ابن کنول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(پروفیسر ابن کنول سے رجوع مکرر)

اصل نام : ناصر محمود کمال قلمی نام : ابن کنول والد : معروف قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تاریخ ولادت : 15 اکتوبر 1957ء (بہجوئی ضلع مرادآباد وفات 11 فروری 2023ء )

ابن کنول

معلومات شخصیت
باب ادب

ابتدائی تعلیم : گنور(بدایوں) کے ایک اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں۔ مزیدتعلیم : مسلم یونی ورسٹی ،علی گڑھ(1967سے 1978تک) ایم فل(اردو)،پی ایچ ڈی : دہلی یونی ورسٹی،دہلی (1978–1984) ملازمت:1985تا حال شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی،دہلی

چند اہم غیر ملکی اسفار[ترمیم]

امریکا، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان اور روس کے عالمی سمیناروں میں اردو کی نمائندگی کی ہے۔

انعامات و اعزازات[ترمیم]

  1. سرسید ملینیم ایوارڈ، دہلی برائے اردو فکشن 2001 ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پیش کیا۔
  2. ہریانہ اردو اکادمی کا کنور مہیندر سنگھ ایوارڈ برائے ادبی خدمات 2007۔ گورنر ہریانہ جناب اخلاق الرحمان قدوائی کے ہاتھوں ملا۔
  3. تیسری دنیا کے لوگ، ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں، داستان سے ناول تک، بند راستے، تنقید وتحسین اور اردو افسانہ پر اترپردیش اردو اکادمی، بہار اردواکادمی اور مغربی بنگال اردو اکادمی نے انعامات سے نوازا۔
  4. افسانہ بند راستے پر 1979میں دہلی یونی ورسٹی نے کٹھپالیا گولڈ میڈل دیا۔ جسے سابق نائب صدر جمہوریہ جناب بی۔ ڈی۔ جٹی نے اپنے ہاتھوں پیش کیا۔
  5. دہلی اردو اکاڈمی فکشن ایوارڈ 2008
  6. عبد الغفورنساخ ایوارڈ،مغربی بنگال اردو اکاڈمی،کلکتہ 2017آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ibnekanwal.com (Error: unknown archive URL)

مختصر حالات زندگی[ترمیم]

ابن کنول (پروفیسر ناصر محمود کمال) کی پیدائش ضلع مرادآباد کے قصبہ بہجوئی میں ایک زمیندارخاندان میں ہوئی۔ تاریخ پیدائش 15۔ اکتوبر 1957 ہے۔ والد محترم مشہور قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے۔ ان کے اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور قاضی کے عہدے سے نوازے گئے حکومت کی طرف سے جاگیریں دی گئیں۔ بعد میں آپ کے بزرگ قصبہ ڈبائی میں آکر رہائش پزیر ہو گئے۔ آپ کا خاندان علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ دادا قاضی شریعت اﷲ (متوفی 1930) ایک قابل وکیل تھے۔ پردادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے قصبہ ڈبائی علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس قصبے نے اردو ادب کو کئی اہم شخصیات دی ہیں۔ وفاؔ ڈبائیوی، دعاؔ ڈبائیوی، انتظار حسین، منیب الرحمان اور نداؔ فاضلی جیسے اکابرین علم و فن اسی قصبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آزادی سے پہلے یہاں علمی وا دبی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن میں ہر طبقہ کو لوگ شوق سے شامل ہوا کرتے تھے۔ مشاعروں سے سبھی مذاہب کے لوگ لطف لیا کرتے تھے۔ بعد میں ان میں سے اکثر پاکستان چلے گئے یا علی گڑھ اور دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ا ان کے والد کنول ڈبائیوی کی شاعری وطن کی محبت کے جذبے سے معمور ہے۔ وہ ایک سچے محب وطن تھے۔ ان کی شاعری اس کا نمونہ ہے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے "بساط زیست" اور ’’سوزوطن‘‘ اور ان کی زندگی ہی میں شائع ہو چکے تھے۔ حال ہیں میں ان کی شاعری کو ایک کلیات کی شکل میں پروفیسر ابن کنول نے ’مضراب‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ وہ ایک اچھے محقق بھی تھے انھوں نے لوک ناٹک پر بھی کام کیا تھا۔ لوک ناٹک پر اردو زبان میں اب تک کوئی کتاب نہیں ہے۔ انھوں نے بڑی محنت سے لوک ناٹک کی تاریخ اور اس فن کے بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔ یہ کتاب ابھی اشاعت کے مرحلہ میں ہے۔ کنول ڈبائیوی کی شاعری کو پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر مسعود حسین خاں، خواجہ احمد فاروقی ،میکش اکبرآبادی اور پروفیسر عبد الحق جیسے مشہور ناقدین فن نے سراہا ہے۔

تعلیم[ترمیم]

ابن کنول نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع بدایوں کے قصبہ گنور میں ایک اسلامیہ اسکول میں حاصل کی۔ اسکول اردو میڈیم تھا۔ آپ 1962 میں پہلی جماعت میں داخل ہوئے آپ کے پہلے استاد حاجی صفدر علی مرحوم تھے۔ پانچویں جماعت کے بعد آپ نے آگے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ کا رخ کیا اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے منٹو سرکل اسکول (جو سیف الدین طاہر ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ) میں داخل ہوئے۔ 1972 میں ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد پری یونی ورسٹی سائنس میں داخلہ لیا۔ آپ بتاتے ہیں کہ والد ین میڈیکل کالج میں داخلہ دلاناچاہتے تھے۔ دوسرے لوگوں کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کا لڑکا بڑا ہوکر ڈاکٹر یا انجینئربنے۔ مگر بقول ابن کنول پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ بی اے میں اردو بنیادی مضمون قرار پایا اور اس طرح والد کی علمی وراثت کو سنبھالنے کے لیے آپ نے اسی وادی میں قدم رکھا جس کے راہ رو ان کے والد محترم تھے۔ 1978 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ یہاں کی علمی فضا سے بھر پور استفادہ کیا۔ پروفیسر ابن کنول کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں علی گڑھ میں پروفیسر خورشید الاسلام ،پروفیسر قاضی عبد الستار، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر نعیم احمد اورپروفیسر اصغر عباس جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ایم اے مکمل کرنے کے بعدآپ نے دہلی یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ اس کے بعد ابن کنول نے دہلی یونی ورسٹی سے اپنا رشتہ اس طرح قائم کیا کہ پھر اس دن سے لے کر آج تک قائم ہے۔ پی ایچ ڈی میں آپ نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں ’بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ ‘ کے عنوان سے تحقیقی کام کیا۔ آپ کی یہ کاوش کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ دہلی میں آپ کو بانئ شعبۂ اردو خواجہ احمد فاروقی اور مشہور ترقی پسند نقاد قمر رئیس سے بھی شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع ملا۔

ادبی نشو و نما[ترمیم]

ابن کنول ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد کنولؔ ڈبائیوی ایک قومی شاعر تھے، شعروادب کی خدمت آپ کا مشغلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کی تربیت میں رہ کر آپ کے ادبی ذوق کو جلا ملی ہوگی۔ ابن کنو ل کے والد کہا کرتے تھے کہ ہماری زمینداری ہماری اولاد ہے۔ انھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ الحمدﷲ ان کے سبھی لڑکوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ اسکول کے زمانے میں ہی آپ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ آپ کے اسکول کے ساتھی اسلم حنیف شاعری کیا کرتے تھے اورآپ کہانی لکھے آ تھے۔ کبھی کبھی ان سے متأثر ہوکرابن کنول بھی شاعری میں طبع آزمائی کر لیا کرتے تھے۔ ابن کنول بتاتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی تخلیقات پڑھ کر سناتے اور خوش ہوتے۔ یہ ابتدائی زمانے کی شاعری اور افسانے ظاہر ہے کہ اس معیار کی نہیں ہوتی تھیں کہ انھیں افسانہ یا شاعری میں شمار کیا جاتا۔ لیکن کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ یہ ابتدائی نگارشات ابن کنول کے مستقبل کے ادبی سفر کی تمہید تھے۔ ابن کنول کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں علی گڑھ کی ادبی و علمی فضا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ایم اے میں آپ’’انجمن اردو ئے معلی‘‘کے سکریٹری رہے۔ یہ وہی انجمن ہے جس کی بنیاد مولانا حسرت موہانی نے رکھی تھی۔ اسلم حنیف سے متأثر ہوکر ابن کنول نے اس زمانے میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے پر پہلی نظم کہی تھی جو ماہنامہ نور رامپور میں شائع ہوئی۔ لیکن جلد ہی ابن کنول نے اندازہ لگا لیا کہ ان کا حقیقی میدان افسانہ ہے۔ اس وجہ سے آپ نے اپنی توجہ اسی طرف رکھی۔ ابتدا میں ناصر کمال کے نام سے افسانے لکھتے تھے۔ لیکن 1975 سے ابن کنول کے نام سے افسانے لکھنے لگے۔ ابن کنول اصل میں آپ کے والد کی طرف نسبت ہے۔ باقاعدہ افسانہ لکھنے کا آغاز 1972 سے ہوا۔ آپ کا پہلا مطبوعہ افسانہ ’اپنے ملے اجنبی کی طرح ‘ ہے جو 1974میں آفتاب سحر (سکندرآباد) نامی رسالے میں شائع ہوا۔ جب 1973میں آپ نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا تو قاضی عبد الستار کی سرپرستی مل گئی۔ قاضی عبد الستار کے مکان پر ماہانہ نشستیں ہوتی تھی جس میں نوجوان ادیب اپنی نگارشات پیش کیا کرتے تھے اور قاضی عبد الستار اور دیگر ان پر تبصرہ کرتے تھے۔ ان نوجوان ادیبوں اور شاعروں میں جو لوگ تھے ان میں سے چند اہم نام یہ ہیں :شارق ادیب، سید محمد اشرف، غضنفر، پیغام آفا قی، طارق چھتاری، غیاث الرحمان، صلاح الدین پرویز، آشفتہ چنگیزی، فرحت احساس، اسعد بدایونی، مہتاب حیدر نقوی وغیرہ۔ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں آپ کے افسانے ملک کے معروف ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے تھے۔ جن میں شاعر، عصری ادب، آہنگ، صبح ادب اور نشانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ابن کنول نے بتایا کہ ’بندراستے ‘ جب1976 میں عصری ادب میں شائع ہوا تو محمد حسن نے اس کی بڑی تعریف کی۔ طالب علمی کے زمانے میں اردو کے اس عظیم ناقد سے تحسین کے کلمات کسی سند سے کم نہیں تھے۔ دہلی یونی ورسٹی میں داخل ہونے کے بعد بھی افسانہ نگاری کا سلسلہ برقرار رہا۔ یہاں آکر پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی تربیت میں آپ کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتیں پروان پائیں۔

ملازمت[ترمیم]

ابن کنول تعلیم کے زمانے سے ہی ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ جہاں آپ نہیں گئے تھے وہاں آپ کا نام پہنچ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی سلسلہ ختم ہونے کے بعد جلد ہی آپ کو اپنے مادر علمی دہلی یونی ورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 1985 میں سی ایس آئی آر کی طرف سے شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی میں ریسرچ سائنٹسٹ کے طور پرآپ نے اپنی ملازمت شروع کی۔ اس کے بعد آپ نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اپنے صلاحیتوں کے بل پر ترقی کے منازل طے کرتے رہے۔ 1987 سے لے کر 1990تک شعبۂ اردو ہی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی دوران میں جنوری 1990میں باقاعدہ مستقل لکچرر کے عہدے پر آپ کی تقرری ہوئی۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک وہ شعبہ میں ایک مستقل استاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ 1998 میں ریڈر اور جنوری 2006 میں ترقی کرتے ہوئے پروفیسر کے عہدے تک پہنچے۔ 2005سے 2008تک شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے صدر بھی رہے۔ فی الحال وہ شعبہ اردو کی صدارت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ علمی و منصبی حصولیابیوں کے باوجود ابن کنول ایک سادہ زندگی گزارنے کے قائل ہیں۔ وہ ایک ملنسار ہنس مکھ انسان ہیں۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کا معاملہ ایک استاد سے بڑھ کر دوست کا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ درخت پر پھل آتے ہیں تو اس کی شاخیں جھک جاتی ہیں۔ ابن کنول کی حیثیت بھی ایسے پھل دار درخت کی ہے جس کی شاخیں اپنے شاگردوں او ر احباب کے لیے جھکی رہتی ہیں۔ کسی مصور سے پوچھا گیا کہ تمھاری سب سے اچھی تصویر کون سی ہے تو اس نے کہا کہ آنے والی تصویر۔ ابن کنول کا قلم مستقل رواں ہے۔ وہ آج بھی اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شعبہ کے سینئر استاد کی حیثیت سے طلبہ واساتذہ میں یکساں مقبول ہیں۔ افسانہ، تنقید اور تحقیق ہر میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک کاوش سامنے آ رہی ہے۔ ان کا ہر قدم ایک نئی منزل کا پتہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھی وہ اپنے زرخیز قلم سے گلستان اردو کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ ابن کنول کا قلم اب بھی رواں ہے۔ ان کے افسانے اور علمی و ادبی مضامین ملک وبیرون ملک کے رسالوں میں شائع ہو رہے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قلم کار کا قلم اور مقرر کی زبان اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ قلم کار کا قلم ہمیشہ اسے کچھ نہ کچھ لکھنے کے لیے اکساتا رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر اس قسم کی بے چینی نہیں پاتا ہے تو حقیقی معنوں میں وہ قلمکار نہیں ہے۔ ابن کنول کے اس مختصر سے سوانحی خاکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک قلم کار ہیں۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھنے والے قلم کار۔ وہ اپنے قلم کا ذائقہ بدلنے کے لیے مختلف اصناف میں سے جسے بھی چاہتے ہیں چنتے ہیں اور اپنے اندر کی آواز کو اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی تحریریں قاری کو عزم وحوصلہ دیتی ہیں۔ حالات سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ دیتی ہیں۔ ابن کنول کے یہاں آج کے قلم کاروں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ میں نے ان کے افسانوں کو بار بار پڑھا۔ ہر مرتبہ مجھے ان کے اندر کچھ نیا ملا ہے۔ غالباً یہی وہ چیز ہے جس کو پروفیسر عتیق اﷲ نے بین السطور سے تعبیر کیا ہے۔ ابن کنول کے افسانے پس متن بھی کچھ بیان کرتے ہیں۔ اس پس متن کو پڑھنے کے لیے افسانوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تصانیف[ترمیم]

  1. تیسری دنیا کے لوگ (افسانے ) 1984
  2. 2۔ بند راستے (افسانے ) 2000#۔ ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں 1988
  3. (’بوستال خیال ایک مطالعہ‘ کے نام سے 2005 میں دوبارہ شائع ہوئی)#۔ ریاض دلربا(اردو کا پہلا ناول) (تحقیق) 1990
  4. آؤ اردو سیکھیں(قاعدہ) 1993#۔ داستان سے ناول تک(تنقید) 2001
  5. - انتخاب سخن(اردو شاعری کا انتخاب) 2005#۔ منتخب غزلیات 2005#۔ منتخب نظمیں 2005#۔ اصناف پارینہ(قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ) 2005#۔ تنقید و تحسین(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2006
  6. تحقیق وتدوین (ترتیب) 2007#۔ میرامن (مونو گراف) 2007#۔ باغ وبہار ( مقدمہ و متن) 2008#۔ پہلے آپ (ڈراما)2008#۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری 2008#۔ مضراب (کنول ڈبائیوی کا کلیات معہ مقدمہ)2010#۔ اردو افسانہ (افسانوی تنقید) 2011#۔ پچاس افسانے(افسانوی مجموعہ)2014#۔ تنقیدی اظہار2015#۔ فسانہء عجائب(مرتبہ)2016#۔ اردو لوک ناٹک: روایت اوراسالیب(کنول ڈبائیوی کی تحقیق)مرتبہ 2014

ابن کنول کی افسانہ نگاری[ترمیم]

ہم عصر افسانہ نگاروں میں جن لوگوں نے اپنے منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے ان میں ابن کنول کا نام سر فہرست ہے۔ ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیت جو ان کو دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے داستانوی رنگ و آہنگ۔ ابن کنول کے افسانوں پر داستانوی ادب کے اثرات بہت واضح ہیں۔ خود ابن کنول کو بھی اس بات کا اعتراف ہے۔ اس کی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ انھوں نے داستانوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ داستان ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس وجہ سے داستانوی زبان ان کی لفظیات پر حاوی ہے۔ اسّی کی دہائی کے بعد لکھنے والے بہت سے افسانہ نگاروں نے داستانوی رنگ میں افسانے لکھے ہیں۔ عام طور پر انتظار حسین کو اس منزل کا راہ رو سمجھا جاتا ہے۔ مگر ابن کنول کاماننا ہے کہ نئے افسانہ نگاروں کو انتظار حسین نے نہیں بلکہ براہ راست داستانوں نے متاثر کیا ہے۔ نئے لکھنے والوں میں سلام بن عبد الرزاق، حسین الحق، عبد الصمد، قمراحسن، ساجد رشید، انور خاں، شوکت حیات، سعید سہروردی، سید محمد اشرف، غضنفراور انجم عثمانی سب کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں داستانوی رنگ و آہنگ مل جاتا ہے۔ پاکستان میں انتظار حسین کے علاوہ انور سجاد، خالدہ حسین،رشید امجد، احمد داؤد اور آصف فرخی نے اپنے افسانوں میں داستانوی طریقۂ اظہار کو جگہ دی ہے۔ ان افسانہ نگاروں کے یہاں داستانوں سے استفادہ کی مختلف نوعیتیں ہیں۔ ابن کنول اپنے ایک مضمون’ اردو افسا نہ اور داستانوی طرز اظہار‘ میں لکھتے ہیں : ’’۔۔۔ مختصر افسانہ نگاروں نے داستانوں سے مختلف انداز میں استفادہ کیا ہے۔ بعض نے اپنے افسانوں کے عنوانات اس طرح رکھے ہیں کہ ان پر داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔ مثلا ’’آئینہ فروش شہر کوراں ‘‘، ’’ سات منزلہ بھوت‘‘ ،’’خارپشت‘‘ ،’’چوپال میں سنا ہوا قصہ ‘‘، ’’سربریدہ آدمی ‘‘،’’من کا توتا‘‘،’’ داخل ہونا بے نظیر کا بیابان میں ‘‘،’’ طلسمات ‘‘وغیرہ۔ کچھ افسانہ نگاروں نے داستانوں کے پرشکوہ اسلوب کو اختیار کرکے اپنے افسانوں میں داستانوی فضا تیار کی۔ بعض نے اسطور سازی کے عمل کواپنایا۔ تمثیلی پیرائے میں بھی افسانے لکھے گئے اور جانوروں کو کردار بنا کر عصری مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا، چھوٹی چھوٹی حکایتوں کے انداز پر افسانے لکھے گئے، داستانوں کی طرح مختصر افسانہ کو ضمنی کہانیوں کی شمولیت کے انداز میں بھی لکھا گیا۔ بعض افسانہ نگاروں نے داستانوں کے مافوق الفطرت عناصر اور طلسمی ماحول کے زیر اثر اپنے افسانوں میں طلسمی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘ (داستان سے ناول تک، ابن کنول ص 177) ابن کنول نے اپنے افسانوں میں داستانوی رنگ وآہنگ قائم کرنے کے لیے ان میں سے تقریباً سبھی طریقوں کو برتا ہے۔ ابن کنول عموماً اپنے افسانوں کی ابتدا داستانوی زبان میں کرتے ہیں : ’’اچانک آفتاب کی تیز شعاعیں مانند پیکاں اس کی نگاہوں سے اتر کر پورے جسم میں پھیل گئیں اور اس کا بدن مثلِ بدر منیر پُر نور آئینہ خانہ بن گیا۔ اس کے اعضائے بدن سے کرنیں پھوٹنے لگیں۔ ۔۔۔ کئی برس تک مسلسل قطرہ قطرہ آفتاب اس کے بدن میں اتر ا تھا جس نے اس کے قلب تاریک کو کوہِ نور میں بدل دیا۔ اور اب وہ خوش تھا کہ امروز فردا وہ اپنی عمرِ گذشتہ کے سچے خوابوں کی دنیا میں پھر پہنچ جائے گا کہ جن سے رخصت ہوکر وہ چند برس پہلے ایک سفر سخت کے لیے حاکمِ وقت کے ہمراہ روانہ ہوا تھا کہ وہ بادشاہ وقت کی فوج کا ایک سپاہی تھا اور بادشاہ اپنے ملک کی سرحد پر آئے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لیے دار الخلافہ سے ا پنی فوج کے ساتھ چلا تھا۔ ‘‘ (جیت کسی کی، ہار کسی کی) ’’ہوا یوں کہ ایک روز جب آفتاب کی روشنی عالم آب وگل کو منوّر کرچکی تھی، بازار اور دکانیں معمول کے مطابق پر رونق ہونے لگی تھیں کہ فضا میں ایک عقاب تیز رفتار پرواز کرتا ہوا نظر آیا، قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے پنجوں میں ایک مار سیاہ لٹکا ہوا تھا تھوڑی دیر تک وہ عقاب بازار کے اوپر منڈلاتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سانپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک شخص کی گردن پر جاپڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی کسی کو مدد کے لیے پکارتا، سانپ نے اپنے زہریلے پھن سے اس کی پیشانی کو داغ دیا۔ ‘‘ (ہمارا تمھارا خدا بادشاہ) ’’جس وقت بادشاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قریب ترین وزیروں کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: ’’عزیزو! تم سب بے حد عزیز ہو، ہماری زندگی کا سرمایہ ہو، ہم اپنے رب کے بعد تمھارے شکر گزار ہیں کہ تم نے ہماری زندگی کے سفر کو آسان کیا۔ ہر مشکل ساعت میں تم ہمارے مددگار ہوئے ۔‘‘ (وارث) ’’ بعد کئی صدیوں کے زید بن حارث کی آنکھوں میں آفتاب کی کرنیں چبھنے لگیں۔ ۔۔۔۔۔‘‘ ( صرف ایک شب کا فاصلہ) اور جب بادشاہ نے سفر سے مراجعت کی۔ دار الخلافہ میں پہنچ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ کل دن کے پہلے پہر ہم دربار عام کریں گے ۔۔۔۔۔ ‘‘(پہلا آدمی) ’’اور پھر ابراہیم کے لیے خدائے بزرگ و برتر کا حکم ہوا کہ اے ابراہیم تم اپنی بیوی اور معصوم بچے کو اﷲ کی راہ میں قربان کردو۔ ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ( سویٹ ہوم) یہ تکڑے مختلف افسانوں کے ابتدائی پیراگراف سے لیے گئے ہیں۔ ان سب میں خاص بات جو ہے وہ ان کاوہ لب ولہجہ ہے جو داستانوں کے لیے خاص مانا جاتا ہے۔ مسجع و پرشکوہ عبارت، مترادفات کا استعمال وغیرہ ان داستانوی طرز کے جملوں کے ذریعہ ابن کنول نے ایک خاص قسم کی فضا پیدا کرکے افسانوں کو رنگین بنا دیا ہے۔ قاری ان ابتدائی جملوں کو پڑھ کر داستانوں کی طلسماتی دنیا میں کھوجاتا ہے مگر جلد ہی وہ حال کی دنیا میں چلا آتا ہے جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر سبھی مسائل وہی ہیں جو ہمارے ارد گرد ہیں۔ اس داستانوی دنیامیں بھی ہمارے جیسے لوگ رہتے ہیں۔ جو بھوک وپیاس کی شدت محسوس کرتے ہیں۔ وہ بھی حالات کے ستائے ہوئے ہیں۔ کئی افسانوں میں ابن کنول نے داستانوی زبان و اسلوب صرف یہ بتانے کے لیے اختیار کیا ہے کہ زمانہ اگرچہ بدل گیا ہے مگر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مثال کے طور پر ’ہمارا تمھارا خدا بادشاہ‘؛ ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘؛’وارث‘ــ؛ اور’ صرف ایک دن کے لیے ‘وغیرہ جیسے افسانے حال کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں مگر ان کی زبان اور فضا قدیم داستانوی ہے۔ ’ہمارا تمھارا خدا بادشاہ‘ میں حکمراں طبقہ کی عیاری و مکاری ظاہر ہوتی ہے۔ وہ طبقہ جو عوام کے سامنے ان کا ہمدرد بن کر آتا ہے مگر وہ جن مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرتا ہے وہ خود اس کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے تاکہ عوام کی ہمدردی حاصل کی جاسکے۔ آج بھی حکمراں پہلے بستیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرتے ہیں پھر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس امداد لے کر جاتے ہیں۔ ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں فضا داستانوی ہے مگر ایمرجنسی کے وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے اس افسانہ کا خمیر تیار کیا گیا۔ لیکن مسائل عصر حاضر کے ہیں۔ اسی دنیا کے جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں۔ اصحاب کہف جب تین سو سال کی گہری نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کے ملک میں عوام کی منتخب حکومت ہے۔ عوام کو اظہار رائے کی آزادی ہے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کا بھرم اس وقت ٹوٹ گیا جب حکمراں جماعت نے ان چاروں کی مقبولیت کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کو گرفتار کر لیا۔ ابن کنول نے نہایت ہوشیاری سے ایک مشہور و معروف اسلامی اسطور سے جمہوریت کی کھوکھلی تعبیروں کی حقیقت واضح کی ہے۔ اصحاب کہف کی روایت میں نوجوان بادشاہ وقت کے ظلم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی بادشاہ وقت کے ظلم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لیتے ہیں۔ ان دونوں واقعات میں قدرے مشترک یہی بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے پناہ لینا ہے۔ یہی حال ’صرف ایک دن کے لیے ‘ کا ہے۔ منتریوں کے دوروں میں اور بادشاہوں کے دوروں میں کوئی فرق نہیں۔ جب بھی کوئی وزیر کا کسی پسماندہ علاقہ کا دورہ کرتاہے تو اس علاقے کی تمام غلاظتوں کو ڈھک دیا جاتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس علاقے کی ساری جھگی جھوپڑیوں کو بھی صاف کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ بادشاہ وقت کی نظر ان غلاظتوں کو دیکھ کر گندی نہ ہو۔ اگر چہ ان کے اس عمل سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوجائیں۔ ’وارث‘ میں اگرچہ بادشاہ اپنے جانشین کو چننے کے لیے امتحان لیتا ہے اور اس میں اسی کو کامیاب قراردیتا ہے جو لوگوں میں پھوٹ ڈال کر حکومت کرنے کا ہنر جانتا ہے مگر یہ افسانہ موجودہ حکمرانوں کی ذہنیت سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامہ میں سیاسی پارٹیاں انھیں کو الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہیں جو لوگوں کو دھرم اور ذات کے نام پر باٹنے اور لڑانے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں جرائم پیشہ افراد کی بھر مار ہو گئی ہے۔ ملک میں آئے دن گھوٹالے ہو رہے ہیں۔ پروفیسر عتیق اﷲ لکھتے ہیں : ’’یہ افسانے سیاسی طنز کی مثال بھی ہیں۔ جیسے موجودہ پورا نظام انسانیت اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ ’ہمارا تہمارا خدا بادشاہ‘ کے بادشاہ کی فکرمندی، وارث کے بادشاہ وقت کا ابوشاطر کو ولی عہد بنانے اور’ صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں خاتون بادشاہ وقت کی اجتماعی نس بندی کے اطلاق کے پیچھے ہمارے وقتوں کی سنگدلانہ سیاست کا آسانی کے ساتھ نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ابن کنول کی خلق کردہ ان نامانوس دنیاؤں کی دو یا دو سے زیادہ معنوی سطحیں ہیں، ان کا تعلق کس حد تک ہمارے وقتوں کے انسانوں کی دوچہرگی سے ہے یا جس حاکم وقت خاتون اور اس کے بیٹے کا تذکرہ ہے ان کے اصل نام کیا ہیں۔ ابن کنول نے تخصیص کو تعمیم کے رنگ میں پیش کرکے اپنی کہانیوں کوہر طرف سے کھلا رکھا ہے۔ اپنے قاری کو یہ چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اپنے طور پر اور اپنی بساط کے مطابق انھیں معنی دے سکتا ہے۔ ‘‘ (پروفیسر عتیق اﷲ، ابن کنول کا پس حقیقت کو کسب کرنے کا فن، اردو اکیڈمی کے ایک سمینار میں پڑھا گیاغیر مطبوعہ مضمون) بعض ناقدین نے داستانوی اسلوب میں لکھنے کی وجہ سے ابن کنول پر انتظار حسین کے اثرات کی بات کی ہے۔ لیکن ابن کنول نے اس سے انکار کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ابن کنول نے کہاہے کہ انھوں نے داستانوں کو پڑھ کر کہانی یا افسانہ لکھنا سیکھا ہے۔ اس وجہ سے داستانوی اثرات ان کے یہاں براہ راست داستانوں سے آئے ہیں۔ ابن کنول نے ’بوستان خیال‘ اور دوسری داستانوں کو حرف بحرف پڑھا ہے۔ اسی سے انھوں نے کہانی سے کہانی نکالنے کا ہنر سیکھا ہے۔ ابن کنول رقمطراز ہیں : ’’ بیسویں صدی کے اوائل تک داستانوں کا ماحول رہا۔ داستانیں باقاعدہ شائع ہوتی رہیں اور پڑھی جاتی رہیں، اس لیے اس دور کے افسانہ نگاروں کے اسلوب پر لاشعوری یا شعوری طور پر ہی داستانوں کا اثر آگیا۔ البتہ آہستہ آہستہ داستانوں کی جگہ حقیقت پسندانہ قصے مقبول ہونے لگے۔ ‘‘[1] ابن کنول کے کئی افسانوں کا پلاٹ اساطیری روایتوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ ہے۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے اس کا پاٹ تیا ر کیا ہے۔ اسی طرح ’سویٹ ہوم‘ میں حضرت ابراہیم کے اس واقعہ سے کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے جس میں وہ اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں چھوڑ کرچلے جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے ایک مکہ شہر آبادہوجاتا ہے۔ ویسے ابن کنول نے اپنے افسانوں میں اسلامی روایات سے بہت کام لیا ہے ۔’تیسری دینا کے لوگ‘ میں بزرگ نمودار ہوکر فساد سے تباہ حال لوگوں کو عزم و حوصلہ دیتے ہیں اور خود کشی کے ارادے سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور تین سو تیرہ والے واقعے کی تلمیح سے ان تباہ حالوں کو عزم و حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح کے بزرگ کا ظہور ’پہلا آدمی ‘ میں بھی ہوتا ہے۔ ’ایک ہی راستہ‘ میں ایک بزرگ کسی ایک برائی کے ختم کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے واقعات عام طور پر ہندو اساطیر میں ملتے ہیں۔ اس کو وردان کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر صوفیانہ روایات میں بعض مسلم صوفیا سے بھی اس قسم کی روایات منقول ہیں۔ ’سویٹ ہوم‘ میں ابابیلوں کی تلمیح بھی بہت معنی خیز ہے۔ یہ اور اس جیسی اسلامی روایات اور تلمیحات سے ابن کنول نے کہانی کو نیا موڑ دیا ہے۔ عموما ًان وقعات کو برائی سے لڑنے اور جدوجہد کرنے کا سبق دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کہانی سے کہانی نکالنا داستانوں کا ایک خاص اسلوب ہے۔ پنچ تنتر اور الف لیلہ پڑھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ سیکڑوں کہانیا ں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں۔ اس طرح کہانی در کہانی داستان آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اس اسلوب کو ابن کنول نے اپنے کئی افسانوں میں کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ ابن کنول کا افسانہ ’’ شام ہونے سے پہلے ‘‘ تین کہانیوں پر مشتمل ہے۔ راوی کو بیرون ملک وداع کرنے سے پہلے اس کی دادی یاقوت سوداگر کا واقعہ سناتی ہے، بیوی بلقیس کا واقعہ سناتی ہے۔ اور باپ ابوجبار کا واقعہ سناتا ہے۔ بیوی اور دادی کے کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ شام ہونے سے پہلے گھر آجانا ورنہ ان کرداروں کی طرح پچھتانا پڑے گا۔ جبکہ ابوجبار کے واقعہ میں اس بات پر زور ہے کہ بغیر روپیہ پیسہ کمائے واپس نہ آنا ورنہ ابو جبار کی طرح پچھتانا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ابن کنول کے افسانوں میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعہ افسانہ کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کئی جگہوں پر ان چھوٹی اور مختصر کہانیوں کے ذریعہ کہانی کو نیا موڑ بھی دیا گیا ہے ۔’جیت کس کی اور ہار کس کی‘ میں خواجہ اسد کے جہاز ٹوٹ جانے اور اس کے ایک دوسرے جزیرے میں پہنچنے کے بعد پھر گھر پہنچنے کے واقعہ کو بیان کرکے یوسف کے شوق کو اور مہمیز دیا گیا ہے۔ ’خوف ‘ میں دادی جان بچوں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی ہیں کہ کس طرح دنیا میں سبھی جاندار آدمی سے ڈرتے ہیں۔ آدمی شیر سے بھی نہیں ڈرتا، ہاتھی کو قابو میں کرلیتا ہے آدمی کی دہشت ننھے عاطف پر اس قدر بیٹھ جاتی ہے کہ اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے تو مارے خوف کے بے ہوش ہوجاتا ہے ۔ ’خوف‘ ہی کی طرح ’قصہ صرف کتابوں کا‘ میں بھی قصہ گوکے ذریعہ کہانی بیان کی جاتی ہے جس میں دو بھائیوں کی محبت کی داستان ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں جب اسی جیسے حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تو کہانی قصے کی باتیں صرف کتابوں میں رہ جاتی ہیں۔ چھوٹے بھائی کے لیے قربانی کا جذبہ ہارون اصلی زندگی میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے : ’’ اے عزیز از جان! تو مجھے بے حد عزیز ہے لیکن میں بے بس اور لاچارہوں خدا کے لیے میری خاطر تو اس قربانی کے لیے خود کو تیار کرلے۔ ‘‘ ’مرتے ہیں آرزو میں مرنے کے ‘ میں بھی دادی جان کے ذریعہ ایک کہانی کے ذریعہ افسانہ کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔ دادی جان ایک ایسے خونی جزیرے کا ذکر کر رہی تھیں جہاں کوئی خونی دیو رہتا تھا۔ بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ جو اس جزیرے میں کام کرے گا اور جان دے گا اس کے گھر والوں کو زر کثیر دیاجائے گا۔ اس اعلان پر بہت سارے لوگ وہاں کام کرنے پر راضی ہو گئے۔ یوسف نے بھی یہ کہانی سنی اور حکومت کی طرف سے خطرناک علاقے میں تعیناتی کویہ سوچ کرقبول کرلیتا ہے کہ اس کی ناگہانی موت پر جو روپئے ملیں گے اس سے اس کی بیٹیوں کی شادی ہو جائے گی۔ مگر وہ صحیح سلامت واپس آگیا۔ گھر کے دوسرے افراد کو تو خوشی ہوتی ہے مگر وہ خوش نہیں ہے۔ اس لیے کہ اب اس کے گھر والوں کو وہ روپئے نہیں ملیں گے جس سے وہ اپنی بیٹی کی شادی کرسکے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے افسانے ہیں جس میں کہانی کے ذریعہ یا تو کہانی کو نیا موڑ دیا گیا ہے یا کہانی کو دلچسپ بنایا گیا ہے یا پھر اسی کہانی پر افسانے کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔ زبان اور اسلوب کے علاوہ ابن کنول نے اپنے افسانوں میں عام طور پرکرداروں کے نام بھی اساطیری روایتوں کے لحاظ سے رکھا ہے۔ ’ جیت کسی کی ہار کسی کی‘ میں کردار کا نام یوسف ہے۔ حضرت یوسف کی طرح اس افسانہ کا مرکزی کردار بھی مرا ہوا مان لیا جاتا ہے مگر بعد میں گھر واپس آجاتا ہے۔ ’وارث ‘میں کرداروں کے نام ابوعقیل، جانباز خاں، خرد مند اور ابوشاطر ان کی صلاحیتوں اور اعمال کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ یہی حال ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ کا بھی ہے۔ ابن کنول نے اپنے بعض افسانوں کے نام بھی داستانوں کے طرز پر رکھا ہے۔ جیسے ’ہمارا تمھارا خدا بادشاہ‘ اور ’آنکھوں کی سوئیاں ‘ وغیرہ۔ ابن کنول کے یہ سبھی افسانے جن میں داستانوی اثرات ہیں سن 1980 سے پہلے کے ہیں۔ 1980 کے بعد کے افسانوں میں داستانوی عناصر کم ہیں۔ اس کے باوجود چند الفاظ ایسے ہیں جو ان افسانوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ جیسے ’اورہر پھر ایسا ہوا‘ اور ’ اور پھر یوں ہوا‘ یہ جملے بھی داستانوں اثرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ پریم چند کے ابتدائی دور کے افسانوں میں داستانوں اثرات ملتے ہیں۔ وہ اردو افسانے کا تشکیلی دور تھا۔ اردو افسانہ ابھی داستان سے الگ اپنی پہچان بنا رہا تھا۔ اس کے باوجود پریم چند اپنے بہترین افسانوں میں ان افسانوں کو جگہ دیتے تھے جن میں داستانوی اثرات ہیں۔ پریم چند نے اپنے بہترین افسانوں کے انتخاب میں تقریباً آدھے افسانے ایسے رکھے ہیں جن پر داستانوی رنگ غالب ہے۔ وہ داستانوی اثرات کو کمزوری نہیں مانتے تھے۔ ابن کنول کے افسانوں میں بھی داستانوی اثرات ہیں مگر یہ اثرات ان کے یہاں عمداً ہیں۔ اگر چہ بعد کے افسانوں میں یہ اثرات تھوڑے مدہم ہوئے ہیں مگر ان اثرات کی وجہ سے ابن کنول کے افسانوں کی زبان میں مٹھاس اور روانی پیدا ہوئی ہے۔ ابن کنول کے یہاں جو کہانی پن پر زور ملتا ہے وہ داستانوی اثرات کی دین ہے۔ معاصر افسانہ نگاروں میں کہانی پن پر جس قدر زور ابن کنول کے یہاں ہے کسی اور افسانہ نگار کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ پروفیسر عبد الحق ’بند راستے ‘کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ بند راستے کے افسانوں میں فن کی فسوں کار تکنک اور مثبت فکر کا اوج و عروج کہانی کی روایت میں چراغ رہ گذر کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ان میں فن کے استقبال اور اضافے کی بڑی وسعت پائی گئی۔ ہماری افسانہ نگاری کا ایک معتد بہ حصہ مذموم اور پراگندہ خیالی کی بڑی مکروہ تصویر پیش کرتا ہے۔ حقیقت کے نام پر گھناؤنے فریب نے تخلیقی تحریم کو ہدف بنایا۔ ایسی فصا میں اقدار کا چراغ جلائے رکھنے والوں کا میں بڑا احترام کرتا ہوں۔ ان کی کہانیوں میں اقدار کی ارجمندی نے مجھے طمانیت بخشی ہے۔ ان کے افسانے اس لیے بھی دل کشی رکھتے ہیں کہ وہ قصہ اور کہانی کے لطف خاص سے بھر پور ہیں۔ کہانی جب قصہ پن سے خالی ہوکر نظریہ سازی یا فلسفہ طرازی کی بات کرتی ہے تو قاری پر تکدر طاری ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر ابن کنول نے اساطیری اسالیب بیان کی تجدید کو آگے بڑھا کر اپنی پہچان پیش کی ہے۔ ‘‘[2] پروفیسر عبد الحق نے ابن کنول کے افسانوں کی تین اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ اقدار کی ارجمندی، قصہ پن سے بھر پور افسانے اور اساطیری اسالیب بیان کی تجدید۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے افسانہ نگاروں نے حقیقت بیانی کی آڑ میں ہراس چیز کوصفحۂ قرطاس کی زینت بنادیا ہے جس کو کم از کم ہمارا مشرقی معاشرہ قبول کرنے سے قاصر ہے۔ ناقدین نے بھی ان افسانوں کو اردو افسانے کا ماسٹر پیس ثابت کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ ہمارے ناقدین نے حقیقت پسندی کے نام پر طوائفوں کی اس قدر تعریفیں کی ہیں کہ ان کے گراہکوں نے بھی شاید نہ کی ہو۔ ابن کنول افسانہ نگار کے ساتھ ایک ناقد بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں فحاشیت کو جگہ دی ہے اور نہ ان کی تنقیدوں میں ان کے لیے کوئی جگہ ہے۔ دراصل کہانی یاقصہ پن داستانوی ادب کی جان ہے۔ داستان اگرچہ صرف کہانی قصہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی مرقعے بھی ہیں۔ بقول ابن کنول’ داستانوں میں اگرچہ فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن ان داستانوں میں جو تہذیبی مرقعے ہیں، وہ سو فی صدی سچ ہیں ‘ لیکن داستانوں میں پورا زور کہانی پر ہوتا ہے۔ افسانوں میں داستانوی طریقۂ اظہار آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے فنی چابکدستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابن کنول نے اپنے ایک مضمون میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو داستان طرازی کو سہل پسندی سے تعبیر کرتے ہیں : ’’۔۔۔ یہ کہنا سراسر بددیانتی ہے کہ داستان طرازی آسان فن ہے۔ دوسرے جن افسانہ نگاروں نے داستانوی طریقۂ اظہار کو اختیار کیا ہے انھوں نے بیشتر افسانے اس تکنیک سے ہٹ کر لکھے ہیں۔ دراصل موضوع خود بخود تکنیک تلاش کرلیتا ہے اور افسانہ نگار کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ اپنی بات کہنے کے لیے کس طرز اظہار کو اپنایا جائے جو موضوع کا حق بھی ادا کر دے اور متاثرکن بھی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ داستانوی طریقہ ٔ اظہار کو اپنا کر آج کا افسانہ نگار داستان، تمثیل یا حکایت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ داستانوں سے کہانی کہنے کا فن سیکھ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ افسانوی نثر سیکھنے کے لیے داستانوں کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ ‘‘[3][4]

وفات[ترمیم]

11 فروری 2023ء کو وفات پا گئے،[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. داستان سے ناول تک ص 177
  2. پروفیسر عبد الحق، داستان سے ناول تک، ص 7
  3. داستان سے ناول تک، ابن کنول، ص: 971
  4. اردو یسرچ جرنل ج1، شمارہ 1، فروری 2014
  5. https://www.urdu.awazthevoice.in/india-news/death-of-professor-ibn-kanwal-24955.html

بیرونی روابط[ترمیم]