ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2018/ہفتہ 14

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قرآن

لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ فسر ہے۔ یہ باب تفعیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں مسلمان قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ ایک عربی روۓ خط لغت میں [ لفظ فسر] کا اندراج۔ اسی عربی لفظ فسر سے ، اردو زبان میں ، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بناۓ جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر ، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ ۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔

لغوی معنی[ترمیم]

تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ فَسّرَ (ماضی) کے مصدری معنی ہیں: واضح کرنا، تشریح کرنا، مراد بتانا، پردا ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔

تعریف[ترمیم]

وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول ، ناسخ و منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علماء میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔ امام ماتریدی کے نزدیک: تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ چند احتمالات میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔ امام ابو نصر القشیری کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔علامہ ابو طالب شعلبی کہتے ہیں: تفسیر کےمعنی لفظ کی وضع کا بیان کر دینا ہے، خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز، مثلا صراط کے معنی راستہ، صیب کے معنی بارش، اور کفر کے معنی انکار۔