پاکستان میں خواتین کے حقوق کا خط زمانی (1960ء کی دہائی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ پاکستان میں خواتین کے حقوق متعلقہ خط زمانی ہے۔ جو 1961ء سے 1970ء تک، کے دور کا احاطہ کرتا ہے۔

  • 1961ء: رشید کمیشن کی سفارشات پر مبنی مسلم پرسن لا آردینینس نافذ کیا گیا جس میں مسلمان مردوں کے ایک سے زائد شادیاں کرنے پر بعض پابندیاں لگائی گئیں۔ شادی اور طلاق کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی[1] جس نے شادی، طلاق اور دوسری شادی کو باقاعدہ بنایا تھا، [2]متوفی والدین کے بچوں کو وراثت کا حق دیا گیا۔ شادی کے معیاری فارم متعارف کرائے گئے اور شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر چودہ سال سے بڑھا کر سولہ سال کر دی گئی۔
  • 1962ء سے 1976ء کی مدت کو پاکستان کی خواتین کے لیے بہترین زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں دنیا بھر میں خواتین کی تحریکیں نئی بلندیوں کو چھ ورہی تھیں۔ اور پاکستان پاکستان کی خواتین بھی قدم بقدم آگے بڑھ رہی تھیں۔ اس مدت کے دوران مشرقی پاکستان علاحدہ ہوا، جس کی وجہ سے خواتین اخلاقی، سماجی اور سیاسی قوت کے ایک بڑے ذریعے سے محروم ہو گئیں۔ علاوہ ازیں ملک کے پہلے عام انتخابات نے روشن خیال اور رجعت پسند طبقوں کے درمیان میں اختلافات بڑھا دیے۔
  • 1965ء فاطمہ جناح نے متحدہ حزب اختلاف کی امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑا اور بے مثال اکثریت حاصل کرنے م ین کامیاب ہوئیں۔ ان کے خلاف یر اخلاقی مہم چلائی گئی۔
  • 1968ء: مغربی پاکستان میں فوجی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کی قیادت نصرت بھٹو نے کی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "The Muslim Family Laws Ordinance 1961"۔ punjablaws.gov.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2016 
  2. Bonnie G. Smith (2008)۔ Pakistan – Oxford Reference۔ ISBN 978-0-19-514890-9۔ doi:10.1093/acref/9780195148909.001.0001