پنجابی شیخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پنجابی شیخ
کتاب تصریح الاقوام میں ایک معزز کھتری شخص کی تصویر از کرنل جیمز اسکنر (1778ء-1841ء)
کل آبادی
(10 ملین)
گنجان آبادی والے علاقے
 بھارت پاکستان یورپ ریاستہائے متحدہ کینیڈا آسٹریلیا دبئی سعودی عرب برطانیہ
زبانیں
پنجابیانگریزیاردو
مذہب
اسلام 100%
متعلقہ نسلی گروہ
جنوبی ایشیا میں شیوخکھتریKamboj/Kamboh/Kambojaمسلمان راجپوتلوہارآرائیں

پنجابی شیخ (اردو: پنجابی شيخ) جنوبی ایشیا کے شیوخ کی ایک ممتاز شاخ ہے۔ جنوبی ایشیا میں اسلام کی آمد کے بعد جن ہندوستانی الاصل اعلیٰ ذاتوں نے اسلام قبول کیا، ان میں سے بہت سے خاندان اور قبیلوں نے شیخ کا لقب اپنایا۔ شیخ (عربی اور پنجابی: شيخ ) ایک عربی لفظ ہے جس کے معانی قبیلہ کے بزرگ، معزز اور قابل احترام بوڑھے آدمی یا عالم کے ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ لفظ ایک نسلی لقب کے طور پر استعمال ہوتا ہے جسے عموماً مسلم تجارت پیشہ خاندان استعمال کرتے ہیں۔

آغاز

جنوبی ایشیا میں مسلم حکمرانی کے آغاز 713ء سے مسلمان سرکاری افسر، فوجی، تاجر، سائنس دان، ماہرین تعمیرات، اساتذہ، متکلمین اور صوفیا عالم اسلام کے مختلف علاقوں سے سفر کر کے   جنوبی ایشیا کی مسلم قلمرو میں داخل ہوئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ بعد ازاں کچھ اعلیٰ ذاتوں (برہمن اور کھتری) نے پنجاب کے علاقے میں اسلام قبول کیا اور شیخ کا لقب اختیار کیا، ایسے افراد پنجابی شیخ کہلاتے ہیں۔ ان پنجابی شیوخ میں بیشتر افراد شہری ہیں البتہ مغربی اضلاع میں کچھ خاندان ایسے ہیں جو اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ ان کے اصل پیشے کاروبار، تجارت اور عوامی خدمت ہیں۔ پنجاب میں عموماً انھیں ماہر اور ذہین تاجر کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ بارہویں صدی کے اوائل میں بہت سے راجپوت خاندان بھی مسلمان ہوئے تھے جنہیں اعزازی طور پر مسلم حکمرانوں یا پیروں نے شیخ کا لقب دیا تھا۔ راجپوتوں میں شیخ راجپوتوں ہی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ ایک اور مثال خواجہ شیخ کی ہے جن میں دو برادریاں چنیوٹ اور قانون گوہ شیخ ہیں۔

سنہ 1947ء میں تقسیم ہند سے قبل کھتری ذات کے لوگ پنجاب کے تمام اضلاع میں رہتے تھے، تاہم ان میں زیادہ تر خاندان مغربی اضلاع میں آباد تھے۔ کھتری، راجپوت، گجر اور گکھر وغیرہ کے بہت سے خاندان مسلمان ہو گئے تھے۔ صدیقی، قریشی شیوخ اور عباسی برادریاں انہی نو مسلم خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تمام برادریاں پنجاب میں پنجابی گو شیخ کہلاتی ہیں اور سندھ میں سندھی گو شیخ۔ صدیقی شیوخ اس وقت بھی بھارت کے شمالی علاقوں بالخصوص اترپردیش اور ہریانہ میں بکثرت آباد ہیں جبکہ بہار، مغربی بنگال اور حیدرآباد میں کچھ خاندان پائے جاتے ہیں۔

سرسوت برہمن بھی اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے ناموں کے ساتھ شیخ کا لقب استعمال کرنے لگے۔

تمام مسلم راجپوت جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا، شیوخ کہلاتے ہیں۔ نیز چونکہ مغل حکمرانوں نے بعض راجپوت خواتین کو اپنے حرم میں شامل کر لیا تھا اس لیے بعض موقع پر راجپوت اپنے ناموں کے ساتھ مغل بھی لگاتے تھے لیکن حقیقت میں یہ شیوخ ہی کہلائے۔

روپڑی شیخ

روپڑی شیخ تحصیل روپڑ مشرقی پنجاب کی کاروباری شیخ برادری ہے. شیخان محلہ روپڑ اسی برادری کے نام سے منسوب ہے۔ روپڑی شیخ خود کو عباس بن عبدالمطلب کی اولاد ہونے کی وجہ سے عباسی ہونے کے دعویدار ہیں۔ روپڑی شیخ ککے عباسی بھی کہلاتے ہیں۔ تقسیم کے بعد یہ برادری لاہور شیخوپورہ اور فیصل آباد میں مقیم ہوئی.

اسماعیلی شیخ

ہندو برہمن، چھتری، ٹھاکر، رانا، راٹھوڑ، بھٹی (ذات)، چوہان اور راجپوتوں کے دیگر اشرافیہ طبقوں نے اسماعیلی پیروں کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا۔ اسماعیلی پیروں نے ان نو مسلموں کو پنجاب کا موروثی لقب شیخ عطا کیا۔ نیز عرب اور ایران سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں میں جن افراد نے اسماعیلی مذہب اختیار کیا اور وہ پہلے سے سید تھے، انھیں بھی اپنی ذات تبدیل کرنا پڑی۔ کیونکہ اسماعیلی مذہب کے مطابق محض امام ہی سید ہو سکتا ہے۔ چنانچہ صدیوں تک شیوخ کو ہندو اور مسلم دونوں کے درمیان عزت و وقار اور مرتبہ ملتا رہا۔ البتہ خوجا برادری کے برعکس پنجاب کے اسماعیلی شیوخ زیادہ مشہور نہیں ہوئے۔ اسماعیلی کھوجے ملتان کے عظیم بزرگ شاہ شمس سبز واری کا بہت احترام کرتے ہیں بلکہ پنجابی شیخوں خاص کر مسم اروڑوں کی اکثریت اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ ان کے بڑوں نے بابا شاہ شمس کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا

خواجہ شیخ

کھتری قوم کے افراد نے جب اسلام قبول کیا تو اپنا لقب خواجہ شیخ اختیار کیا۔ اس برادری کے بہت سے تاجر پیشہ مسلمانوں نے جنوبی ایشیا میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ تجارت پیشہ ارورا اور کھوکھرین نامی ایک چھوٹی برادری اپنے آپ کو کھتری کہلاتی ہیں لیکن درحقیقت اپنی اصل، تاریخ، تمدن اور زبان میں یکسر مختلف ہیں۔ ارورا اور کھوکھرین برادریاں ملتانی اور سرائیکی زبانیں بولتی ہیں۔ہندو مت میں ذات پات کو بہت اہمیت حاصل تھی برہمن کا درجہ سب سے اوپر تھا پھر کھشتریہ یا کھتری پھر ویش اور پھر شودر تھے کھتری خالص آرین گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جب ہندوستان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو سب سے پہلے مقامی ذاتوں میں سے ویشوں نے جن میں کاشت کار طبقہ اکثریتی شامل تھا اور شودروں نے جن میں پیداواری اور خدمت گار ذاتیں شامل تھیں ( ادھر کی مقامی اقوام میں مصلی گگڑے رول لبانے اوڈ سانسی چوہڑے شامل تھے یہ غیر آرین اقوام تھیں ) اسلام قبول کیا برہمن کھتری اروڑہ اپنے مذہب ہندو مت پر سختی سے کاربند تھیں اور قدیم دور سے لے کر تا حال ہندوؤں کے مندر ان کی وجہ سے آباد تھے برہمن تو پوجاپاٹ اور دیگر مذہبی رسومات کے لیے ہوتے تھے مگر ہندو سماج میں کھتری اور اروڑے اپنی عسکری اور کاروبای حثیت کی وجہ سے نمایاں تھے ۔ سندھ کا قدیم درالحکومت اروڑ محمد بن قاسم کے حملہ میں تباہ ہو گیا اور راجا داہر کو شکست ہوئی تو پھر کھتری اروڑے بھاری تعداد میں سندھ سے نکل کر ملتان ڈیرہ جات اور چناب کے کناروں پر آکر آباد ہو گئے یاد رہے اروڑے راجا داہر کی فوج کے ہراول دستوں میں شامل تھے اور انھوں نے مسلم فوج کی سخت مزاحمت کی تھی ۔ ملتان اور جھنگ میں اروڑے بھاری تعداد میں آباد تھے زیریں چناب کے اروڑے زیادہ تر کاشت کار تھے ۔ برہمن کھتری اروڑہ بھاٹیہ لوہانہ کایستھ سود مہاجن اگروال وغیرہ ذاتوں سے جو لوگ مسلمان ہوئے ان کو شیخ کالقب دیا گیا اور پھر ان نومسلم ذاتوں کے بہت سارے لوگوں نے اپنے آپ کو خواجہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا ۔ پنجاب میں ان کو کھوجا بھی کہا جاتا ہے پنجاب میں صاحب ثروت مسلمانوں تاجروں یا افراد کو جو ہندو دھرم سے اسلام مذہب میں کھتری اروڑہ اور دیگر اعلی ہندو ذاتوں سے آے وہ کھوجا کہلاے کبھی یہ کہاوت مشہور تھی کہ نقد پیسہ کھتری اروڑہ اور کھوجے کے پاس ہوتا تھا دوسری کوئی قوم پیسے کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی ۔ کھوجا خواجہ کا بگڑا ہوا لفظ ہے خواجہ کا سیدھا سا مطلب قابل احترام ہستی کا ہے پنجاب میں اس کا معنی تین مفہوم میں ہوتا تھا ایک خواجہ سرا کے لیے دوسرا ایسے خاکروب کے لیے جس نے اسلام قبول کر لیا اور تیسرا کسی مسلمان تاجر کے لیے اور ادھر ہم تیسرے حصہ کو زیر تحریر لا رہے ہیں ۔ کھوجا کوئی حقیقی ذات نہیں ہے اسلام قبول کرنے والا کھشتریہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ہندو تاجر اس نام سے پکارا جاتا تھا جیسے شاہ پور کے کھوجے اکثریتی کھتری ہیں اور جھنگ کے کھوجے اسلام قبول کرنے والے اروڑے ہیں جب کے لاہوری کھوجے کھتری اور بھاٹیہ ہیں انبالہ کے کھوجے کایستھ ماخذ کے دعویدار ہیں اس طرح پراچے بھی مشہور مسلمان تاجر ہیں اور ان کا صدر مقام راولپنڈی کے نزدیک مکھڈ ہے اور وہ اسلام قبول کرنے والے کھتری ہیں ۔ کھتری ہندو ذات پات کے نظام میں برہمن کے بعد اپنے آپ کو سب سے بلند اور برتر خیال کرتے تھے اور اپنے تعین کردہ نظام اور اصولوں کے تحت اپنی منتخب کردہ چند کھتری گوتوں کے علاوہ باہم ازدواج نہیں کرتے تھے مثال کے طور پر ڈھائی گھرا کھتری صرف ڈھائی گھروں کے اندر ہی شادی کرے گا چار ذاتی صرف چار ذاتوں کے اندر ہی شادی کرے گا اس طرح چھ ذاتی بارہ ذاتی اور بونجائ کھتری تھے کھتری چاراہم قبائیلی حصوں میں تقسیم تھے بنجاہی یا بونجائ شرین باہری اور کھوکھراں اور پھر اروڑے جو خود کو کھتری ماخذ سے کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اصل کھشتریہ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پرس رام کے ظلم سے وہ اپنی اصل (کھتریوں) سے الگ ہوئے تھے اروڑے تین بڑے قبائل میں تقسیم تھے اترادہی دکھنی اور ڈھیروی (داہرا یا دکھنادھائین) کھتری دو بڑے خاندانوں میں تقسیم تھے ایک سورج بنسی اور ایک سوم بنسی پہلے خاندان کو آفتاب کی نسل کہا جاتا تھا اور کہتے ہیں کہ برہما کی مرضی سے برنچہ پیدا ہوا۔اس خاندان میں سے تین شخص دنیائے بادشاہ اور ہفت اقلیم پر حملہ آور ہوئے ہیں راجا رکہ، راجا سگر، راجا کھٹوانگ، دوسرا خاندان سوم بنسی (چاند کی نسل) کہلاتا ہے۔اس خاندان کے دو بڑے بادشاہ گذرے ہیں راجا جدشٹر اور راجا سناتک، کھتریوں کے پانچ سو سے اوپر خاندان ہیں ان میں سے باون خاندان دوسرے خاندانوں سے اعلی ہیں اور بارہ خاندان نہائت اعلی اور ممتاز ہیں آج کل کے کھتری بدل چکے ہیں ان کی اکثریت اپنا موروثی فن سپاہ گری چھوڑ کر دوسرے کاروباروں میں مشغول ہو چکی ہے اور ایک جماعت صرف تلوار کا سہارا لے کر دوسرے تمام فرائض سے بے فکر ہو گئی ہے۔اس جماعت کو راجپوت کہا جاتا ہے۔پنجاب میں ہندو سماج کے ذات پات کے نظام میں کھتریوں کی پوزیشن منفرد تھی اور وہ جسمانی طور پر صحت مند اور ذہانت کے لحاظ سے دوسری تمام قوموں سے آگے تھے اور ان کا مقام صرف دوکانداری یا تجارت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ وہ اچھے جرنیل حاکم زمیندار اور سپاہی بھی تھے ان کا دعوی تھا کہ وہ اصل کھشتریہ ہیں تمام سکھ گورو کھتری تھے پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا میں شیخ زیادہ تر کھتری اور اروڑ و ں سے مسلمان ہوئے ہیں کچھ برہمن یا پنڈت گوتوں سے بھی مسلمان ہوئے ہیں اور ان کو پنڈت شیخ اور خواجہ کہا جاتا ہے یاد رہے ہندو مت میں کھتری اروڑے برہمن کایستھ سود مہاجن اگروال لوہانے وغیرہ سخت گیر ہندو تھے اور ان سے بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا اس وقت چونکہ تجارت اور معاشیات پر ان اقوام کا غلبہ تھا اس لیے انھوں نے ان نومسلموں کو اپنی ذات برادری سے خارج کر کے ان کا حقہ پانی بند کر دیا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ نو مسلم کھتری اور اروڑے تجارتی طور پر ناکام ہوں اس وقت یہ ہندو اقوام چمڑے کو ہاتھ نہ لگاتی تھیں اور چمڑے کا کام کرنے والوں کو نجس اور حقیر تصور کیا جاتا تھا ۔ مگر اس وقت حالات سے مجبور ہو کر اور وقت کی نزاکت دیکھ کر ان مسلم کھتریوں اور اروڑوں نے چمڑے اور ہڈیوں کا کام شروع کیا جو ان کو بہت راس آیا کیونکہ ان کا تمام مال باہر دساور انگلینڈ جاتا تھا۔اور ان کے ہندوستان میں بڑے کاروباری مرکز اور گودام کلکتہ پٹنہ بمبئی وغیرہ میں تھے اور تقسیم تک موجودہ خواجگان اس کاروبار پر مکمل حاوی تھے اور مالی آسودگی میں ہندو کھتریوں اروڑوں کے قریب پہنچ چکے تھے اس میں چنیوٹ چکوال رسولنگر قصور قلعہ دیدار سنگھ شرقپور ایمن آباد امرتسر ناروال ملتان گجرات گوجرانوالہ لاہور سیالکوٹ بھیرہ ہوشیار پور بھابڑہ ملتان وغیرہ کی مسلم کھتری برادریاں شامل تھیں نمایاں گوتوں میں سہگل وہرے ودھاون مگوں پسریچے ڈھنیگڑے لوٹھڑے چاولے سیٹھی ساہنی سوہنی پوری جوہر کپور رتڑے گوئندی لاکھڑے جاوے نارنگ بترے کھنے کھلر کوچر بھلے بھنڈاری آنند کھربندے دہمیجے ملہوترے پھپھیرے پاسی چوپڑے سنگھوٹئے سننیئے لاکھے مہرہ مروترے مکھجے اکالی انگی اوتر ریتے اوٹھیرے ادھلیکھی امیرئے اندھ نانی خدا بندے سدہانے مونگے کٹارئے ببر بلبل مدان نرولے گابے گریجے ہنس ٹنڈن ککڑیجے بتے رتڑے نگپال ناگ نائر سچدیو چاننے چھوکرے دھیڑ ڈگریجے گورداڑے بھراڑہ منوں چھرے آنول تلوار چاندنہ کھتوریا چانولہ بٹلہ باڑی بیدی مہندی رتے جلانے بتونے ٹوپے چھابڑہ ست گھرے سروانے کالئے آہلو والیے پائ والے چڈھے لوبنے لامبے دگل اپل ملک مہتے سوڈھی کھوسلے بجاج سکہ سوری ریوڑی ساہنسن سرین نندہ سود بترے آہوجے اوبراے بلوجے پروتھے پوپلے تنحجے تکڑ ٹھکرال جھانبہ چگھ دھون دوے دھوجے سلوجے شیکری کالڑے کن توڑ ککڑیجے کھٹر کھر تتے کھورانے کھنڈ پورئے کھیتر پال گاندھی گوگلانی گکھڑ گہولاٹی گوریجے کمار مانگ ٹھلے مکڑ منگلانی منوچے نرولے ورمانی اتھریجے اجمانے اسیجے انیجے اسرانی اوکھلے بانگے بگے بریجے بے راجے بٹھالے بلے بوٹی بھوٹیانی بہو دھانی بھگتانی بہو بھوٹانی سیٹھ بھڈانی باویجے پراچے بھوڈی پھوجے پنج ندے پنیجے پڈمبے پنج منے پونچھی پپلانے پنج نندے پورنے پلپیچے پاہوے تنیجے تانگڑے ترونی تہری تتلانی تلوجے تریکے تھریجے ٹھکر ٹویجے ٹھکرال ٹھٹیھے ٹھٹانی جیگے جلاے جنڈ دانی جاکن جسوجے جانجی خیل جوکھادنے جونیجے چولڑے جے سنگھنی جوکھنیجے چلاے چگتی چراے پوترے چت کارئے چلانے چچڑی چولڑے چوچرے چوٹیار چوٹ مرادئے چوٹی بٹ چوٹیانی چراے چھوڈے درگن داوڑے دومڑے درجے دابڑے دھنگانے دھوڑئے دھرے بڑے دھر مرے دھادنے دھوڑئے ڈڈی ڈنگ ڈاہے ڈانگری ڈڈیجے ڈوڈے ڈانڈے

دسوال دوپے ڈگریجے رہیجے دکھیجے رسیوٹ رنگ بوہلے رام گڑھیے راجانی راجاوے رکھاے ریلن ریلی راول ریہانے راجپال سندھورے سگائ سٹھ کھیرے سپڑے سندھوجے سدھانے سوکھیجے سونی شکر سودھے سڈانے سدھ وانی کستورے کھتورے قندھاری کمبیرے کواٹرے کتیرے کنسڑے ککرانی کرنے کبے کل پلیچے ککڑ کمرے کھاری کھرباٹ کھر سیجی کھنگر کرڑ کاٹھ پال کھکھران کھیڑے گھمبیر گبرانی گگے گنگنیجے گنڈ گلانی گدڑ گل بھدر گلکانی گگ دانی گگلانی گوٹ گلاری گگریجے گیرے گوگئی گوگئے گونمر گمبر گوڑ گھیگ گوری گھیے گھیڑ لکڑے لیکھے لنگیاے للے لنگیاے لوٹے لوپال مکانی منگوانے مچھر ماون پوترے مڈھے میڈ مٹھرے مرگ موٹنیجے ماکھلے منڈے مرادئے مجال موگلے مو لی دارے مو ہیال مو کھیجے مرکن نانگئی نانگے نچانے نگرانے نند دانے ببلے ایڈوانی متل دکیچے وترانے ودیانی دہیو کھادنے وکیچے ویڈ ہنیجے ھفرتی ہوڑے گاڈی گور چڈھے مکانی مکرنے موگلے ناسوا نچانے وڈھیرے ہندوجے ہوڑے ہرنیجے وغیرہ تھے ہندوؤں میں ان کو لالہ راے اور دیوان کہہ کر پکارا جاتا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ خواجہ یا میاں کہا جاتا تھا ۔ قانگو شیخ بھی خواجہ شیخ ہی ہیں ان کی اصل یہ ہے کہ بادشاہی دور میں وہ حکومتی محکمہ جات میں ملازم تھے اور وہاں سے ان کو قانگو کہا جانے لگا کایستھ لوگ زیادہ تر سرکاری دفاتر ہی میں ملازم تھے۔خواجہ شیخ برادری یا انفرادی لوگوں کی ایک صفت تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے وہ محنت سے ہی اپنا رزق کماتے تھے اور اپنی محنت کی بدولت ہی معمولی خوانچہ فروش خواجہ شیخ بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالک بن گئے سنیکڑوں مثالیں ہیں امرتسری خواجگان کاروبار میں بہت تیز تھے اور مثال مشہور ہے کہ امرتسر کے ہندو اور سکھ تجار بھی ان سے خم کھاتے تھے میمن اور لوہانے بھی خواجہ شیخ ہی ہیں کسی وقت پاکستان کے بائیس امیر ترین خاندانوں میں اکثریت ان کی ہی تھی گذرے وقت میں چنیوٹ کے خواجگان زرعی اراضی کے مالکان اور خود کاشت کار بھی تھے پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں جب ذو الفقار علی بھٹو نے پاکستان کی انڈسٹری کو سرکاری تحویل میں لیا تھا تو پاکستان کی خواجہ شیخ برادری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کے بعد ان کے بڑے کاروبار اور فیکٹریاں ادھر بنگلہ دیش ہی میں رہ گئی تھیں تقسیم ہندوستان سے قبل موجودہ ہندوستانی مغربی بنگال میں خواجگان کا وسیع کاروبار تھا موجودہ وقت میں خواجہ شیخ برادری تجارت کے علاوہ بھی زندگی کے دیگر شعبہ جات میں آگے بڑھ رہی ہے سول سروس فوج طب اور قانون اور عدلیہ میں ان کی کافی تعداد ہے قانگو خواجہ برادری میں سے کئی نامور قانون دان تھے موجودہ وقت میں کشمیری سندھی بلوچی سرحدی اور پنجابی خواجگان کا آپس میں اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور خواجہ شیخ برادری کی نوجوان نسل کو سب سے زیادہ جدید تعلیم کی ضرورت ہے اور تعلیم کی بدولت ہی وہ سول سروس اور دیگر شعبہ جات میں کامیابیاں حاصل کر سکیں ( خواجہ شیخ برادری برہمن کھتری اروڑہ بھاٹیہ لوہانہ کایستھ سود مہاجن اگروال وغیرہ ذاتوں سے جو لوگ مسلمان ہوئے وہ ہے اس میں کشمیری خاندان بھی ہیں خاص کر پنڈت جو مسلمان ہو کر شیخ کہلاے ممین اور چند ایک دیگر برادریاں بھی کھتری ماخذ رکھتی ہیں جو بھارتی گجرات کاٹھیا وار میں تھیں اور چونکہ کھتری ہی اصل کھشتریہ ہیں اور راجپوت دور سے قبل کا ہزاروں سال دور کھتریوں کا تھا اور اس بہت سی راجپوت گوتوں کا نکاس کھتریوں سے ہی ہے موجودہ وقت میں شیخ قریشی شیخ صدیقی شیخ ڈھولیے قصاب شیخ ہاشمی شیخ وغیرہ کا خواجہ شیخ برادری سے کوئی تعلق نہ ہے ) تاریخ کے گمشدہ اوراق از ( عزیز علی شیخ)

قانون گوہ شیخ

قانون گوہ شیوخ پنجاب کے تمام اضلاع میں آباد ہیں۔ ان کے مختلف خاندان ہیں، ان کے آبا واجداد مسلم دور حکومت میں قانونی منصب دار تھے اس لیے یہ قانون گو کے نام سے معروف ہوئے۔

صدیقی اور قریشی شیخ

صدیقی اور قریشی بھی شیوخ ہیں جو پنجاب میں آباد ہیں۔ یہ قبیلے بھارت کے شمالی علاقوں اترپردیش، ہریانہ، بہار اور مغربی بنگال میں بھی آباد ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہوتی ہے، البتہ بعض خاندان پنجابی زبان بھی بولتے ہیں۔

کشمیری شیخ

شاعر مشرق علامہ اقبال

کشمیری شیخ ایک برادری ہے جو کشمیر اور پنجاب کے متفرق اضلاع میں آباد ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے درمیان اس برادری نے کشمیر سے ہجرت کی تھی۔ علامہ اقبال کا تعلق اسی برادری سے تھا، ان کے دادا شیخ رفیق نے انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے سیالکوٹ ہجرت کی تھی۔

اس قبیلہ کے بعض معروف افراد کے نام درج ذیل ہیں:

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Denzil Ibbetson، ایڈورڈ ڈگلس میکلاگن، ایچ۔ اے۔ روز، " A Glossary of The Tribes & Casts of The Punjab & North West Frontier Province"، 1911، صفحہ 502 جلد II
  2. Wendy Doniger, tr۔ "منو کا قانون", (پینگیوئن بکس، 1991 ) آیات 43-44، باب 10۔
  3. اے ایل باشام " The Wonder That Was India", ( Sidgwick & Jackson, 1967)
  4. ڈی۔ Ibbetson, E.MacLagan، ایچ۔ اے۔ روز، صفحہ 58، جلد I
  5. ابو الفضل، "آئین اکبری"، مترجم H.Blocmann & H.S. Jarrett، (کولکتہ، 1873–94) 3 جلدیں۔، a gazetteer of the Mughal Empire compiled in 1590 AD۔
  6. D. Ibbetson, E.MacLagan، ایچ۔ اے۔ روز، صفحہ 513–514 جلد II

بیرونی روابط