پاکستان میں خواتین کے حقوق کا خط زمانی (1970ء کی دہائی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ پاکستان میں خواتین کے حقوق متعلقہ خط زمانی ہے۔ جو 1971ء سے 1980ء تک، کے دور کا احاطہ کرتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت (1970–1977) خواتین کے بارے میں آزاد خیال رویوں کا دور تھا۔ تمام سرکاری خدمات خواتین کے لیے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور غیر ملکی سروس (سول سروس میں) سمیت کھولی گئیں، جن سے قبل ان کی تردید کی گئی تھی۔ قومی اسمبلی کی تقریباً 10 10٪ اور صوبائی اسمبلیوں میں 5 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں، جن میں عام نشستوں پر بھی انتخاب لڑنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ تاہم، ان پالیسیوں کا نفاذ ناقص تھا کیوں کہ بھارت کے ساتھ جنگ اور اس کے نتیجے میں ملک کی تقسیم کے سبب حکومت کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔[1]

  • 1972ء: انتظامی اصلاحات کے نتیجے میں خواتین کو سول سروسز میں آنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل امور خارجہ اور ضلعی انتطامیہ جیسے شعبے ان کے لیے ممنوع تھے۔
  • 1973ء نئے آئیں میں خواتین کے لیے بے مثال حقوق کی ضمانت دی گئی۔ معاشی اور سیاسی حیثیت کے بارے میں ماضی کی عدم مساوات کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ خواتین صوبائی گورنر، قومی اسمبلی کی اسپیکر اور ایک جامعہ کی وائس چانسلر مقرر کی گئیں۔1973ء میں منظور کردہ آئین پاکستان میں خاص طور پر صنفی مساوات کی ضمانت دی گئی تھی۔ آئین میں یہ شرط دی گئی ہے کہ "صرف جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔" اس کے علاوہ آئین شادی، کنبہ، ماں اور بچے کے تحفظ کے ساتھ ساتھ " قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شرکت" کو بھی یقینی بناتا ہے۔[2] تاہم، بہت سارے ججوں نے آئین کے قانون کے تحت عدم تفریق اور مساوات کی ضمانت پر "اکثر قوانین اسلام" کی توثیق کی۔[3]
  • 1975ء: میں، پاکستان کے ایک سرکاری وفد نے میکسیکو میں خواتین سے متعلق پہلی عالمی کانفرنس میں شرکت کی، جس کی وجہ سے پہلی پاکستان خواتین حقوق کمیٹی تشکیل دی گئی۔
  • 1976ء: حکومت نے خواتین کے حقوق کی کمیٹی قائم کی جس کے سربراہ اٹارنی جنرل تھے۔ کمیٹی کو خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کی سفارشات پیش کرنا تھیں۔
  • 1977ء :تیسرے ماشل لا کے ساتھ شروع ہونے والا یہ دور، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا بدترین دور تھا۔ قوانین میں خواتین کے خلاف ترامیم کی گئیں۔ ذرائع ابلاغ کو خاتین کی غلامی اور پدرشاہی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس مدت کے دوران میں خواتین کے حقوق کی تحریک بہت مضبوط اور بلند آہنگ ہ وکر سامنے آئی، جو ترقی پزیر ممالک میں خواتین کی جد و جہد کا سب سے موثر نمونہ سمجھی جاتی ہے۔
  • 1978ء: اسکلوں، کالجون اور جامعات کے نصاب پر نظرثانی کی گئی۔ نصابی کتابوں میں خاص طور پر خواتین کے خلاف موقف اختیار کیا گیا۔ برقی میڈیا اور فلموں پر سنسرشپ عائد کی گئی۔
  • 1979ء: حدود اور زنا کے قوانین نافذ کیے گئے جو جدید مسلم تاریخ میں خواتین کے خلاف قانونی امتیاز کی بدترین مثال تھی۔ ان قوانین کے تحت گرفتار کی جانے والی قیدی خواتین کی تعداد میں بکثرت اصافہ ہوا۔ وفاقی سطح پر ایک خواتین ڈویژن قاغم کیا گیا۔ خواتین کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں مین صحہ لینا سے روک دیا گیا۔ ٹیلی ویژن کی اناؤنسر کو سر ڈھانپنے کا حکم ہوا۔ سرکاری ملازم خواتین ک واسہامی طرز کا لباس پہننے کی ہدایات دی گئیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Constitution of Pakistan Articles 25, 27, 32, 34 and 35.
  2. Alice Bettencourt (2000)۔ "Violence against women in Pakistan" (PDF)