پاکستان میں خواتین کے حقوق کا خط زمانی (1947ء - 1960ء)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ پاکستان میں خواتین کے حقوق متعلقہ خط زمانی ہے۔

خط زمانی[ترمیم]

  • 1947ء: پاکستانی خواتین کو ہرجانے کا حق دیا گیا۔[1]
  • 1948ء: ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن قائم کی گئی۔
  • مہاجرین کی رضاکارانہ بحالی میں مدد کے لیے ویمن والٹری سروس کا قیام عمل میں آیا۔
  • مسلم پرسنل لا میں خواتین کے حق ملکیت کو شامل کیا گیا۔
  • 1949ء: مولانا مودودی نے پردہ پر اپنا مشہور فتوی دیا۔
  • پاکستان میں ویمن نیشنل گارڈ اور آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔
  • 1954ء: خواتین کے حقوق کا ایک چارٹر دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام قانون ساز اسمبلیوں میں میں دس فیصد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی جائیں۔ خواتین کو مساوی درجہ اور مساوی حقوق دیے جائیں، مساوی کام کی مساوی اجرت دی جائے اور مسلم پرسنل لا میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ دستور ساز اسبملی نے یہ چارٹر متفقہ طور پر منظور کر لیا، البتہ دس فیصد خواتین والے مطالبے مین کمی کرکے تین فیصد کر دیا۔
  • 1955ء: مسلم پرسنل لا میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رشید کمیشن قائم کیا گیا۔
  • 1956ء: رشید کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی دی۔ کمیشن میں شامل مذہبی رہنما، احتشام الحق تھانوی نے اس کے ساتھ اپنا اختلاق نوٹ لکھا۔
  • 1956ء: عبوری آئین کے تحت 1956ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق کی تصدیق کی گئی۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Jone Johnson Lewis۔ "Woman Suffrage Timeline International"۔ 23 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2007 
  2. "Woman suffrage"۔ Encyclopædia Britannica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2007