے "مہا راجا بکرماجیت" کی وجہ سے بھی اس شہر کو تاریخی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ راجا بکرماجیت نے اس شہر کو اپنا دار السلطنت قرار دیا تھا۔ راجا بکرماجیت کا عہد حکومت تاریخ میں متفقہ طور پر انتہائی اہم اور مسعود مانا جاتا ہے۔ حکومت نے راجا بکرما جیت کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے ایک مجسمہ تعمیر کرکے اس کے چاروں طرف مورتیاں رکھ دی ہیں۔ یہ مجسمہ تالاب کے کنارے ایک میدان میں بنایا گیا ہے جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہیں پر بکرماجیت کا محل واقع تھا، [6]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ رام گوپال (1984)۔ کالی داس: ہِز آرٹ اینڈ کلچر۔ 15: کنسیپٹ پبلشنگ کمپنی
- ↑ اشوِنی اگروال (1989)۔ رائز اینڈ فال آف امیپرئیل گپتاز۔ موتی لال بنارسی لال پبلیکیشنز۔ صفحہ: 174۔ ISBN 978-81-208-0592-7
- ↑ شیش لتھا ریڈّی (2013)۔ میپنگ دی نیشن: این ایتھولوجی آف انڈین پوئٹری ان انگلش ۱۸۷۰-۱۹۲۰۔ انتھَیم پرہس۔ صفحہ: 201۔ ISBN 978-1-78308-075-5
- ↑ ڈی.سی سرکار (1969)۔ اینشیئنٹ مالوہ اینڈ وکرم آدیتیا ٹریڈیشن۔ منشی رام منوہر لال۔ صفحہ: 115۔ ISBN 978-8121503488
- ↑ تاریخ کشتواڑ، عشرتؔ کاشمری، اجیت نیوز ایجنسی کشتواڑ۔
- ↑ http://millattimes.com/10003.php[مردہ ربط]