پیرس امن کانفرنس 1919ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
"چار عظیم قوتوں" کے سربراہ (دائیں سے بائیں) ووڈرو ولسن، جارج کلیمانسو، وتوریو اورلاندو اور ڈیوڈ لائیڈ جارج

پیرس امن کانفرنس پہلی جنگ عظیم میں 1918ء کی عارضی صلح کے بعد شکست خوردہ محوری قوتوں کے لیے امن کی شرائط متعین کرنے خاطر منعقدہ اتحادی فاتحین کا ایک اجلاس تھا۔ یہ اجلاس 1919ء میں فرانس کے دار الحکومت پیرس میں منعقد ہوا اور اس میں 32 ممالک اور قومیتوں کے نمائندے موجود تھے جنھوں نے ملاقات اور غور و خوض کے بعد معاہدوں کا ایک سلسلہ مرتب کیا۔ ان معاہدوں نے یورپ میں نئی سرحدیں و ممالک اور جمعیت اقوام تشکیل دیں، جرمنی پر جنگ کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اس پر سخت مالی ہرجانے لگائے۔ اس کے علاوہ شکست خوردہ محوری قوتوں کی افریقا، جنوب مغربی ایشیا اور بحر الکاہل میں موجود نو آبادیات کے فاتح اتحادی قوتوں نے حصے بخرے کرتے ہوئے آپس میں تقسیم کر لیا گیا۔

اس پورے سلسلے کا مرکز و محور "چار قوتوں" کے رہنما تھے: امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج، فرانس کے وزیر اعظم جارج کلیمانسو اور اطالوی وزیر اعظم وتوریو اورلاندو۔ اطالوی وزیر اعظم آخر میں اجلاس چھوڑ گئے تھے اور معاہدہ ورسائے کی حتمی دستاویز کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جرمنی اور روس کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو ہی نہیں کیا گیا، لیکن دیگر کئی اقوام نے اپنے وفود بھیجے، جن میں سے ہر کسی کے اپنے مفادات تھے۔

چھ ماہ تک پیرس عالمی حکومت کا مرکز بنا رہا اور "صلح کار" اقوام نے دیوالیہ سلطنتوں کا تیا پانچہ کرتے ہوئے نئے ممالک تخلیق کیے۔ سب سے اہم نتیجہ جرمنی کو قصور وار ٹھیرانا تھا جس کے نتیجے میں عائد کردہ پابندیوں سے جرمنی کی قوت کمزور پڑی اور اسے جنگ کے تمام اخراجات بھی فاتحین کو ادا کرنا پڑے۔ جرمنی کو قصوروار ٹھیرانے کی یہ شق معاہدہ ورسائے میں بھی شامل کی گئی۔ آسٹرو-ہنگرین سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا جسے مختلف اقوام کی نئی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا۔ ان نتائج سے غیر مطمئن اور اپنے آئین سے متصادم ہونے کی وجہ سے امریکا نے معاہدہ ورسائے کو سرے سے تسلیم نہ کیا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں بننے والی جمعیت اقوام میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی جگہ امریکا نے ان تین ممالک کے خلاف الگ امن معاہدے کیے جن کے خلاف اس نے اعلان جنگ کیا تھا۔ اس حوالے سے مورخین میں اختلاف ہے کہ یہ شرائظ جرمنی میں نازی قوتوں کے عروج اور بعد ازاں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا سبب تو نہیں بنیں۔ چند مورخ اس تاثر کے حامی ہیں جبکہ اس کی مخالفت کرنے والوں کے بھی اپنے دلائل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کا مقصد جمہوریت، سالمیت، آزادی اور حق خود ارادیت کو ترجیح دینا تھا جبکہ برطانیہ اور فرانس اپنی نو آبادیاتی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے ان اصولوں کے قائل نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے پیرس امن کانفرنس کے حتمی نتیجے معاہدہ ورسائے کو تسلیم نہ کیا ۔

18 جنوری 1919ء کو شروع ہونے والی یہ امن کانفرنس 21 جنوری 1920ء کو جمعیت اقوام کی جنرل اسمبلی کے پہلے اجلاس کے ساتھ تمام ہوئی۔ مجموعی طور پر پیرس امن کانفرنس میں یہ مشہور معاہدے ہوئے: