پنڈاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دیہاتی پنڈاریوں سے بچنے کے لیے خود کو جلاتے ہوئے، 1815ء

پِنڈاری یا مفت کے ساتھی ((مراٹھی: पेंढारी)‏ ؛ ہندی: piṇḍārī, पिण्डारी / पिंडारी) ان مسلمان گھڑ سواروں کو کہا جاتا تھا جو مغل فوجیوں سے بھڑ کر انھیں مراٹھا حکمرانوں کے لیے قید کرتے تھے۔ یہ ان فوجوں کا اہم حصہ تھے اور اٹھارویں صدی میں غارت گری کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔[1] یہ لوگ سبھی مراٹھا زیر نگین علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ انھیں مراٹھا سرداروں کی حوصلہ افزائی اور تحفظ حاصل تھا جن کی فوجوں کے لیے یہ لوگ ساز و سامان کی سربراہی کا کام کرتے تھے۔[2] یہ لوگ کئی مسلمان قبائل پر مشتمل تھے جن کا واحد مقصد لوٹ مار اور غارت گری تھا۔[2] یہ لوگ اٹھارہویں صدی میں سامنے آئے جب مغلیہ سلطنت بکھر رہی تھی اور مرہٹے بیشتر ہندوستان پر قابض تھے۔[2] پنڈاری لوگ خود کے منتخب سردار کے ساتھ منطم تھے اور ہر گروہ کسی نہ کسی مراٹھا سردار سے جڑا تھا۔ اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ لوگ بلا معاوضہ کام کرتے تھے۔ تاہم خدمات کے صلے میں انھیں لوٹ مار اور غارت گری کا اختیار حاصل تھا۔[2]

تعارف[ترمیم]

اٹھاویں صدی کا آخری چوتھائی ہندوستان کے لوگوں کے لیے بڑی مصیبت کا سامان لے کر آئی تھی ۔ مرہٹوں کی طاقت اپنے عروج پر تھی ، نادرشاہ کا حملہ اور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کے حملے اور جاٹوں اور سکھوں مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں تھیں ۔ پورے برصغیر میں انتشار کی حالت تھی اور اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر بہت سے طالع آزما میدان میں نکل آئے تھے ۔ اس انتشار کا سب زیادہ فائدہ انگریزوں کو ہوا اور انھیں اپنی طاقت بڑھانے کا موقع ملا ۔ اس انتشار میں جو قوتیں لوٹ مار کے لیے میدان میں اتریں ان میں ایک پنڈاری بھی تھے ۔ ہم پنڈاریوں جو خوف و دہشت کی علامت تھے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ عام لوگوں کو چھوڑیں پڑھے لکھے افراد بھی ان کے بارے میں کم جانتے ہیں ۔ اگر جانتے ہیں تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ لوٹا ماری کے لیے تباہی اور بربادی پھیلاتے تھے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے بارے مقامی مورخین نے خود فراموشی کی حد تک کم لکھا ہے ۔ بس ایک آدھ لائین یا چند جملوں سے زیادہ نہیں لکھا ہے ۔ اردو کا ایک ناول پنڈاری ہے جو پنڈاریوں کے پس منظر میں قمر اجنالوی نے لکھا ہے مگر اس میں بھی پنڈاریوں کی صحیح تصویر پیش نہیں کی گئی ہے ۔ اگر پنڈاریوں کے بارے میں کچھ لکھا گیا ہے تو انگریز مورخین نے لکھا ہے ۔ انھوں نے ہی ہمارے سامنے ان کے ظلم و ستم اور لوٹا ماری کی صحیح تصویر پیش کی ہے ۔ ان ظلم و ستم کی صحیح تصویر امیر علی ٹھگ میں پیش کی گئی ہے ۔

پنڈاری[ترمیم]

اگرچہ پنڈاری بہت پہلے سے میدان میں اترے چکے تھے مگر ان کو عروج ان کو عروج اٹھارویں صدی کے آخر میں حاصل ہوا ۔ کیوں کہ یہ ابتدا میں انھیں اپنے دشمنوں کے علاقوں میں تباہی مچانے کے لیے ان کی تنظیم کی تھی اور جب تک یہ مرہٹہ رہاستوں کے زیر اثر رہے ان ظلم و ستم محدود رہا ۔ لیکن اٹھاریں صدی عیسویں میں یہ مرہٹوں جبر سے آزاد ہو گئے تو ان کی تباہی کا دائرہ پھیل گیا اور یہ دہشت و خوف کی علامت بن گئے ۔ ان کا عروج اگرچہ بہت مختصر عرصہ کے لیے حاصل ہوا تھا اور زیادہ تر وسط ہندوستان ان کا شکار ہوا اور وہاں انھوں نے تباہی اور بربادی مچادی تھی ۔

اگرچہ پنڈاریوں کے مختلف گروہوں میں مستقیم تھے مگر ان میں اپنے مفادات کے پیش نظر ایک وقتی اتحاد قائم ہوجات تھا ۔ تاہم یہ اتحاد قوم وطنیت کی بنا پر نہیں بلکہ مشترکہ ارادہ و نیت اس کی بنیاد تھا ۔ کیوں کہ ان میں ہر علاقہ ، قوم اور مذہب کے لوگ شامل ہوتے تھے ۔ یہی وجہ ہے ان میں مذہبی تعصب بالکل نہیں تھا اور انھیں اپنی سپاہیانہ قابلیت سے ان کے اپنے خاندان یا وطن پر کبھی ناز یا فخر نہ ہوا ۔ کیوں کہ یہ وطنی یا مذہبی رشتہ رشتہ میں مربوط نہ تھے ۔ ایسا رشتہ جو ہندستان کی بہت سی اقوام میں ناقابل شکست صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے جب پنڈاریوں کا استیصال کیا گیا تو ایک آواز بھی ان کے حق میں بلند نہیں ہوئی اور جلد ہی ان کا نام تقریبا فراموش ہو گیا ۔ حالانکہ ان کے نام سے سارے ہندوستان میں خوف اور دہشت طاری تھا ۔

پنڈایوں کو ابتدائی مرہٹوں سے نسبت دی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ دونوں کی عادات و خصائل اور کیرکٹر یکساں تھے ۔ لیکن ان دونوں میں کچھ اختلاف بھی تھا ۔ شواجی اور اس کے وابستگان میں مذہبی رسم و رواج اور قومیت کے رشتوں سے اتحاد قائم تھا اور اس سے ان کے لیے جوش و ہمدردی پیدا ہوئی ۔ مرہٹہ حکومت کے خلاف لشکر کشی میں محض لوٹ مار کی محبت میں شامل نہیں ہوئے تھے ۔ بلکہ ان کے دل میں مادر وطن اور آبا و اجداد کی محبت بھی شامل تھی اور ان کو اپنے احکام و عمال سے نفرت تھی جس کی وجہ سے ان میں ایک اتحاد پیدا کر دیا تھا ۔

پنڈاریوں کی تباہی اور بربادی کو تاتاریوں سے نسبت دی جاتی ہے ۔ جب وہ کسی ذرخیز علاقہ میں پہنچتے تو وہ ٹڈی دل کی طرح علاقہ میں پھیل جاتے اور لوگوں کو لوٹ کر تباہ و برباد ڈالتے اور مال دولت کے حصول کے لیے لوگوں پر تشدد سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ وہ کسی مقبوضہ علاقہ میں نہ سکونت اختیار کرنے اور نہ ہی وہاں آرام پانے کی خواہش کرتے تھے اور انھیں اس کے وسائل بھی میسر نہیں تھے ۔ ان کے سرداروں کو اگرچہ کچھ املاک بطور جاگیر کے مل گئیں تھیں یا انھوں نے غصب کرلی تھیں ، لیکن ان جاگیروں کی آمدنی سے ان کی تعداد کے دسویں حصہ کے ہی گزارہ ہو سکتا تھا ۔ اس لیے وہ صرف لوٹ مار پر گذر کرتے تھے ۔ پنڈاری اگرچہ وہ ہندو ریاستوں کے زیر اثر رہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنڈاریوں کو مرہٹے وسط ہند میں لائے جو یہیں آباد ہو گئے ۔ حیرت انگریز بات یہ پنڈاریوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس رہی ہے ۔ دوسری عجیب بات یہ ان کے سرادروں کے زیادہ تر نام اکثر ہندوانہ تھے ۔ اگرچہ وہ مسلمان ہوتے تھے ۔

پنڈاریوں کی سرپرستی مرہٹہ ریاتوں نے کی ۔ ان کو ساتھ رکھنے کا مقصد نہایت بے دردی کے ساتھ غیر محفوظ صوبوں کو تباہ و برباد کرنے کام لیا جانا تھا ۔ اس مقصد کے لیے پنڈاری دیگر افواج سے پہلے آگے روانہ کردئے جاتے تھے ۔ ان کا کام جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ لوٹ مار کی خدمت ان کے سپرد تھی اور اسی سے ان کا گزارہ ہوتا تھا ۔ اس لیے پنڈاریوں کا نام کبھی ایک بہادر جماعت کی حثیت سے نہیں آیا ہے ۔ البتہ ان کے مظالم میں وہ تمام مثالیں ملتی ہیں جو اکثر خونخوار قزاقوں کی داستان میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ مرہٹوں کے مہتر ہونے کی حثیت سے نہایت ذلیل اور حقیر سمجھے جاتے تھے ۔ اس لیے ابتدا ہی سے ان کے عادات اور کیرکڑ نے ایسی شکل اختیار کرلی جو اس کام کے لیے نہایت موزوں تھا جو انھیں انجام دینا ہوتا تھا ۔ بیشک ان کے سرداروں اور بہت سے ہمراہیوں میں اولولعزمی اور دلیری کے اوصاف اکثر پائے جاتے تھے ۔ لیکن فتح و شکست کے موقع پر ان میں سے کسی شخص نے اپنی کوئی شریفانہ خصلت ظاہر نہ کی ۔ یہ بات حیرت انگریز ہے کہ ان لٹیروں میں سے کبھی کسی فرد نے بھی ناموری حاصل کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہوا ۔ البتہ جہالت و ذلالت ، سفاکی اور شفاوت قلبی میں ضرور حصہ لیا اور بحثیت ایک جماعت کہ یہ لوگ اپنے انھیں اوصاف کے باعث زیادہ مشہور تھے ۔ ایسی جماعت کی داستانوں میں سوائے ان باتوں کے اور توقع ہی کیا کی جا سکتی ہے ۔

پنڈاریوں کا تعلق بھی مرہٹہ علاقہ سے تھا اور وہ کثیر تعداد میں تھے ۔ مگر اس کے باوجود ان میں سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ ان میں اتحاد نہیں تھا ۔ اگرچہ ان کی تنظیم میں بیحد وسعت تھی مگر کسی مشترکہ غرض کی وجود سے کچھ عرصہ کے لیے ان میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا تھا ۔ ان کے پڑاوَ آوارہ گرد اشور بے کار لوگوں کو اپنی جانب رجوع کرنے کے لیے مرکز کا کام دیتے تھے ۔ یہاں ان لوگوں کی بڑی تعداد پنڈاریوں کے گروہ میں شامل ہونے کے لیے موجود رہتی تھی ۔ ان کثیر تعداد کی وجہ سے ان کے سرداروں نے اپنے عروج کے لیے یا دوسروں کو تباہ و برباد کرنے کے استعمال کیا ۔

اٹھارویں صدی کی آخری دہائی اور انیسویں صدی کی پہلی دہائی یعنی بیس سالوں میں وسط ہند میں پنڈاریوں کے عروج کا زمانہ تھا ۔ ان کی تعداد کا اندازہ ہر قسم کے بیس سے تیس ہزار سوار کیا گیا ہے ۔ لیکن ان کی صحیح تعداد کا قطعی اندزا لگانا قطعی ممکن نہیں ہے ۔ کیوں کہ ان کی تعداد میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ ان کی ہر کامیابی ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب اور ناکامی کمی کا موجب ہوتی تھی ۔ ایسے افراد جو جو عادات و خصائل اور حالت کی یکسانی کی بدولت ہر ایسے سردار سے جاملتے جو کسی فرمانروا کے یہاں ملازم رہ چکا ہے ۔ لیکن اس فرمان روا کی کمزوری یا ظلم دیکھ کر وہ اس کی اطاعت سے سرکشی اختیار کرنا چاہتا ہے اور وہ ڈاکو بن جانے کا خواہاں ہوتا ۔

خیال رہے کہ پنڈایوں کی تعداد میں اضافہ ان وجوہات کی بنا پر بھی تھا جو خود انھوں نے پیدا کردی تھیں ۔ کیوں کہ ان کی لوٹ مار کے حملوں کی توسیع سے لوگوں کی جائدادیں غیر محفوظ ہو گئی تھیں اور ان کی لوٹ کھسوٹ سے جو لوگ تباہ ہوئے ۔ انھوں نے مجبور و معذور ہوکر ظلم و ستم ڈھانے پر کمر باندھ لی اور پنڈاریوں میں شامل ہو گئے ۔ چونکہ اب لوگوں کے لیے معاش کا صرف یہی ایک ذریعہ باقی رہ گیا تھا ۔ وہ بھی اس لہر میں جاملے جس کا مقابلہ وہ نہیں کرسکتے تھے اور دوسروں کو لوٹ کر اپنے نقصانات کی تلافی کرنی چاہی ۔ ان حالات کے باعث پنڈاریوں کی تعداد کے متعلق سب تخمینے غلط ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ ہندوستان کی جنگی آبادی کے آوارہ گرد حصے سے اس طرح مل گئے تھے کہ وہ ایک نظام نہ کہ کوئی خاص قوت بن گئے جس ے شکست کرنا مطلوب تھا ۔

پنڈاریوں کے لوٹ مار کے حملوں کی مدافعت کا انتظام یا ان کے سرداروں پر حملے کرنا دونوں تدبیزیں اس خرابی کے انسداد کے لیے یکساں بے سود اور بے اثر ثابت ہوئیں ۔ کیوں یہ ایک ایسے شیش ناگ کی طرح تھے جس کا ایک سر کچل دیا جاتا ہے تو اس دوسرا سر پیدا ہوجاتا تھا اور جن ریاستوں نے ان کو دبانے کی کوشش کی ان کے وسائل ایک ایسے دشمن کے مقابلے کے لیے فضول ضائع کیے گئے جن کو اپنی کامیابی سے ہر بات کی توقع تھی اور شکست کھانے پر ان کی حالت چنداں مخدوش نہ ہوتی تھی ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ان لٹیروں کے طرز جنگ کو بیان کرتے ہیں ۔

پنڈاری جب کسی لوٹ مار کی مہم پر روانہ ہوتے تھے تو وہ کسی ایک یا چند چیدہ سرداروں کے ماتحت ہو جاتے تھے ۔ جنہیں لبیریا کہتے تھے ۔ لبیریا جو منتخب ہوتا تھا اس کا رتبہ وڑا یا پنڈاری کمپ میں صف اول یا راجپوتوں کی اول صف کے سردار سے مشابہت رکھتا تھا ۔ جب کسی مہم کا تہیہ کر لیا جاتا تو لبیریا کا مع اپنے جھنڈے کے چلنا کوچ کی علامت ہوتا تھا ۔ لبیریا ہمیشہ اپنی ذہانت اور مستعدی کے لیے مشہور تھے ۔ اسے اپنی اس معلومات اور فہم فراست کے باعث منتخب کیا جاتا تھا جس پر حملہ کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ ہر پنڈاری سوار اپنے کھانے کے لیے چند روٹیاں اور گھوڑے کے لیے تھوڑا سا دانہ اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور اس کے پاس خیمے یا کوئی سامان سفر نہیں ہوتا تھا ۔ ہر جماعت میں عموماً دو یا تین ہزار سوار ہوتے تھے ۔ وہ چالیس یا پچاس میل روزانہ کے حساب سے تیز رفتاری سے روانہ ہوتی اور کوئی سوار دائیں یا بائیں مڑ کر نہ دیکھتا تھا ۔ حتیٰ کہ وہ منزل مقصود پر جاپہنچتے تھے اور پھر ٹولیوں میں مستقیم ہوکر مویشیوں اور مال و اسباب کا صفایا کرتے اور جس چیز کو اپنے ساتھ لے نہ جا سکتے اسے تباہ و برباد کر ڈالتے تھے ۔ وہ چپکے سے اچانک حملہ کر دیتے تھے تاکہ محافظ سپاہ کی گرفت سے بچے رہیں اور کسی فوج کی آمد سے بشتر ہی وہ واپس لوٹ جاتے تھے ۔ انھیں اپنی نقل و حرکت کی پھرتی وجہ سے یہ قوت یہ حاصل ہو گئی تھی کہ وہ کسی کی گرفت میں نہیں آتے تھے ۔ اگر ان کا تعاقب کیا جاتا تو وہ نہایت طویل کوچ کرتے (بعض وقت ساٹھ میل سے بھی زیادہ) اور ایسے راستوں سے جاتے جن پر کسی باقیدہ فوج کا سفر کرنا قطعی ناممکن ہے ۔ اگر تعاقب کرنے والے ان تک پہنچ بھی جاتے تو وہ منتشر ہوجاتے اور کسی ایک مقررہ مقام پر پھر جمع ہوجاتے تھے ۔ یہ بھی ہوتا تھا اگر ان کا پیچھا کیا جاتا تو وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوجاتے تھے ۔ ان کی دولت ، مال غنیمت اور اہل و عیال ایک نہایت وسیع دشوار گزار علاقہ میں پھیلے ہوئے تھے جہاں رسائی آسان نہیں تھی ۔ جس میں کہ انھیں پناہ ملتی تھی اور یہ مقامات پہاڑوں یا قلعہ جات میں تھے ۔ جن کہ مالک یا تو وہ خود تھے یا ان روسا کی ملکیت تھے جن کے ساتھ ان کے خفیہ یا علانیہ تعلقات تھے ۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آسانی سے ان پر حملہ ہو سکتا تھا اور کسی حملہ کی صورت میں ایک جماعت کی شکست یا ان کی ایک چھاوَنی کی بربادی یا ان کی چند گڑھیوں پر عارضی قبضہ کرلینا ایک ڈاکو کو نیست و نابود کرنے سے زیادہ کچھ اثر کرتا تھا ۔ جس کی جگہ اس سے زیادہ نڈر اور من چلا ڈاکو پر کر دیتا تھا ۔

پنڈاری کمزور اور زوال پزیر ریاستوں کی خرابیوں کی بدولت جانور کے سڑے ہوئے گوشت میں کیڑے کی مانند پیدا ہو گئے تھے ۔ خوش قسمتی سے ان میں کوئی اتحاد نہ تھا جو ان لوگوں کو مربوط اور متحد کر دیتا ۔ ان کا آپس میں نہ مذہبی تعلق تھا اور قومی خیالات تھے ۔ ان میں ہر ایک علاقہ اور مذہب کے لوگ شامل تھے ۔ یہ لوگ جو مایوسی اور مصیبت کے باعث مجتمع نہیں ہوتے تھے بلکہ ہندوستان کی اصلی حالت کو دیکھ کر انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس وقت ڈاکو جیسی زندگی بسر کرنے میں خطرہ کم اور نفع زیادہ ہے ۔ اس قسم کی جماعت البتہ اس وقت ہیبت ناک تصور ہو سکتی تھی جس کہ وہ کسی مضطرب جماعت کا جزو سمجھی جاتی ہو ، جس کے ہر ایک شعبے سے تعلق ہوتا ہو ۔ ان کی مثال مہلک متعدء بیماری جیسی تھی ۔ جس نے یہاں تک اہمیت حاصل کرلی تھی کہ اس بات کا امکان پیدا ہو گیا تھا کہ وسط ہند میں جو تھوڑی بہت حکومت باقی رہ گئی ہیں یہ لوگ جلد اس پر فتح یاب ہوجائیں گے اور ان کی جماعت وسط ہند میں عظیم انشان جنگی مظہر بن جائے گی ۔

تاریخ[ترمیم]

برصغیر کی تاریخ میں کلمہ پنڈاری پہلے پہل1689 ء میں سننے میں آیا تھا ۔ جب کہ انھوں نے گمنام ڈاکووَں سے ترقی کرکے اس قدر اہمیت حاصل کرلی تھی کہ مختلف مرہٹہ حکمرانوں نے انھیں اپنی تارخت کے لیے نہایت کار آمد تصور کر لیا تھا ۔ مرہٹوں کی نبردآزمائی کا غیر منظم طریقہ پنڈاریوں کی لوٹ مار کے خصائل کے لیے نہایت موزوں تھا ۔ مرہٹوں نے اکثر پنڈاریوں کو زمینیں دے کر یا ان علاقوں پر جن پر یہ قابض ہو گئے تھے اور ان کے قبضہ کے حق کو زبانی تسلیم کر لیا جاتا تھا ۔ مرہٹہ فوج کو خود لوٹ مار کی اجازت تھی اور پنڈاریوں کو اس سے زیادہ لوٹ مار کی اجازت دے کر ان کی مدد حاصل کی گئی ۔ رفتہ رفتہ اس نظام کے تحت پنڈاریوں نے مستقل شکل اختیار کرلی تھی ۔ ان کے سرداروں کو اپنے ساتھیوں سے خدمت لینے کا موروثی حق حاصل ہو گیا تھا جو ان کی اولاد میں منتقل ہوتا گیا ۔ پنڈاری کہلانے کی مختلف روایات ہیں ۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا نام ان کی شراب خوری کی عادت کی وجہ سے پڑا ۔ کیوں کہ یہ لوگ اکثر شراب فروخت کرنے والے کی دکان پر جو پنڈ کہلاتی تھی پڑے رہتے تھے ۔

پنڈاریوں کا پہلا سردار غازی الدین بتایا جاتا ہے ۔ یہ ایک شخص چیکن کا بیٹا تھا جو شواجی کا بیلدار تھا اور چیکن کا باپ نرسو بھی اسی عہدے پر مامور تھا ۔ وہ تورائی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ یہ باجی راوَ اول کے یہاں ملازم تھا اور اجین کے مقام پر ایک فوجی دستے میں ملازم تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا ۔ اس دو بیٹے گری خان اور شہباز خان تھے ۔ بڑا بیٹا اگرچہ سولہ سال کا تھا مگر باپ کا جانشین ہوا اور ایک جماعت کا کمان دار ہو گیا جو لوٹ مار کی مہم پر روانہ کی گئی جو نہایت کامیاب رہی ، ملہار راوَ ان کی کامیابی سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اس جماعت کے سردار کو ایک زرین چھنڈا عطا کیا ۔ جس کی بدولت اس نے اپنے ہمراہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور اس اعزاز کی بدولت انھیں مرہٹہ کمپ میں خاص اہمیت ہو گئی تھی ۔ اس وجہ سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ ملہار راوَ ہلکر نے سواروں کی جماعت کو پہلے پہل داخل کیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے آدمی فوج سے بالکل علحیدہ خیمہ زن ہوتے تھے اور یہ بڑے شاطر ڈاکو تھے اور گری خان اپنے قبیلے کے نام سے تورائی کہلاتا تھا ۔ بعد میں پنڈاری ہر معزز شخص کو تورائی کہنے لگے اور ساتھی پنڈاری کہلانے لگے ۔

ملہار راوَ نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو گری خان اس کے ساتھ گیا اور اسی کے ساتھ رہا ۔ جن قزاقوں کا وہ سالار تھا اور اس کے کارنامے مرہٹوں کی کار گزاریوں میں شامل ہیں ۔ لیکن ان کے مظالم مرہٹوں کے ظلم و ستم سے زیادہ ہوتے تھے ۔ کیوں کہ لوٹ مار ہی ان کی بسر اوقات کا وسیلہ تھی ۔ گروی خان کے مرنے کے بعد اس کا فرزند لعل محمد پنڈاریوں کا سردار بنا ۔ لعل محمد کا جانشین اس کا بیٹا امام بخش ہوا ۔ امام بخش کے دور میں بہت سے پنڈاری سرداروں نے اپنی آزادنہ کمان قائم کرلی ۔ ان میں قادر بخش ، ٹکو خان اور بہادر خان زیادہ معروف ہیں ۔ انھوں نے بعد میں کمپنی بہادر کے آگے ہتھیار ڈالدیے اور انھیں گزارے کے لیے تھوڑی بہت اراضی دے دی گئی تھی ۔

ان پنڈاری سرداروں کے لٹیروں کی تعداد تین یا چار ہزار سے زیادہ نہیں تھی اور یہ آخر تک ہلکر شاہی کے مطیع اور فرمان بردار رہے ۔ ملہار راوَ اور تکاجی ہلکر کے زمانے میں پندٓاری جب مرہٹوں کے کسی علاقہ میں پہنچتے تو تو علحیدہ خیمہ زن ہوتے تھے اور انھیں لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔ البتہ انھیں معمولی سا الائنس ضرور دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ٹٹووں اور بیلوں سے غلہ چارہ لکڑی لاد کے لے جاتے تھے یہ ان کی گذر بسر کا ایک ذریعہ تھا ۔ انھیں دشمن کے علاقہ میں داخل ہونے کے بعد لوٹ مار کی اجازت دے دی جاتی تھی مگر ان کا یومینہ الانس بند ہوجاتا تھا اور حملہ کے اختتام سے تک ان لٹیروں پر کسی قسم روک ٹوک نہیں ہوتی تھی اور حملہ کے اختتام پر مرہٹہ کمان دار اگر طاقت ور ہوتا تو عموماً ان کے سرداروں کو گرفتار کرلیتا اور ان کے کیمپ کا محاصرہ کرکے مال غنیمت کا بشتر حصہ ان سے چھین لیتا ۔ مرہٹہ سردارں کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے پنڈاری سرداروں نے اپنے جور ستم میں اضافہ کر دیا تھا کہ وہ اپنے آقاءوں کی متوقع لوٹ کھسوٹ کو براشت کرسکیں ۔

جسونت راوَ ہلکر کے پاگل ہونے تک جو پنڈاری سردار اس ریاست میں ملازم تھے ان کی مناسب حثیت برقرار رہی ۔ وہ اگرچہ بڑے بڑے گروہوں کے کمان دار تھے لیکن انھیں راجا کے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ جسونت راوَ نے مرہٹوں کے پنجاب پر حملے سے قبل دولت راوَ سندھیا سے ملاقات کی تو اسنے پنڈاری سرداروں کی حوصلہ افزائی ، براہ راست بات چیت اور انھیں خطابات اور جاگیرات عطا کرنے پر نکتہ چینی کی کہ وہ اس طرح کے اعزاز کے مستحق نہیں ہیں ۔

ریاست ہلکر کا جسونت راوَ پنڈاریوں کی برتی ہوئی طاقت کے خطرے سے بخوبی آگا تھا ۔ اس نے اس استیصال کا سوچا تھا ۔ مگر اس کے پاگل ہونے کے بعد منا بائی اور دیگر لوگوں نے جو اس ریاست کے حکمران ہوئے پنڈاریوں کی قوت بڑھانے کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی ۔ اس لیے ہلکر شاہی حکومت میں پنڈاریوں کے سرداروں کی اہمیت بڑھ گئی اور ان کی عزت و توقیر بڑھ گئی اور انھیں اور ان کے ساتھیوں کو جاگیریں دی گئیں ۔

غازی الدین پنڈاری جس پہلے ذکر ہو چکا ہے کا چھوٹا بیٹا شہباز خان جوان ہوا تو اس نے رانوجی سندھیا کے یہاں نوکری کرلی ۔ جس نے اس پر نوازش کیں اور شہباز خاں رانوجی کے ساتھ ہندوستان گیا اور وہ ٹونک میں ایک لڑائی میں مارا گیا ۔ اس نے دو بیٹے ہیرا اور برن دو چھوڑے تھے ۔ ان دونوں نے مادھوجی سندھیا کی فوج میں بحثیت پنڈاری سردار شہرت حاصل کی اور مرہٹہ فوج کے ہمراہ وہ ہندوستان گئے تھے ۔

بعد میں وہ بیرسیہ کے قریب مع پانچ ہزار ہمراہیوں کے خیمہ زن ہوئے تو انھوں نے ریاست بھوپال کو اپنی خدمات پیش کیں ۔ تاکہ نواب بھوپال اجازت سے وہ ریاست ناگپور کے علاقوں لوٹ مار کرسکیں جس سے اس وقت بھوپال کی لڑائی چھڑی ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ چھٹا خان کے انتقال کے بعد پیش آیا تھا جب کہ راجا ہمت راوَ برائے نام دیوان ریاست تھا ۔ ان لٹیروں کی یہ درخواست بنظر احتیاط (جو سندھیا کہ حمایتی خیال کیے جاتے تھے) منظور نہ کی گئی تو وہ ناگپور چلے گئے ۔ جہاں رگھوجی بھونسلا نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور اس راجا نے انھیں پہلا حکم دیا کہ وہ ریاست بھوپال کو تاخت و تاراج کرڈالیں جو اس وقت نہایت خوش حال تھی ۔ یہ کام انھوں نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ۔ انھوں ریاست کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ یہ ریاست مدتوں پنپنے نہ پائی ۔ پنڈاریوں نے لوٹا ماری اور اپنی سفاکیوں سے بھوپال کے لوگوں کو سخت نقصان پہنچایا ۔ پنڈاریوں کے حاصل کیے ہوئے مال غنیمت کی خبریں سن کر راجا رگھوجی بھونسلا کے منہ میں پانی بھر آیا اور جب پنڈاری ناگپور واپس آئے تو راجا نے پنڈاریوں کے کیمپ کا محاصرہ کرکے پنڈاری سردار برن کو گرفتار اور ان کا مال غنیمت چھین لیا ۔ برن کی باقی زندگی قید میں گذری ۔ اس کا بھائی ہیرا دولت راوَ سندھیا کے پاس پونا بھاگ آیا اور اس نے برہان پور میں وفات پائی ۔

دوست محمد اور واصل محمد اپنے باپ ہیرا کے لشکر کے وارث بنے جو اپنے آپ کو دولت راوَ سندھیا کے معینہ پیروں میں شمار کرتے تھے جس کے وہ عموماً اطاعت گزار تھے ۔ مگر کبھی کبھی سرتابی سے بھی کام لیا کرتے تھے ۔ ان کی روش پنڈاری سرداروں کے عام انقلابات کے اثر سے خالی نہیں تھی ۔ ان کا اکثر پڑاوَ مالوہ کے شرقی علاقے میں ہوتا تھا ۔ جب دوست محمد خان کا انتقال ہو گیا تو سارے لشکر کی کمان واصل محمد کے ہاتھ میں آگئی ۔ اس کی رہنمائی میں لٹیروں کی ٹولیوں نے برطانوی علاقوں میں لوٹا ماری کی ۔ اس لیے برطانوی حکومت ان سے ناراض ہو گئی اور1817ء اور 1818ء کے دوران ان کے خلاف کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں پنڈاریوں کو شکست ہوئی اور وہ منتشر ہو گئے اور واصل محمد خان کچھ عرصہ تک مفرور رہا اور پھر گوالیار جاپہنچا ۔ جہاں پر اسے امید تھی کہ دولت راوَ سندھیا اب بھی اسے پناہ دے گا ۔ وہ اگرچہ چھپا رہا لیکن برطانوی نمائدے کو اس کا پتہ چلا تو اس نے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جو ٹالا نہیں جا سکتا تھا ۔ اگرچہ سندھیا کو اپنے وعدوں کا پاس کرنے اور اپنی عزت کے خیال سے قدر پس و پیش ہوا لیکن اسے پنڈاری سردار کو انگریزوں کے حوالے کرنا پڑا ۔ واصل محمد خان کو غازی پور بھیج دیا گیا ۔ جہاں برطانوی حکومت نے پالیسی کے تحت اس کی تقصیرات معاف کر کے اس کے گزارے کا بندوست کر دیا گیا ۔ لیکن اس کی حمیت نے قید کی ذلت کو گوارا نہیں کیا ۔ چنانچہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ مگر اس کی اطلاع ہو گئی تو اس نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔

چیتو[ترمیم]

اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ راجا رگھوجی بھونسلا نے برن کو قید کر لیا تھا ۔ برن کے قید ہونے کے بعد اس لشکر کا سالار دولہ خاں جمعدار بن گیا ۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا فرزند راجن برائے نام سردار بنا ۔ کیوں کہ اصل اختیارات ایک بہادر سردار کو مل گئے جس نے اپنی جواں مردی اور اولوالعزمی سے پنڈاریوں کی قیادت سنبھال لی ۔ اس شخص کا اصل نام چیتو خان تھا ۔ وہ دہلی کے قریب میوات کا باشندہ تھا ۔ یہ غلام کی حثیت سے گرفتار ہوا تھا ۔ مگر دولہ خان نے اسے اپنا بیٹا بنالیا ۔ عرصہ دراز کے بعد اس نے وہ رتبہ حاصل کیا کہ راجن کے ساتھ اس کا نام لیا جانے لگا ، چیتو نے اپنی دانائی اور فرزانگی سے راجن کو راضی رکھا ۔ کیوں کہ پنڈاری راجن کی موروثی عزت کرتے تھے ۔ راجن نے بھی چیتو سے میل جول بڑھا کر بہت فائدہ اٹھایا ۔ کیوں کہ چیتو اپنی فہم و فراست کی وجہ سے مشہور تھا اور اس کی رائے پنداریوں کے حق میں اکثر کار آمد اور سود مند ہوتی تھی ۔

اس سے پیشتر یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ دولت راوَ سندھیا جب18704ء میں وسط ہند آیا تو تو سب پنڈاری اس سے ملے اور سرجی راوَ کی سفارش سے سندھیا نے ان کے سرداروں کو خطابات دے کر سرفراز کیا گیا ۔ چیتو کو نواب مستقیم جنگ کا خطاب دیا جو اس کی مہر پر کندہ کر دیے گئے ۔ اس زمانے میں وہ اپنے گروہ میں نہایت قابل اور طاقت ور تھا ۔ اس نے نواب محمد کند خان مستقیم جنگ کا لقب اختیار کیا تھا ۔ لیکن وہ چیتو ہی کے نام سے مشہور رہا جو ہندوانہ نام ہے ۔ کیوں کہ پنڈاریوں میں مختصر اور معاروف سے نام پکارنے کا رواج تھا ۔ خیال کیا جاتا ہے وہ اپنے ابتدائی دور میں کریم خان کا بہت ممنون و شکر گزار تھا ۔ جس کی جمیعت میں وہ نوکر تھا اور جب کریم خان دولت راوَ سندھیا کے پاس سے بھاگ گیا تو چیتو نے دیگر پنڈاریوں کے ہم خیال ہوکر کریم خان کی مدد کے لیے اپنی ساری فوج جمع کرلی ۔ ان پنڈاریوں کے اتحاد سے سارا ہندوستان خوف زدہ ہو گیا ۔ مگر جلد چیتو کریم خان کے دشمنوں سے جاملا اور اس کی تباہی و بربادی میں اس کے دشمنوں کی مدد کی اور اس طرح اس نے پنڈاری رہنماؤں میں بلا شرکت غیر ے سب سے اعلیٰ رتبہ حاصل کر لیا ۔

چیتو نے اپنا مسکن ناہموار پہاڑیوں اور سنسان جنگلوں کے درمیان بنایا تھا جو دریائے نربدا کے شمالی کنارے اور کوہ بندھیا چل کے مابین واقع ہیں ۔ جس علاقہ پر اس کا قبضہ تھا اس کے مشرق میں ریاست بھوپال اور مغرب میں راجا باگلی کا علاقہ تھا ۔ اس کی چھاونی ہندیا کے سامنے موضع نیماڑ کے قریب تھی ۔ وہ خود وہاں یا ستواس میں رہتا تھا ۔ اس چھوٹے چھوٹے مقبوضات اونچی پہاڑیوں پر تھے اور آخر میں اس نے امت واڑے کے پرگنہ تالین پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی ۔ اس کے لشکر کی جماعتیں جس کی تعداد اندازہً بارہ ہزار سوار تھی ۔ جو ہر طرف دھاوے کیا کرتی تھیں ۔ وہ دولت راوَ سندھیا کی فرمان برداری کا دم بھرتا تھا ۔ لیکن اس راجا کی ریاست اگرچہ محفوظ رہتی تھی لیکن پنڈاریوں کے اکا دکا حملے سے وہ بھی شکار ہوتی رہتی تھی ۔ گوالیار سے کئی مرتبہ فوجیں چیتو اور دیگر پنڈاری سرداروں کے تزارک کے لیے بھیجی گئیں ۔ لیکن خود سندھیا کی بدنیتی یا ملازمین کی کمزوری یا فوجوں کی غداری یا باہمی رشک و عدات کے باعث جو سندھیا کے نیم آزاد نمائندوں میں ہمیشہ موجود رہتی تھی یا ان سب وجوہ کے باعث انھیں کبھی بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ توقع تھی کہ جین بپ ٹسٹ کے زیر کمان فوج ان لٹیروں پر کامیابی حاصل کرلے گی ۔

جین بپ ٹسٹ یورپی نژاد جس کے آباء اکبر کے دور میں ہندوستان آئے تھے ۔ وہ نہایت بہادر اور مستعد شخص تھا اور اس کے ماتحت فوج بھی نہایت چاق و چوبند تھی ۔ لیکن اس کی کوششوں کا (اگرچہ اس نے پنڈاریوں اور ان کے دوست جسونت راوَ بھاوَ کو شکست دے دی) صرف یہ نتیجہ نکلا کہ ایک معاہدہ طہ پایا ۔ جس کی رو سے پنڈاری سرداروں نے لوٹ مار سے احتراز کرنے کا اقرار کیا اور دولت راوَ سندھیا کی خدمت میں سواروں کی ایک جماعت پیش کرنے کا وعدہ کیا ۔ سندھیا نے پنڈاریوں کی بسر اوقات کے لیے چند ارضیات دینے کا اقرار کیا ۔ سندھیا کو اس معاہدے کی توثیق کرنے میں بہت سی وجوہ سے پس و پیش ہوا ۔ ایک خاص وجوہ یہ تھی کہ یورپین کمان دار نے نہایت دریا دلی سے جن علاقوں کو دینے کا وعدہ کیا تھا ان میں سے اکثر علاقہ اس کی ملکیت نہ تھے بلکہ وہ علاقہ پیشوا کے یا پوار اور ہلکر کے تھے ۔ اگرچہ اس نے کئی بار ان کی حکومت اور ریاست ان پر قبضہ کیا تھا ۔ لیکن اکثر موقعوں پر اس نے ظاہر تعلقات کو قائم رکھا تھا ۔

سندھیا کے پس و پیش پر چیتو نے مطالبہ کیا کہ یا تو اس معاہدے کو تسلیم کر لیا جائے جو میرے فوجی سپہ داروں نے طہ کیا ہے یا پھر اپنی ریاست میں لوٹ مار کی اجازت دی جائے ۔ چنانچہ پنڈاری سرداروں کو احکام یا سندات دے دیے گئے ۔ ان میں خاص سردار چیتو تھا ۔ اسے اپنی فوج گزارنے کے لیے چند پرگنے ملے اور یہ پہلا موقع تھا کہ اسے حکمران تسلیم کیا گیا تھا ۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بہت جلد نہایت اہم تبدیلیاں وقوع میں آتیں ۔ اگر چیتو اور دوسرے پبڈاری سردار کامیابی کے نشے سے بدمست ہوکر رقیب ریاستوں کی سازشوں کے لیے نشان نہ بن جاتے ۔ جو اگرچہ اب بھی قزاقوں کے جور و ستم سے ڈرتی تھیں ، لیکن جب انھیں ضرورت پڑتی تھی تو وہ اپنے دشمنوں کو دق کرنے کے لیے پنڈاری سرداروں کو اپنا آلہ کار بنالیتی تھیں اور ان ریاستوں کی ہمیشہ یہی پالیسی تھی ان پر قابو پانے کے لیے ان میں تفرقہ اندازی کی ضروری ہے ۔ چیتو ان علاقوں پر اپنا قبصہ کرنے کے بعد جو اسے معاہدے کے تحت دیے گئے تھے امت واڑے سے دریائے نربدا کے کنارے اپنی چھاونی میں واپس ٓگیا ۔

مگر دوسرے سال دوسرے سال پنڈاریوں کی انگریزی فوجوں سے جھڑپیں ہوئیں ۔ انگریزوں نے راجا ناگپور سے تعاون کا معاہدہ کر لیا تھا ۔ اس کے تحت چیتو مع دیگر پنڈاری سراروں کے امن کا دشمن اور مجرم قرار دیا گیا ۔ انگریزی فوجیں دریائے نربدا کے جنوبی کنارے کی پہنچ گئیں ۔ چیتونے مدافعت کی کچھ کوشش نہ کی اور قلعے کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ حالانکہ اس کے پاس پانچ چھ ہزار پنڈاری ، پانچ چھوٹی توپیں اور پیادہ سپاہی بھی تھے ۔ اس کا آگرے تک اس کا تعاقب کیا گیا مگر وہاں سے وہ میواڑ کے مضافات میں چلا گیا ۔ انگریزی فوج اس تعاقب میں وہاں پہنچنے پر وہ یہاں سے فرار ہو گیا اور طویل چکر لگا کر وہ اپنے مستحکم علاقہ میں واپس آگیا ۔ لیکن یہاں اسے چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا اور جلد انگریزی فوج یہاں پہنچ گئی ۔ اس کے باڈی گاڈ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا گیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں اس کے ساتھی منتشر ہو گئے تو انگریزی فوجوں نے اس کا تعاقب جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ پنڈاریوں کا سارا تنظیمی ڈھانچہ تباہ ہو گیا اور چیتو کی ساری قوت کا خاتمہ بغیر کسی مقابلے کے ختم ہو گیا ۔ وہ ارواس کے گھنے جنگلوں راجن اور تیس چالیس ساتھیوں کے ساتھ مارا مارا پھرتا رہا ۔ یہاں اس دوست اور ساتھی گونڈ سردار تھا اور اب تک خفیہ طور اب بھی اس کی مدد کر رہا تھا ۔ لیکن یہاں پر بھی چیتو پر اس قدر دباوَ پڑا کے کہ وہ یہاں رک نہ سکا ۔

چیتو کے فرار ہونے کے بعد پنڈاریوں کا کوئی رہبر نا رہا اور وہ چھوٹے چھوٹے راجپوت رئیسوں اور دیہاتی عہدہ داروں کا بآسانی شکار ہو گئے اور ان لوگوں نے عرصہ دراز سے جو مصیبتیں اور تکالیف ان کمینہ اور بے رحم لٹیروں کے ہاتھوں اٹھائی تھیں ان کو یاد کرکے اپنے نفع کے لالچ اور انتقام میں انھوں نے پنڈاریوں کو بڑے شوق اور مستعدی سے لوٹا ۔

چیتو نے سن رکھا تھا کہ حکومت برطانیہ ان پنڈاری سرداروں کے ساتھ رحم و فیاضی کا برتاوَ کرتی ہے ہے جو اطاعت قبول کرلیتے ہیں ۔ لیکن اس کو بھروسا نہیں تھا کہ برطانوی حکومت اس کے ساتھ نرمی برتے گی ۔ اسی تذبذب کی حالت میں وہ بھوپال گیا اور نواب سے بڑی منتوں سے پناہ مانگی اور نواب بھوپال نے اسے پناہ دے دی ۔ مگر یہاں بھی اس کا دل بے چین اور مضطرب تھا ۔ وہ انگریزوں سے بہت خوفزدہ تھا اور اس کو ڈر تھا کہ نواب بھوپال اسے انگریزوں کے حوالے نہ کر دے ۔ اس لیے وہ بھوپال سے فرار ہوکر اپنے پرانے مسکن چلا آیا ۔

ٍجلد ہی وہاں پر انگریزی فوج کا ایک دستہ پہنچ گیا ۔ اس دستہ نے چیتو کو ہتھیار دالنے کے لیے کہا اور اس کے بدلے مرات کی پیش کش کی ۔ لیکن چیتو نے حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا کے اندیشے سے اس نے ان شرائط کو قبول نہیں کیا ۔ اسے راجن نے بہت سمجھایا کہ اگر وہ اطاعت قبول کرلے گا تو اس کے گزارے کا معقول بندوست کر دیا جائے گا ۔ مگر چیتو مانا نہیں اور دریائے نربدا کو عبور کرکے قلعہ اسیر گڑھ چلا گیا اور آپا صاحب سابق راجا ناگپور نے وہاں اپنے پاس بلالیا تھا ۔

یہ راجا قید سے نکل کر بھاگ گیا تھا اور وہ مہا دیو پہاڑ میں انگریزوں کے خلاف ایک لشکر جمع کر رہا تھا ۔ اس راجا نے اسیر گڑھ کے مضافات میں آنے میں پنڈاری سردار کی رہنمائی کی ۔ لیکن وہ ابھی یہاں پہنچنے ہی پایا تھا کہ انگریزی فوج کے ایک دستہ پہنچ گیا ۔ اس نے اس کے ساتھیوں کی مختصر جماعت کو منتشر کر دیا ۔ چیتو اپنے بیٹے اور پانچ ساتھیوں کے ساتھ اپنے سابق جائے پناہ یعنی ستواس کے جنگلوں کی جانب فرار ہو گیا ۔ انگیریزی فوج نے اس کا تعاقب کیا ہر ایسے مقام پر قبضہ کر لیا جہاں چیتو کو پناہ اور خوراک میسر ہو سکتی تھی ۔ اس کا آخری دوست خوش حال سنگھ ساکن ارواس اسے چھپانے کے شبہ سے بچنے کے لیے ایک انگریزی کیمپ میں حاضر ہو گیا ۔ گویا اس شہرہ آفاق سردار کو اب ڈاکو بھی پناہ دینے سے گریز کرنے لگے ۔ اس کے گھوڑے کے سم عام گھوڑوں کے سموں سے بڑے تھے ۔ چنانچہ اس سم کے ذریعہ چیتو کی نقل مکانی کا سراغ لگ جاتا تھا ۔ چیتو پناہ کی تلاش میں تعاقب کی وجہ سے بھوک اور پیاس کی تکلیف سے مجبور ہوکر اپنے بیٹے اور ساتھیوں سے جدا ہو گیا ۔ اس نے ایک گھنے جنگل کی جھاڑی میں پناہ لی جہاں اس پر ایک شیر نے حملہ کیا اور اس کا کام تمام کر دیا ۔ جب ریاست ہلکر کے ایک مقامی اہل کار کو اس واقع کی اطلاع ملی تو وہ فوراً جائے وقوع پر پہنچا ۔ وہاں پر اس کا گھوڑا ، کاٹھی ، تلوار ، زیورات ، سابق راجا ناگپور کے عطیہ جاگیر کے کاغذات اور اس کے جسم کا ایک حصہ ملا ۔ اس نے خون کے نشانات سے شیر کا سراغ اس کے غار تک لگایا ۔ شیر لوگوں کی آمد سے خوفزدہ ہوکر بھاگ گیا ۔ وہاں صرف چیتو کا سر صحیح و سالم ملا ۔ چیتو کا سر انھوں نے انگریزی کیمپ بھیج دیا تاکہ اس واقع کی تصدیق ہوجائے ۔ اس وقت انگریزی فوج اسیر گڑھ کا محاصرہ کر رہی تھی ۔ چیتو کا سر ملنے پر اس کی موت کو تسلیم کر لیا گیا اور سر اس کے بیٹے محمد پناہ کو دفن کے لیے دے دیا گیا ۔ جو اپنے باپ کی موت کے اگلے روز پکڑا گیا تھا ۔ محمد پناہ بچپن سے ہی بہرا تھا اور ذہنی طور پر بھی کمزور تھا ۔ اگرچہ وہ بھی مجرم تھا لیکن اس پر رحم کیا گیا اور اس کے باپ کی موت جس طرح ہوئی وہ بھی قابل افسوس تھی ۔ اس لیے اسے رہا کر کے حکومت ہلکر کے پاس بھیج دیا گیا جہاں سے چند کھیت گزارے کے لیے اسے دے دیے گئے ۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ چیتوں نے مزاحمت کیوں نہیں کی ۔ جب کہ اس بہادری کا اعتراف تو انگریزوں نے بھی کیا ہے اور جب اس میں مقابلہ کی تاب نہیں تھی تو ہتھیار کیوں نہیں ڈالے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے چیتو ایک بہادر شخص تھا ، مگر ہ میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چیتو ایک پنڈاری تھا اور پنڈا ریوں کی تربیت باقیدہ فوج پر نہیں ہوئی تھی ۔ ان کی تربیت ایسی نہیں تھی کہ وہ حملہ کریں یا مزاحمت کریں ۔ ان کی تربیت اسی نہج پر تھی کہ لوٹا ماری کریں اور کسی فوج کی آمد پر مقابلہ کرنے کی بجائے فرار ہوجائیں ۔ پنڈاریوں کی معاشرے کوئی عزت یا توقیر نہیں تھی ، حتیٰ ان درباروں جہاں وہ ملازم تھے یا جن کے آلہ کار بنے وہاں بھی فوجیوں سے ان کا درجہ بہت کم تھا ۔ انھیں دربار میں بیٹھنے تک اجازت نہ تھی ۔ اگرچہ ہر پنڈواری سردار جس نے عروج حاصل کیا اس کی خواہش رہی کہ اسے معاشرے میں باعزت مقام ملے ۔ مگر ان پنڈواریوں کی تربیت باقیدہ فوجیوں سے بالکل جدا تھی ۔ اس لیے وہ کسی بھی فوج سے مقابلہ نہیں کرسکے ۔ یہی حال چیتو کا تھا وہ پنڈاریوں کے کثیر تعداد ساتھ ہونے کے باوجو وہ مقابلہ یا مزاحمت نہیں کرسکا ۔ البتہ اس کا تعاقب کرنے والے اس کا پیچھا کرتے رہے مگر اس کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور وہ ہر دفعہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا یہاں تک وہ شیر کا شکار ہو گیا ۔

چیتو نے ہتھیار کیوں نہیں ڈالے حالانکہ اس کو بارہا ہتھیار ڈالنے کی صورت میں اس کے ساتھ نرم سلوک کا وعدہ کیا گیا اور اس کو اس کے دوست راجن نے بھی اس کو بہت سمجھایا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی طرح چیتو جس دوام بصبور دریائے شور جس کو کالا پانی کہتے ہیں اور اس سزا سے بہت ڈرتا تھا ۔ ایک شخص جو چیتو کے ساتھ رہا بیان کیا کہ وہ کالے پانی کا ہذیان بکتا تھا اور جب اس کے ایک ساتھی نے اس کو یقین دلایا تو بھر خواب میں بھی وہ یہی خوفناک الفاظ بڑبڑاتا رہا ۔

کریم خان[ترمیم]

کریم خان بہت مشہور پنڈاری سردار گذرا ۔ اسے ایک زمانے میں اپنے رقیبوں سے بہت زیادہ قوت اور آزادی حاصل ہو گئی تھی ۔ اس کا باپ محمد داوَد بھی رگھو یا پیشوا کے پاس لٹیروں کی ایک جماعت کا سالار تھا ۔ کریم خان بیرسیہ میں پیدا ہوا تھا جب یہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کا باپ شاہ پور میں مارا گیا ۔ باپ کے مرنے کے بعد ٹولی کی کمان اس کے چچا یار محمد کو مل گئی ۔ وہ بھی رگھبوبا کے یہاں ملازمت میں رہا ۔ مگر جب رگھوبا انگریزوں سے مل گیا تو یار محمد نے مادھو جی کی ملازمت اختیار کرلی اور اس کے ہمرا کریم خان ہندوستان چلا گیا ۔ جب اس کی عمر بیس سال ہوئی تو مادھو جی سندھیا نے اسے مالوے میں اسے جاگیر دینے کا وعدہ کیا تھا اور کریم وہاں سے ڈی بون کی فوج کے ساتھ گیا اور سکھاری گھاٹ کے پاس ہلکر کی فوجوں کی شکست کے وقت وہ ساتھ تھا ۔

بعد میں ہیرا اور برن نے اپنی خدمات بھوپال گورنمنٹ کو پیش کیں اور انکار پر وہ ریاست کے لیے وبال جان ہو گئے اور اس وقت کریم نے بھی لوٹ مار میں شرکت کی تھی ۔ کریم اس وقت پانچ یا چھ سو آدمیوں کا سپہ دار تھا ۔ برن کے قید ہونے پر وہ ناگپور سے بھاگ گیا اور دولت راوَ سندھیا کے یہاں نوکر ہو گیا جو اسی وقت مسند پر بیٹھا تھا اور دوسرے مرہٹہ روسا سے مل کر نظام الملک پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا ۔ کریم کا بیان ہے کہ اس جنگ مین اگرچہ کشت و خون بالکل نہیں ہوا لیکن اس قدر مال غنیمت میرے ہاتھ لگا جو اس سے پہلے کبھی ہاتھ نہیں آیا تھا ۔ کریم مال غنیمت چھن جانے کے اندیشے سے بھاگ کر وسط ہند آگیا ۔ کریم خان اس وقت دو سے تین ہزار سوار کا کماندار تھا ۔ اور وہاں اس نے اپنی خدمات جسونت راوَ کو پیش کیں ۔ جسونت راوَ نے اسے حکم دیا کریم الدین کے پاس جاوَ اور اس کے بھائی امیر خان کی مدد کرو جو شکہ ساگر سے پسپا ہونے پر مجبور ہوا ہے ۔ لیکن وہ اپنی جائداد کو نقصان پہنچنے کے اندیشے سے یہ سردار جسونت راوَ ہلکر کی شم شلازمت سے بھی دست کش ہو گیا اور اس نے سندھیا کے ملازمین میں داخل ہونے کی پھر درخواست کی ۔ مگر اسی کے ساتھ اس نے امیر خان سے خط کتابت شروع کردی اور اس سے استدعا کی کہ اس کے بال بچوں کو جگہ دیجئے ۔ امیر خان اگرچہ اپنے ساتھیوں کی تعداد میں اضافہ سے گھبراتا تھا لیکن اس نے امیر خان کی درخواست منظور کرلی ۔ لیکن اسے جلد ہی اس پر کف افسوس ملنا پڑا ۔ کیوں کہ جب امیر خان دولت راوَ سندھیا سے جنگ و جدل میں مصروف تھا اس سے فائدہ اٹھا کر کریم خان نے دوسرے پنڈاریوں سے ساز باز کرکے پرگنہ شجال پر قبضہ کر لیا ۔ کریم خان نے ریاست پوار کا قصبہ پیرسیہ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ سندھیا جب انگریزوں سے دکن میں ناکام جنگ کے بعد واپس آیا تو اس نے کریم خان کے ان دونوں مقامات پر قبضہ کی منظوری دے دی ۔

سندھیا نے کریم خان کو نواب کا خطاب دیا اور اس نے نواب بھوپال کے اس خاندان کی ایک خاتون کے ساتھ شادی کرلی جو راتھ گڑھ میں رہتا تھا ۔ اسے امید تھی کہ اس رشتہ سے اس کی عزت و توقیر بڑھ جائے گی اور اس کی دیرنہ زتمنائیں بر آئیں گیں ۔ سندھیا اور ہلکر دونوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر جو اس وقت ہندوستان کی سرحدوں پر بنر آزمائی میں مصروف تھے اس نے کئی زرخیز پرگنے آشٹہ ، سیہور ، یچھادر ، سارنگ پور اور شاہجہاں پر قبضہ کر لیا اور انھیں اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا ۔ اب اس کا ستارہ اقبال نصف النہار پر تھا اور پہلی بار یہ پٹھان سردار باضابطہ ریاست کا رئیس ہونے والا تھا ۔ جس کی کریم خان کے دل بڑی آرزو تھی اور اس مقصد کے حصول کے لیے بڑی سرگرمی سے تیاری کر رہا تھا ۔ اس نے ایک ہزار پیدل سپاہ بھرتی کی اور دو توپیں ڈھالیں ۔ دو توپیں اس کے پاس پہلے موجود تھیں اس طرح اس کا توپ خانہ تیار ہو گیا ۔ اس نے بارسو پءگا یعنی باڈی گارڈ کا ایک رسالہ تیار کیا ۔ جس کو ملا کر اس کے زیر کمان بارہ ہزار پنڈاری ہو گئے اور وہ ہیبت ناک بن گیا تھا ۔

کریم خان نواب بھوپال غوث محمد کے مدعو کرنے پر بھوپال گیا ۔ لیکن ریاست کے افلاس اور وزیر محمد کی شجاعت اور اولعزمی نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو اس نے اس ریاست میں اپنے علاقوں کی توسیع کے لیے رکھی تھیں ۔ دولت راوَ سندھیا نے اسے طلب کیا ۔ اس نے کریم خان کو حیلے اور بہانے سے تباہ و برباد کرنے کی سازش تیار کی ۔ کیوں کہ اس کی اپنی طاقت ایسی نہیں تھی کہ وہ اسے علانیہ تباہ کردیتا ۔ اس مرہٹہ رئیس نے ایسی چالبازی اور عیاری سے کام لیا کہ جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی ۔ دولت راوَ بیرسیہ کے مضافات میں ستن باڑی کے قلعہ کے قریب خیمہ زن تھا ۔ دولت راوَ پہلے اس امید پر کریم خان کی چاپلوسی کی کہ فتح ہونے پر وہ قلعہ اس کے حوالے کر دے گا ۔ اس نے سازش کے تحت کریم خان کو کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ چند معمر پنڈاری سرداروں نے کریم خان کو متنبی کیا ، کیوں کہ وہ پہلے بھی اپنے سرداروں کا لوٹا جانا اور گرفتار ہونا دیکھ چکے تھے اور ان سرداروں نے کریم خان کو مرہٹوں کی دغابازی یاد دلائی ۔ لیکن اسے اپنی حفاظت کا کامل اطمنیان ہو گیا تھا ۔ یہ پنڈاری سرادر اپنی کامیابی پر مغرور ہو چکا تھا اور اس کی خود اعتمادی بہت بڑھ چکی تھی ۔ سندھیا نے ایسا جال بنا تھا کہ ہر ایسے شخص پر جس پر کریم کو اعتماد تھا رشوت یا لالچ کے ذریعہ اسے فریب دینے کا بندوست کر لیا تھا ۔

کریم خان جو نہایت بہادر اور متحاط تھا لیکن وہ اپنی شاندار اقبال مندی کی عظیم انشان توقعات کے دھوکے میں آگیا ۔ وہ دولت راوَ سے ملنے اس شان سے گیاگویا اس وہ درجہ مہمان سے کم کا نہ تھا ۔ کریم خان نے اپنے معزز مہان کی نذر کے لیے تحاءف تیار کیے تھے ان میں ایک روپیوں سے ایک تخت یا مسند تیار کیا تھا ۔ یہ مسند ایک لاکھ پچیس ہزار روپیے کی تیار ہوئی تھی اور اس پر ایک بیش قیمت کپڑا بچھاءا اور اس پر سندھیا کو بٹھانا تھا ۔ ہندوستان میں عام رواج ہے کہ جب کوئی ذی مرتبہ کا شخص کسی ادنیٰ شخص کے یہاں جاتا ہے تو اس طرح کی نذر پیش کی جاتی ہے ۔ سندھیا اس سے ملاقات میں کہا کہ اسے کریم خاں کے اوصاف معلوم کرکے اس کو بیحد مسرت حاصل ہوئی ہے ۔ کریم خان میں سپاہی اور مدبر دونوں کے اوصاف موجود ہیں اور وہ ایسے شخص کی عرصہ دراز تک وہ فضول سرگرداں رہا ۔ کئی دن تک یہی دھوکا بازی جاری رہی ۔ کریم خان کی ہر درخواست بلا چون و چرا فوراً منظور کی گئی ۔ اس کے علاوہ کریم خان نے چند بیش قیمت اضلاع کی اور فرمائش کی اور وعدہ کیا کہ ان علاقوں کے حوالے ہوجانے پر ساڑھے چار لاکھ روپیہ نظر کرے گا ۔ چنانچہ سندھیا نے حکم دیا گیا کہ سندات تیار کی جائیں اور ایک اعلیٰ درجہ کی خلعت کریم خان کے لیے تیار کی گئی ۔

کریم خان بہت خوش تھا اور نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے روانگی کا جو دن مقرر ہوا تھا اس روز الودعائی ملاقات کے لیے کریم خان کو سندھیا کے پاس ملاقات کے لیے جانا تھا کہ جو معاملات رہ گئے ان کی تکمیل ہوجائے ۔ چنانچہ وہ چند خدام کے ہمراہ سندھیا کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ جہاں اس کا استقبال بڑے تباک سے کیا گیا ۔ سندیں اور خلعت طلب کیے گئے ۔ مختصر سوانگ مکمل رچایا گیا اور پھر سندھیا کسی بہانے سے اٹھ کر چلا گیا ۔ سندھیا کے جاتے ہی خیمہ کی قناتوں کے نیچے سے مسلح آدمی گھس آئے اور انھوں نے مغرور پنڈاری سردار کو اس کے ساتھیوں کے سمیت گرفتار کر لیا ۔ کریم خان کی گرفتاری کے بعد ایک توپ داغی گئی ۔ جو اس بات کا اشارہ تھی کہ کریم خان کی گرفتاری ہو چکی ہے ۔ وہ فوجی جو کریم خان کو سلامی دینے کے لیے جمع ہوئے تھے اور جو نئے مقبوضات علاقوں میں کریم کے ساتھ جانے والی تھیں ۔ اشارہ ملتے ہی انھوں نے پنڈاری کیمپ پرڈھاوا بول دیا ۔ کریم خان کے ساتھی شروع سے ہی اس خطرے سے آگاہ تھے اس لیے وہ جانیں بچانے میں کامیاب ہو گئے اور صرف چند آدمی مارے گئے لیکن ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا گیا ۔

سندھیا کی فوج نے اس لوٹ کھوٹ سے آسودہ ہوکر اپنے فرمان روا کا نام بلند کیا ۔ فوج نے اس موقع پر اس فن کا کمال دیکھا دیا جو مرہٹہ حکمران کا اعلیٰ وصف مانا جاتا ہے ۔ اس سے اس کی شہرت اور ناموری دو چند ہو گئی کہ سندھیا کی فوج پنڈاریوں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔ پھر بھی انھوں نے اس نے کمال و ہوشیاری سے کامیابی حاصل کی اور پنڈاریوں کو جال میں پھانس لیا ۔

کریم خان کی تباہی کی خبر نہایت تیزی سے شچال اور اس کے اہل و عیال تک پہنچ گئی ۔ جہاں اس کا بہت سا خزانہ اور مال اسباب جمع تھا ۔ اس کی ماں اگرچہ ضعیفہ تھی لیکن اس نے بڑی مستعدی سے کام لیا اور ساتھ لے جانے کے قابل قیمتی مال و اسباب لے کر فوراً باگلی کے جنگلوں کی جانب چلی گئی ۔ جہاں پر اسے پنڈاریوں کی ایک زبردست جماعت مل گئی ۔ لیکن سندھیا کے ڈر سے اس علاقہ کے سب لوگوں نے انھیں پناہ دینے سے انکار کر دیا ۔ پھر وہ مغرب کی جانب روانہ ہوئی جہاں اسے کوٹہ کے ظالم سنگھ نے اسے ایک جگہ پناہ دے دی ۔

امیر خان کا بھائی ہیرا کریم خان کے ساتھ دربار نہیں گیا تھا لیکن اسے سندھیا کی اس فوج نے گرفتار کر لیا تھا جس نے پنداری کیمپ پر حملہ کیا تھا ۔ کریم خان چار سال تک گوالیار میں قید رہا ۔ اگرچہ اس کی سخت نگرانی ہوتی تھی مگر قید سخت نہیں تھی اور اس کے اپنے اہل خانہ اور پنڈاریوں سے خفیہ ربطہ برقرار تھے ۔ اس نے پنڈاریوں کو ہدایت کردی کہ ہرجگہ اور بالخصوص سندھیا کی ریاست میں خوب لوٹ مار کریں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر کارروائی کرتے تھے ۔ ان کی سب سے بڑی جماعت اس کے بھتیجے نامدار خان کی ماتحتی میں تھی ۔ دولت راءو سندھیا مدت تک اس پنڈاری سردار کو رہا کرنے سے انکار کرتا رہا ۔ آخر وہ لالچ میں آگیا اور کریم خان نے اسے چھ لاکھ روپیے کا نذرانہ اور ایک لاکھ روپیہ مصالحت کی گفت و شندید کرنے والوں عہدہ داروں کو ادا کرنے کا وعدہ کیا ۔ ادائیگی کے لیے اس نے ظالم سنگھ کو اپنا ضامن بنایا ۔ رہائی کے بعد اس کے ساتھ گذشتہ واقعات کی تلافی کرنے کی کوشش کی گئیں اور اس کی خدمت میں نہایت بیش قیمت تحاءف پیش کیے گئے اور ہر جگہ اس کا احترام کیا گیا ۔ لیکن اسے ایسا کاری زخم لگا تھا جو آسانی سے مندمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس نے رہا ہو نے کے بعد پھر پنڈاریوں کو جمع کرنا شروع کیا جو مختلف مقامات سے آکر اس کے پاس جمع ہو گئے اور انھوں نے لوٹ مار شروع کردی ۔ کریم خان نے شچال پور میں سکونت اختیار کی ۔ قید ہونے سے پیشتر اس کے بعد جس قدر اس مقبوضات تھے اب وہ ان سے کہیں زیادہ وسیع علاقوں پر وہ قابض ہو گیا تھا ۔

اسی زمانے میں چیتو کی ساری فوج کریم خاں کے پاس آگئی تھی اور اس کی آمد سے دوستی کے وہ تعلقات پیدا ہو گئے جو ان دونوں سرداروں اور امیر خان کے درمیان قائم ہوئے جن کے اقبال کا ستارہ نصف النہار پر تھا ۔ اس سے سارے ہندوستان میں ہل چل مچ گئی اور لوگ اس درجہ خاءف ہہوئے جس کی انتہا نہیں ۔ اب ان لٹیروں کے گروہ میں کم از کم ساٹھ ہزار سوار جمع ہو چکے تھے ۔ جو کریم خان کے ایک اشارے کسی مقام پر ان کی نقل و حرکت شروع ہوجاتی تھی ۔ لیکن خوش قمتی سے یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہا ۔ کریم خان نہایت سنگدل تھا اور اس کے دل میں دولت راوَ سندھیا کے خلاف آتش غیظ و غضب بھڑک رہی تھی ۔ اس نے سندھیا کی ریاست میں لوٹا ماری اور سخت جور و ستم شروع کر دیے ۔ سندھیا اپنی کوتاہ اندیش اور حریصانہ پالیسی کے ان نتاءج سے نہایت شرمندہ اور خوفزدہ ہو گیا تھا ۔ جس کی بدولت اس کی ریاست میں یہ بلا نازل ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے خاص سپہ سالار جگو بابو کو فوراً اس پنڈاری سردار کے مقابلے کے لیے روانہ ہونے کی ہدایت کی ۔

چونکہ چیتو کی کریم سے کچھ پیشتر سے چشمک تھی اس لیے وہ کریم سے مقابلے میں سندھیا سے مل جانے پر بآسانی سے راضی ہو گیا اور صوبہ امت وارہ میں کریم کے کیمپ پر حملہ کیا گیا اور تباہ کر دیا گیا ۔ کریم میدان جنگ سے ریاست کوٹا چلا گیا ۔ اس ریاست کا جنگجو رئیس چونکہ سندھیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اس پرانے رفیق سے کہا براہ کرم دور باش ، دور باش اور کریم کو یہ مشورہ دیا کہ آپ امیر خان سے پناہ مانگیں ۔ لیکن اس نے کریم کے اہل و عیال کے قیام کی جگہ دے دی ۔

چنانچہ کریم خان امیر خان کے پاس گیا ، مگر اس نے تلسا بائی سے سفارش کرنے کے بہانے سے اسے غفور خان کے سپرد کر دیا ۔ کریم خان رہاست ہلکر میں بغاوت ہونے کے دوران تین سال تک نظر بند رہا ۔ اس زمانے میں غفور خان کی فوج نے نامدار خان کی ماتحتی میں بھوپال اور مختلف معرکوں میں مشغول و مصروف رہی اور اس خدمت کے صلے میں کریم خان کے بھتیجے نے بڑا نام پیدا کیا ۔ لیکن کریم خان اس کا چچا اس سے مسلسل خط کتابت کے ذریعہ رابطہ تھا کا کہنا کہ نامدار میرے احکام کی تعمیل کر رہا تھا ۔ مالوے میں انگریزی فوج کے داخل ہونے سے چند ماہ پشتر کریم خان ہلکر کے لشکر سے فرار ہو گیا اور بیرسیہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملا ۔ وہ اس کی وجہ یہ یہ بتاتا ہے کہ دولت راوَ سندھیا نے میرے پاس ایک خط بھیجا ، جس میں اس نے لکھا تھا کہ پچھلے واقعات پر خاک ڈالیں اور اپنے دل سے انھیں فراموش کر دیں ۔ میں آپ کے نہ صرف سابق مقبوضات واپس کرنے کو تیار ہوں بلکہ آشٹہ اور دیگر علاقہ آپ کو دینے کو تیار ہوں ۔ بشرطیکہ ّآیندہ جنگ میں جو انگریزوں سے ہونے والی ہے مرہٹوں کا ساتھ دیں ۔

جب انگریزی فوجیں دریائے نربدا کو عبور کر رہیں تھیں ۔ اس وقت کریم خاں (اپنے بیان کے مطابق) دولت راوَ سندھیا کے حکم کی تعمیل میں واصل محمدخان کے لشکر سے جاملا اور جس مقام پر انھیں جانے کا حکم ملا تھا وہاں سے گوالیار صرف چالیس کوس اور نروار سترہ کوس تھا ۔ اس وقت سندھیا کے پاس سے ایک خاص مقمد برہمن آیا اور اس نے سندھیا کا یہ حکم سنایا کہ آپ لوگ یہاں سے دور چلیں جائیں ۔ کیوں کہ انگریزی فوجوں کی پیش قدمی سے میں ایسی حالت میں ہو گیا ہوں کہ آپ لوگوں کو پناہ نہیں دے سکتا ۔ اس خبر نے پنڈاریوں کو مایوس اور ناراض کر دیا ، چنانچہ فوراً یہ تجویز قرار پائی کہ اب مغرب کی طرف چل دینا چاہیے اور ہلکر کی فوج کی میں شیریک ہوجانا چاہیے ۔ جس کے بارے میں انھوں نے سنا تھا کہ وہ ریاست ہلکر کی سرحد سے ماہیہ پور طرف جارہی ہے ۔

اس دوران سندھیا نے انھوں نے جنگ میں شرکت کرنے کے لیے طلب کیا تھا ۔ مگر اس کی غداری سے خفا ہوکر انھوں نے اردہ کیا جس حد تک ممکن ہو اس کی ریاست میں لوٹ مار کرنی چاہیے ۔ مگر اب ان ان خاص مقصد یہ تھا کہ اپنے تحفظ کا بندوست کیا جائے ۔ روزانہ انگریزی فوجوں کے بڑھنے کی خبریں کی خبریں تھیں اور ان کی فتوحات سے کریم اس قدر خاءف اور پریشان ہو گیا کہ وہ اپنے اہل و عیال اور بہت سا سامان چھوڑ کر فرار ہو گیا اور راستہ میں بغیر کہیں قیام کیے ہوئے وہ سیدھا ہلکر کی فوج میں جاپہنچا ۔ جو منڈیسر کے قریب خیمہ زن تھی ۔ جو پنڈاری کہ کریم کے ہمراہ تھے ان کی تعداد اس قدر کم ہو گئی تھی کہ ہلکر کے یہاں پہنچنے کے وقت ان تعداد پامچ ہزار سے زیادہ نہ تھی ۔ انھوں نے اپنے خدمات ہلکر کو پیش کی گئیں ، لیکن ہلکر کے وزرا نے نامنظور کیا ۔ انھیں ماہید پور کی جنگ کے بعد اپنے کو تباہی سے بچانے کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں تھی ۔ چند روز پس و پیش کرنے کے بعد غفور خان کریم خان سے چلے جانے کو کہا کہ چونکہ انگریزی فوج بڑھی چلی آرہی تھی اور پنڈاریوں کی قربت کی وجہ سے ہلکر صلح نہ کرسکتا ہے ۔ پنڈاری جاچوَ کی طرف چلے گئے ۔ لیکن وہاں پر اپنے باہمی نزاعات اور انگریزی فوج کی آمد پر وہ منتشر ہوجانے پر مجبور ہو گئے ۔ کریم تو تکان سے خستہ ہوکر شہر میں جا چھپا اور اس کا لشکر نامدار خان کی سرکردگی میں میواڑ سے مالوے کی طرف چل دیا اور جبب وہ گنگرور کے قریب پہنچا تو اس کا انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا ۔ جس نے پنڈاریوں کو ایسی شکست فاش دی کہ اس کے سپہ سالار مایوس ہوکر بھوپال چلے گئے اور وہاں انھوں نے نواب بھوپال سے درخواست کی کہ براہ نوازش آپ ہمارے شفیع بن جائیں ۔ نواب بھوپال کی سفارش سے نہ صرف نامدار خان کے گزارے کا بندوست کر دیا گیا بلکہ حکومت برطانیہ نے اس کے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ رحم و کرم کا سلوک کیا ۔

کریم خان جادو کے ایک شکستہ حال مکان میں چھپا ہوا تھا ۔ جب انگریزی فوج نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تو وہ وہاں سے نکل بھاگا اور اس کے مطابق فقیر کے بھیس میں بھوکا پیاسا کئی روز تک مارا مارا پھرتا رہا ۔ آخر کار اس نے غفور خان کو اپنی حالت کے بارے میں لکھا اور اس سے مشورہ مانگا ۔ غفور خان نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے حوالے کر دے اور جس نے بھی ایسا کیا اس کے ساتھ انگریزی حکومت نے شفقت اور فیاضی کا سلوک کیا ۔ کریم خان نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو انگریزی حکومت کے حوالے کر دیا ۔

کریم خان نے مع اپنے بچوں کے ساتھ گورکھپور میں رہائش اختار کرلی جہاں اسے زمین دے دی گئی تھی ۔ اس کے اقبال مندی کے خواب فراموش ہو گئے جو اس نے کبھی دیکھے تھے ۔ وہ حیرت انگیز واقعات اور انقلابات جو اس پر گذرے تھے انھیں یاد کرکے کوئی بھی خوش رہ سکتا تھا ۔

تبصرہ[ترمیم]

پنڈاریوں کے ان دو سالاروں کی سوانع عمری پنڈاریوں کی تاریخ کے مطالعہ کے حد از ضروری ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پنڈاریوں تنظیم طاقت ور ہونے کے باوجود ایک قوم کی تشکیل اور اپنی ریاست قائم کیوں کرسکے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی تنظیمی ڈھانچہ تھا جو مستقل بنیادوں پر قائم نہیں تھا ۔ ان کی تربیت ایسی نہیں تھی کہ وہ حملہ کریں یا مزاحمت کریں ۔ ان کی تربیت اس نہج پر تھی کہ لوٹا ماری کریں اور کسی فوج کی آمد پر مقابلہ کرنے کی بجائے فرار ہوجائیں ۔ پنڈاریوں کی معاشرے کوئی عزت یا توقیر نہیں تھی ، حتیٰ ان درباروں جہاں وہ ملازم تھے یا جن کے آلہ کار بنے وہاں بھی فوجیوں سے ان کا درجہ بہت کم تھا انھیں دربار میں بیٹھنے تک اجازت نہ تھی ۔ اگرچہ ہر پنڈواری سردار جس نے عروج حاصل کیا اس کی خواہش رہی کہ اسے معاشرے میں باعزت مقام ملے ۔ مگر ان پنڈواریوں کی تربیت باقیدہ فوجیوں سے بالکل جدا تھی ۔ اس لیے وہ کسی بھی فوج سے مقابلہ نہیں کرسکے اور اپنی اور عادات و خصلت کے باعث کوئی ریاست بھی قائم نہیں کرسکے ۔ کیوں کے اس طرح ان کی مستقل ریاست قائم ہونا مشکل تھا کہ جب تک وہ اپنی عادات سے دست کش نہیں ہوجاتے ، یہ اپنی انہی عادتوں کے باعث کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرسکتے تھے ۔ کیوں کہ ہر ریاست چاہے کتنی ہی غیر منعظم ہو اس اصولوں کے خلاف تھے جو ہر رہاست سے ہمیشہ برسر جنگ رہنے کے لیے بنائے گئے تھے ۔

ایسی ریاستوں میں پنڈاریوں کا رہنا خصوصیت کے ساتھ مخدوش تھا جن میں ان کے مغلوب کرنے سکت نہ تھی اور چونکہ وہ خود باقیدہ قوم بنے کے لائق نہیں تھے اور نہ انھیں امن و امان سے کچھ سروکار تھا ۔ لیکن اس حالت میں وہ کمزور اور ناچار ریاستوں کے لیے نہایت ہیبت ناک بن گئے تھے ۔ لیکن وہ کسی زبردست حکومت کے دلیرانہ حملے کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ۔ ظاہر بینوں کو ان قزاقوں کا استیصال کرنا اگر ناممکن نہیں تھا تو نہایت دشوار ضرور تھا ۔ لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ وہ بغیر مکان اور وسیلہ معاش کے بغیر زندہ رہ نہیں سکتے تھے ۔ اس عظیم انشان اور روز افزوں وبال کا صرف یہی علاج تھا کہ انھیں ان کے مقبوضہ علاقوں سے نکال دیا جائے اور جو لوگ انھیں امداد اور پناہ دیں ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے اور ان کے استیصال کے لیے جو تدابیز اختیار کی گئیں وہ نہایت دانشمندی سے قرار پائیں تھیں ۔ ان پر پورے جوش اور مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا اور نہایت کامیابی کے ساتھ انھیں درجہ تکمیل کو پہنچایا دیا گیا ۔ ہندوستان میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جو پنڈاریوں کا مسکن کہا جا سکتا ہے ۔ وحشی درندوں کی طرح ان کا شکار کیا گیا بے شمار لوگ مارے گئے ان کے جتھے سب تباہ و برباد ہو گئے ۔ لوگوں نے ان کی حمایت کی انھیں شکت دی گئی ۔ شروع سے ہی میں ان سے متعدی بیماری کی طرح نفرت کی جاتی تھی اور ان دیہاتیوں نے پنڈاریوں پر حملہ کرنے میں پیش دستی کی جو ان کے ہاتھ سے ستائے گئے تھے ۔ ان کے خاص سپہ دار مار ڈالے گئے یا انھوں نے اطاعت قبول کرلی یا وہ قید کر لیے گئے اور ان کے ساتھیوں کو گورنمنٹ نے رحم و کرم فرما کر محنتی بن جانے کی امداد دی اور اب وہ عام آبادی میں گھل مل زگئے ہیں جس کے فضلے سے پیدا ہوئے تھے ۔ تفصیلی تحقیقات کرنے پر صرف اس قدر معلوم ہو سکے گا کہ یہ ہیبتناک لٹیرے اب ذلیل اقوام میں مل کرپوشیدہ ہو گئے ہیں اور تجارت و زراعت میں مشغول ہو گئے ۔ اس طرح سے انھوں اپنے گذشتہ مظالم کی تلافی کرنے کی کوشش کی ۔

ان لٹیروں میں کسی قسم کا مذہبی اور نسلی تعصب بالکل نہیں تھا ۔ چونکہ ان میں ہر قوم والے شامل اس لیے انھیں اپنی سپاہیانہ قابلیت اور اپنے خاندان یا وطن پر کبھی ناز یا فخر نہ ہوا اور اس کے لیے وہ اس قسم کے رشتہ میں مربوط نہ تھے جو ہندوستان کی بہت سی اقوام میں ناقابل شکست صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ کسی خراب زمانے میں اور لٹیروں کا پیدا ہونا ممکن ہے ۔ لیکن منتخب جماعت نے پنڈاریوں کا ویسا استیصال کر دیا گیا کہ تقریباً ان کا نام فراموش ہو گیا ہے جس کی بدولت سارے ہندوستان میں خوف و دہشت چھائی ہوئی تھی ۔

ماخذ[ترمیم]

برطانوی عہد حکومت ۔ ایڈریسن

تاریخ وسط ہند ۔ سر جان مالیکم

برطانوی عہد ۔ مولوی ذکا اللہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Pindari"۔ Encyclopædia Britannica۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2016 
  2. ^ ا ب پ ت Historical studies and recreations, Volume 2-By Shoshee Chunder Dutt; pg 340