پودے (رپورتاژ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پود ے کرشن چندر کا ایک رپوتاژ ہے جوغ اردو ادب کی پہلی باقاعدہ رپورثاژ ہے۔

پودے[ترمیم]

کرشن چند ر کا شمار اردو کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ان کے ناول بھی اپنی انفرادیت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی نظریاتی وابستگی ترقی پسند تحریک سے تھی۔ اس تحریک کاآغاز رومانیت کے رد عمل میں ہوا۔ اس تحریک کے ادبیوں نے عام آدمی کی بات کی اور ادب کو زندگی کے نزدیک کرنے کی کوشش کی۔ پودے کل ہند ادبی کانفرنس کی روداد ہے جو ترقی پسند وں کے منشور کو سامنے لانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ اس میں ٹرین کا سفر، وہاں قیام کا بیان مقالے پڑھنے کی کہانی اور واپسی کا سفر شامل ہیں۔ کرشن چندرنے یہ 1940ءمیں لکھی اور 1946ء میں بمبئی کے ایک ادبی جریدہ میں قسط وار چھپی۔

پودے کا مقام[ترمیم]

پودے ”رپورتاژ“ کی پہلی باقاعدہ شکل اپنی ہیئت، ضخامت اور تکنیک، اسلو ب اور تخیلاتی انداز بیان کی وجہ سے ایک معیار کی حیثیت کا حامل ہے۔ 1940ءکی اس کل ہند ادبی کانفرنس کی روداد پر ایک افسانہ، ناول یا ڈراما نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کو دستاویز ی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے کرشن چندر نے شعور ی طور پر رپورتاژ نگاری کو اختیار کیا۔ ہنگامی حالات و واقعات میں انھوں نے شاعرانہ صداقت اور خوبصورتی پیدا کی اور اس طرح ادب کی دوامی قدروں کو پیدا کیا۔ اس رپوتاژ کے دیباچے میں کرشن چندر کی نظریاتی وابستگی نظر آتی ہے۔ جبکہ پودے کے متن میں ایسا نظر نہیں آتا۔ یعنی پودے کو انھوں نے دوامی قدریں بخشنے کی کوشش کی ہے۔

دیباچہ[ترمیم]

اس کتاب کا دیباچہ اپنی نوعیت کا منفرد اور ادبی اسلوب و چاشنی کا حامل ہے۔ ابتداءہی کچھ ایسی ایمائیت اور اشاریت کے ساتھ ہوتی ہے کہ قاری کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ لکھتے ہیں:
کیسی سخت ہوگی وہ زمین جہاں دس سال کی مسلسل عرق ریزی کے بعد پودے اُگیں۔ اور کیسا سخت جان ہوگا وہ بیج جس نے دس سال تک مٹی، دھول، کیچڑ میں لت پت ہونے کے باوجود ارتقاءکی طاقت ضائع نہ ہونے دی یہاں تک کہ اس کا سینہ چاک ہوا اور اس میں سے نئی زندگی کی نرم و نازک و ریشمیں سبز کونپلیں پھوٹ پڑیں۔“

طریقہ کار[ترمیم]

ترقی پسند تحریک کو شروع ہوئے دس سال ہوئے 1936ءسے1946 ءتک کے دس سالوں میں جن مصنفیں نے اس تحریک کو تخلیقی توانائی دی کرشن چندر نے ان کی تصویرکشی نہایت عمدگی سے کی ہے۔ پھر ایک ڈرامائی کیفیت کا آغاز ہوتا ہے ہر کردار کی مکمل شکل سامنے آتی ہے اور ٹرین کا ایک دلچسپ سفر شروع ہوتا ہے۔ کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں خوداپنی ذات کو بھی ایک کردار کی صورت میں ابھارا ہے۔ اور ہلکے طنز و مزاح سے کام لیا ہے۔ اس رپورتاژ میں ایک افسانے، ڈرامے اور کہانی کا لطف ہے۔ اس میں مکالمے، کردار نگاری، منظر نگاری، جزئیات نگاری اور افسانوی انداز بیان سبھی کچھ موجود ہے۔ مزدروں کسانوں کی باتیں، معاشرتی اور معاشی تضادات سے انھوں نے ایک مرتب پلاٹ بنایا ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورتاژ بغیر پلاٹ کے لکھا گیا ہے اور خود کرشن چند نے بھی لکھا ہے کہ میرے افسانوں کی طرح یہ رپورتاژ بھی منتشر اور غیر مرتب ہیں لیکن ہر فنکار کے ذہن میں ایک مرتب تصویر موجود ہوتی ہے۔ اس رپورتاژ کی ابتداءارتقاءاور اختتام سوچا سمجھا اور پہلے سے طے شدہ ہے۔ کیونکہ دوران میں ِ سفر تو صرف نوٹس لینے پر اکتفا کیا گیا ہوگا اور جب اسے ایک شکل دی گئی تو مربوط ور منظم بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کے دل و دماغ پر اس کا اثر بھی نہایت مرتب اور گہرا ہے

پیش لفظ[ترمیم]

رپورتاژ کی منظم اور مربوط رکھنے کی خوبی ممتاز شیریں نے خامی قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں کرشن چندر نے محض افسانوی زیب داستان سے کام لیا ہے۔ لیکن اس اعتراض کی بنیادی وجہ ممتاز شیریں کا ادب برائے فن کے نظرے ے سے وابستہ رہنا ہے۔ جب کہ کرشن چندر ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ اور کرشن چندر نے اس رپورتاژ کے پیش لفظ میں ادب برائے فنکے پجاریوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنی الگ راہ متعین کر لیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ان سب زندہ حقیقتوں سے پرے جا کر جن میں زندگی کی خوشیاں، زندگی کا کرب اور اس کا بیکراں درد چھپا ہوا ہے ان سے بھاگ کر خالی خولی اپنے ذہن کے تاریک گھروندے میں چھپ کر ہم کس طرح اس ادب کی تخلیق کرسکتے ہیں جو انسان کے لیے معراج مسرت ہے اور اس کی آرزوئوں اور تمنائوں کا منبع ہے؟ زندگی سے بھاگ کر نہیں بلکہ اس بے قرار ہر دم بدلتی زندگی کے درمیان میں کھڑے ہوکر اس کی کشاکش اور کشمکش میں حصہ لے کر ہی ہم سچائی اور حسن اور خوب صورتی کی ترتیب و تواتر سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔

جزئیات نگاری[ترمیم]

کرشن چندر کو تخلیقی توانائی پوری طرح نصیب تھی۔ اس رپورتاژ کا اسلوب بھی ان کے رومانی اسلوب سے بھر پور ہے۔ ان کے اسلوب پر جو رومانیت چھائی رہتی ہے اسے وہ اپنے نظریات سے متوازن کر لیتے ہیں پھر ان کی تلخ بات تلخ نہیں لگتی وہ بنیادی طور پر جزئیات نگار ہیں چھوٹی چھوٹی تفاصیل سے تصویر کشی کرتے ہیں جس طرح بچے مختلف ٹکڑوں کی مدد سے تصویر بناتے ہیں بالکل اسی طرح وہ ایک پورا منظر، مکمل نقشہ، آنکھوں کے سامنے کھینچنے پر قادر ہیں۔ رپورتاژ مختلف عنوانات کے تحت چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ پیش ہوئی ہے۔ پہلا حصہ ”بوزی بندر“ کہلایا پھر ”گاڑی میں “ ”حیدرآباد اسٹیشن“” حیدر گوڑہ “ ”اجلاس“ ”بطخوں کے ساتھ شام“ پھر ”واپسی“ اور ”منزل “ اس رپورتاژ کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ پہلے حصہ میں کرشن چندر نے خود کو بوری بندر کے اسٹیشن پر دیر سے پہنچتے ہوئے دکھایا ہے۔ اور ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سب لوگ وہاں کرشن چندر کے دیر سے آنے پر نالاں ہیں ۔

شخصیت نگاری[ترمیم]

اس موقع پر سجاد ظہیر کا تعار ف اور ان کی حلیہ نگاری بھی موجود ہے اس سلسلہ میں کرشن چندر کا قلم جادادوئی کمال دکھا سکتا ہے۔ وہ شخصیت کا احاطہ یوں کرتے ہیں کہ وہ جیتی جاگتی دکھائی دیتی ہے انھوں نے اپنا زور قلم خاکہ نگاری میں نہیں آزمایا ورنہ وہ اس فن میں بھی یکتا ہوتے۔ سجاد ظہیر کی بظاہر روکھی پھیکی شخصیت کو مسکراہٹ کتنا حسین بنا دیتی ہے اس کی تصویر ملاحظہ ہو:
” لیکن جب وہ مسکراتے ہیں تو ذہانت بے نقاب ہو جاتی ہے تبسم ہے کہ ہنستا ہوا کنول ہے، شوخ ہے، خوبصورت ہے، دل کشہے۔ نور کا فوارہ ہے۔ تخیل کا کوندا ہے۔ ذہانت کی لہر ہے، امڈی ہوئی، بل کھاتی ہوئی آگے بڑھتی ہوئی، ہیجانی، سیلابی، طوفانی چشم ذدن میں ایک سیدھے سادے، موٹے روکھے چہرے کو سرسبز و شاداب بنادیتی ہے۔“

افسانوی انداز[ترمیم]

کچھ قلمی تصویریں دوسرے حصے یعنی ”گاڑی میں “ موجود ہیں۔ یہ حصہ انتہائی دلچسپ ہے اور قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس رپورتاژ کو پڑھتا جائے۔ گاڑی میں ہماری ملاقات سید سجاد ظہیر، ڈاکٹر ملک راج آنند،مدن گوپال، سبط حسن، اوپندرناتھ، علی سردار جعفری، رفعت سروش، قدوس صہبائی، عادل رشید، کرشن چندر اور کیفی اعظمی سے ہوتی ہے۔ ہر ایک کا حلیہ، چہرہ حرکات و سکنات پوری طرح ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ یہ ملاقات اگرچہ کرشن چندر کے ذریعے ہوتی ہے لیکن قاری خود کو گاڑی میں محسوس کرتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ ان سب کے درمیان میں بیٹھا ہے ،گاڑی میں مزدور، پارسی تاجر، پارسی لڑکی سب موجود ہیں اور کرشن چندر نے ان سب کا تذکرہ پوری توجہ سے کیا ہے۔ اس حصہ میں افسانوی انداز بھی ان کے قلم پر غالب رہتا ہے وہ لکھتے ہیں:
”ایک خوبصورت ایرانی عورت اپنے خاوند کو الوداعکہہ رہی تھی۔ ایک پارسی لڑکی قو س قزحی ساڑھی پہنے دوسرے درجے میں کھڑی رومال ہلا رہی تھی اور اس کا محبوب پیار بھری نگاہوں سے اُسے تکتا گیا اور گاڑی آہستہ آہستہ چلتی گئی ۔“

منظر نگاری[ترمیم]

حیدرآباد اسٹیشن والے حصہ میں منظر نگاری اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں کرشن چندر گاڑی سے باہر مناظر اور اندر کے نقشے کو پوری کامیابی سے بیان کرنے پر قادر رہے ہیں۔ گاڑی کے اندر ایک اندھے بھکاری کی آمد پر جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پہلے وہ نعت گا کر مسلمان مسافروں سے پیسے وصول کرتا ہے پھر ”مرلی والے گھنشام “ گاتا ہے تو صرف ہندو مسافر اسے پیسے دیتے ہیں۔ اور کرشن چندر کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا گاڑی کے ڈبے میں اک گہری خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے دوقوموں کے درمیان میں، دو نظریوں کے درمیان میں، دو زندگیوں کے درمیان میں، جیسے کوئی سویا ہوا احساس ِ نفرت یکایک بیدار ہو گیا۔ اس طرح کرشن چندر نے اس وقت کی سیاسی فضا کی مکمل نشان دہی بھی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوئوں اور مسلمانوں کے سماجی پرتائو کا بھی ذکر کیا ہے۔

پکچر گیلری[ترمیم]

یہ رپورتاژ ایک پکچر گیلری بھی ہے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
” اس رپورتاژ میں خاکے ہی خاکے ہیں ایک پوری پکچر گیلری ہے جسے کرشن چندر جیسے مصور نے چھوٹی بڑی قلمی تصویروں سے سجایا ہے۔ کرشن چندر نے بخشا کسی کو نہیں ہے۔ زبانی گفتگو میں وہ اتنا طرار نہیں مگر قلم ہاتھ میں آتے ہی اس میں متحرک تصویریں ہواید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔“
کتاب کا یہی حصہ ایسی تصویروں سے مزین ہے جہاں ابراہیم جلیس کا لمبا قداور اس پر ٹوپی، ڈاکٹر عبد العلیم اپنے تلخ انداز جگر حیدر آبادی اپنے روکھے پھیکے اور بے رونق چہرے۔ کیفی اعظمی چرسیوں جیسے حلیے، رفعت سروش اپنی معصومیت، سردار جعفری اپنے رعب و دبدبے اور سجاد ظہیر اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ موجود ہیں اور قاری کو اپنی رفاقت سے محظوظ کراتے ہیں۔

اجلاس[ترمیم]

پھر حیدر گوڑہ میں پہنچنے کے بعد کرشن چندر کی ملاقات جگر حیدر آبادی سے ہوتی ہے جو ان کی نفر ت کا مرکز بن جاتے ہیں کرشن چندر کو ان کی شکل و صورت اور ہر حرکت سے پریشانی ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ ایک رضاکار کے طور پرکانفرنس میں شریک ہر ادیب کی خدمت کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ اس حصے میں اجلاس کی کارروائی پیش کی گئی ہے جس کانفرنس کا افتتاح سروجنی نائیڈو جیسی شعلہ بیان خاتون کرے اس کی کامیابی کا یقین سب ہی کو ہونا تھا۔ اور پھر کانفرنس کے اس احوال نامے میں کرشن چندر اپنی ستائش میں مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ کانفرنس میں شریک دوسرے ادیبوں کے مقالوں کا حال تفصیل سے نہیں لکھتے صرف اپنی ذات کو محور بنائے رکھتے ہیں۔ کرشن چندر لکھتے ہیں کہ کوئی مشاعرہ نہ تھا خطیبانہ انداز تکلم نہ، کوئی گہری فلسفہ طرازی نہ تھی لیکن لوگ دم بخود بیٹھے تھے اور ہمہ تن گوش سن رہے تھے ۔
اس کانفرس کے بعد پرانے محل میں جاتے ہیں اور بطخوں کے ساتھ ایک شام گزارتے ہیں۔ محل کے حسین نظارے، شان و شوکت اور امارات کا ذکر بڑی خوبی سے کیا گیا ہے اور قاری خود کو اس فضا کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ پھر واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے اور یہی وہ حصہ ہے جہاں کرشن چندر کا افسانوی اندا ز اپنی جولانیاں دکھانے لگتا ہے۔ اور وہ جگرحیدرآبادی جو اُن کے لیے نفرت کا مرکز رہا ہے اچانک رپورتاژ کا ہیرو بن جاتا ہے۔ جو اپنی بہن کے علاج کے لیے جمع کی گئی دو سو کی رقم کانفرنس کے لیے دیتا ہے اور اس کی بہن مناسب علاج نہ ہونے کے باعث جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتی ہے۔

ترقی پسندوں کی منزل[ترمیم]

اس حصے میں کرشن چند کو ترقی پسندوں کی منزل بھی ملتی ہے۔ کہ اگر انھیں منزل تک پہنچنا ہے تو اپنے مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی۔ ایثار، قربانی سے اس تحریک کو زندہ رکھنا ہوگا۔ کرشن چندر یوں رقمطراز ہیں :
اُ س کی بہن اچھی خوراک اور مناسب دوانہ ملنے سے سسک سسک کر جان دے دے۔ لیکن کتاب زندہ رہے۔ زبان زندہ رہے، قوم کی روح زندہ رہے۔ اُس کی پیاری پیاری املی کھانے والی امردوتوڑ توڑ کر چرا کر کھانے والی، اُس کے بچپن کی ساتھی بہن مرجائے، لیکن کالی داس زندہ رہے، غالب زندہ رہے، اقبال زندہ رہے۔ پریم چند زندہ رہے۔ موت اُ س کی بہن کے ہونٹوں کو یخ بستہ کر دے اور اُس کی آنکھوں کو بے نور کر دے لیکن زندگی اور اس کا زندہ ادب اپنے نور سے اپنی حرارت سے اور ایمان سے لاکھوں دلوں کو روشن کر دے۔“
رپورتاژ کا یہ حصہ کتاب کو ایک ادبی دوام بخشا ہے اور اسے نئی جہت عطاکرتا ہے اور اس کی دلچسپی اور دلکشی کو بڑھا دیتا ہے۔ یہاں سے کرشن چندر کو ترقی پسندوں کی منزل دکھائی دیتی ہے۔ ”باہر گاڑی بھاگی جا رہی ہے۔ لیکن اندر سکون تھا۔ باہر چاروں طرف اندھیرا تھا لیکن گاڑی کے اندر روشنی تھی۔ باہر راستہ تاریک اور دشوار گزار تھا لیکن اندر منزل معلوم ہو چکی تھی۔“

مجموعی جائزہ[ترمیم]

مختلف تلازموں، شعور کی رو کی تکنیک، منظر نگاری، جزئیات نگاری، خاکہ نگاری اور انتہائی رواں اسلوب نے اس رپورتاژ کو صحافت سے الگ کرکے ایک ادبی دستاویز بنا دیا ہے اور اسے ایک دوامی قدر بخشتی ہے اور اس کی اہمیت اور حیثیت نہ صرف اولین ہونے کا باعث ہے بلکہ مکمل اور معیاری ہونے کی وجہ سے اسے آئندہ کے لیے نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔