پیر جندوڈا شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیر جندوڈا شاہ (محمد سدید الدین) کا تعلق عیسی خیل کے خانودہ سادات سے تھا۔ آپ سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوئ کے خلیفہ خاص تھے۔

محمد سدید الدین جندوڈا شاہ
ذاتی
پیدائش(1254ھ بمطابق 1838ء)
وفات(جمعتہ المبارک 7 ربیع الثانی 1334ھ بمطابق 12 فروری 1916ء)
مذہباسلام
والدین
  • معظم علی شاہ (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاموڑچھہ شریف خوشاب
دورانیسویں ، بیسویں صدی
پیشروشمس الدین سیالوی
جانشینغلام دستگیر شاہ

ولادت[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ کا اصل نام محمد سدید الدین تھا۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید معظم علی شاہ تھا۔ خواجہ شمس الدین سیالوی نے پہلی بار سیال شریف آمد پر آپ کو جندوڈا شاہ کہا تھا۔ پھر آپ کے اصل نام کی بجائے مرشد کامل کا دیا ہوا نام مشہور ہو گیا۔ [1] محمد سدید الدین کی ولادت 1254ھ بمطابق 1838ء کو عیسی خیل ضلع میانوالی میں ہوئی۔ آپ سادات گیلانی کے عظیم فرد تھے۔ آپ کے اسلاف میں بڑے قد آور بزرگ گذرے جو علم و فقر یگانہ روزگار تھے۔

سلسلہ نسب[ترمیم]

محمد سدید الدین شاہ کا تعلق شیخ عبد القادر جیلانی کے اخلاف میں سے ہے۔ آپ کا شیخ عبد القادر جیلانی تک شجرہ نسب کچھ یوں ہے۔

  • خواجہ پیر جندوڈا شاہ (سدید الدین) بن سید معظم شاہ بن سید دولت شاہ بن غوث زماں سید پیر شاہ زماں بن سید حضور شاہ بن سید کریم شاہ بن سید محمد شاہ بن سید عبد اللہ شاہ بن سید رجب شاہ بن سید حبیب شاہ بن سید پیر عبد الرحمن شاہ دہلوی بن سید عبد الطیف شاہ بن سید عبد القادر ثانی بن سید احمد شاہ بن سید یاسین شاہ بن سید شمس الدین شاہ بن سید ابو الصالح نصر شاہ بن سید عبد الرزاق شاہ بن محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی

تعلیم[ترمیم]

محمد سدید الدین نے ابتدائی تعلیم عیسی خیل میں حاصل کی۔ بڑے بڑے علما اور قاضی خاندان کے بزرگوں سے تعلیم حاصل کی۔ تکمیل مکھڈ شریف کے اپنے دور کے مشہور درس گاہ سے کی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

جب جندوڈا شاہ نے مکھڈ شریف سے دستار فضیلت حاصل کی تو بات کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت خواجہ شمس العارفین سیالوی کی شہرت سن کر سیال شریف حاضر ہوئے۔ خواجہ سیالوی پہلے ہی کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس طرف (عیسی خیل) سے خوشبو آتی ہے۔ چنانچہ آپ حاضر بارگاہ ہوئے تو خواجہ سیالوی نے پہچان لیا اور بڑی کرم فرمائی۔ جندوڈا شاہ کو خواجہ سیالوی نے بیعت کیا اور خرقہ خلافت بھی عطا کیا۔

درس و تدریس[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ خلافت عطا ہونے کے بعد رشد و ہدایت کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔ شرح جامی، ہدایہ اولین اور مشکوة شریف تک کتابیں خود پڑھاتے تھے۔ طالبان علم و عرفان ان سے استفادہ کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ [2]

وڑچھہ شریف میں قیام[ترمیم]

وڑچھہ شریف سیکسر پہاڑ کے دامن میں ایک آباد بستی ہے۔ وڑچھہ کی بستی کے ایک آدمی نے بھیرہ شریف سے ایک عورت کو اغواہ کر کے لے آیا تھا۔ اس عورت کے ورثا نے میراں سید محمدی قادری بھیرہ شریف کی بارگاہ میں عرض پیش کی۔ آپ خود وڑچھہ چل کر آئے اور ان لوگوں کو کہا مغوی عورت کو واپس کر دو لیکن ان بد بختوں نے نا ہی عورت واپس کی بلکہ نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے۔ اللہ کے ولی کو غصہ آ گیا اور ان لوگوں کو بدعا دی وڑچھہ بھک دا کڑچھا۔ اس کے بعد ان لوگوں کی زندگیاں برباد ہو گئیں کیونکہ پوری بستی میں بھوک و افلاس چھا گئی۔ اس بستی کے کچھ لوگ سیال شریف میں خواجہ محمد الدین سیالوی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے بڑوں کے کیے پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا۔ خواجہ ثانی سیالوی نے پیر جندوڈا شاہ کو فرمایا کہ ان کے ساتھ چلے جاؤ۔ پیر جندوڈا شاہ وڑچھہ گئے اور ان لوگوں کے لیے دعا کی۔ آپ نے ادھر مستقل سکونت اختیار نہیں کی۔ پھر بستی کے لوگ خواجہ ثانی سیالوی کی خدمت میں پیر جندوڈا شاہ کی مستقل سکونت کی درخواست کی۔ خواجہ ثانی سیالوی کے کہنے پر آپ وڑچھہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آپ کی برکت سے بستی کا نام وڑچھہ شریف ہو گیا۔ [3] وڑچھہ شریف کے لوگوں نے بہت سی زمین آپ کو دے دی اور وہی آپ نے ڈیرہ لگا لیا۔ عیسی خیل کے لوگ آپ کو لینے کے لیے آئے تو فرمایا مجھے یہی رہائش کا حکم ملا ہے۔ میری قبر بھی یہی بنے گی۔ تم لوگ واپس چلے جاؤ۔

شعر و شاعری[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ نعت گو شاعر تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد عبد اللہ سیالوی نے ایک مرتبہ خواجہ غلام فخر الدین گیلانی (پیر جندوڈا شاہ کے پوتے) سے فرمایا کہ شاہ صاحب آپ کے دادا سید جندوڈا شاہ عیسی خیلوی پنجابی زبان کے بہت بڑے، نامور اور اچھے شاعر تھے۔ میں نے ان سے اس فن میں اصلاح لی ہے۔ شاعری میں وہ میرے استاد تھے۔

کرامات[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ سے ہزاروں کرامات کا ظہور ہوا۔ جہاں تشریف لے جاتے ہزاروں کا ہجوم ہوتا۔ جس مرید کے گھر کھانے کا بندوبست ہوتا پہلے تو آپ کے ساتھ تھوڑے آدمی دیکھ کر وہ لوگ اتنے آدمیوں کا انتظام کرتے لیکن آپ کی برکت سے طعام میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں پر پورا ہوجاتا۔

  1. آپ ایک مرتبہ عیسی خیل سے ضلع بنوں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک آدمی نے عرض کیا حضور میرا بيل ہل چلاتے وقت بیٹھ جاتا ہے اس کے لیے دعا کریں یا کوئی تعویذ دیں کہ اس کی برکت سے وہ نہ بیٹھے۔ فرمایا تم اسے جا کر کہنا کالی گھوڑی کے سوار نے تمھیں یہ پیغام دیا ہے کہ تم نہ بیٹھا کرو۔ چنانچہ جب تین دن کے بعد آپ واپس ہوئے تو وہی شخص اسی جگہ پر کھڑا آپ کے انتظار میں تھا۔ عرض کی حضرت جب سے میں نے آپ کا پیام بیل کو دیا ہے وہ نہیں بیٹھا دن رات میں کسی وقت بھی نہیں بیٹھتا۔ فرمایا پھر جا کر اس کے کان میں کہو کہ تمھیں وہی کالی گھوڑی والا کہتا ہے کہ میں نے صرف ہلوں کے لیے کہا تھا دوسرے اوقات میں تم بیٹھ سکتے ہو۔ تب جاکر اس بیل نے بیٹھنا شروع کیا۔
  2. ایک دفعہ نور پور تھل آپ تشریف فرما ہوئے تو ہزاروں کا مجمع ہو گیا۔ ایک بدبخت نے کہا آج کل کے پیروں نے پکهنڈ بنایا ہوا ہے۔ حقیقت کوئی نہیں۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے۔ اس نے پھر دہرایا۔ آپ نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا۔ جب وہ باز نہ آیا اور بار بار اس بات کو زور زور سے کہنے لگا تو آپ نے فرمایا : میاں سارے پیر مکھیاں نہیں ہوتے۔ پھر اس کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اس کے قلب پر نظر کی تو اس کا قلب سینے سے باہر آگیا اور وہ اللہ ھو اللہ ھو کہتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر سینکڑوں ہندو اور سکھ جو اس وقت موجود تھے مسلمان ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔
  3. ایک مرتبہ وڑچھہ شریف کے باہر سے ڈیرہ پر تشریف فرما ہوئے۔ ایک اشتہاری مجرم بھی آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہو گیا تو کسی مخالف نے تھانہ میں اطلاع کر دی۔ چنانچہ پولیس نے چھاپہ مار کر اس مجرم کو ہتھکڑی لگالی۔ آپ کو جب علم ہوا تو فرمایا تھانیدار کو میرے پاس بلاو۔ جب وہ حاضر ہوا۔ فرمایا تھانیدار صاحب! آپ نے اسے کیوں ہتھکڑی لگائی ہے؟ وہ عرض کرنے لگا کہ یہ اشتہاری مجرم ہے۔ ہمیں اطلاع ملی ہے اور ہم اس کے نام کا وارنٹ لے کر آگئے ہیں اور اسے قانونی طور پر گرفتار کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ وارنٹ کہا ہے؟ انھوں نے آپ کے ہاتھ میں دے دیا۔ آپ نے اسے ایک نظر دیکھا کہ یہاں پر اس کا نام تو نہیں ہے؟ یہ صاف کاغذ ہے۔ آپ اسے وارنٹ بنا کر اس کو خلاف قانون گرفتار کس لیے اور کیوں کر رہے ہیں؟ تھانیدار گھبرا گیا کہ ابھی تو میں تھانہ کے محرر سے لکھوا کر لے آیا ہوں۔ فرمایا دیکھو۔ جب دیکھا تو اس کا واقعی نام نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا کہ حضرت! میرا سپاہی ابھی تھانہ سے ریکارڈ پر سے دوبارہ لکھوا کر لے آتا ہے۔ فرمایا تو پہلے ریکارڈ سے نہیں لکھوا کے لایا تھا؟ عرض کیا ریکارڈ پر سے دیکھ کر لکھوا کے لایا تھا۔ فرمایا جاؤ جس آنکھ کی برکت سے اس کاغذ پر لکھا ہوا مٹ گیا ہے ریکارڈ پر بھی نہیں رہا۔ اسے چھوڑ دو۔ چنانچہ انھوں نے ریکارڈ پر جاکر تصدیق کی کہ واقعی اس کا نام نہیں ہے تو حیران ہوکر معافی مانگی اور اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح وڑچھہ شریف اور علاقہ بھر کے لوگ متاثر ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مرید ہو گئے۔

سیرت[ترمیم]

محمد سدید الدین المعروف پیر جندوڈا شاہ بے حد خوبصورت اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے جو بات نکلتی تھی وہ اللہ تعالی کی تقدیر ہوتی تھی۔ ان کے اردگرد بیٹھنے والوں کا بیان ہے کہ ہم سے باتیں کرتے کرتے رجال الغیب سے باتیں کرنے لگ جاتے تھے۔ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے تھے۔ کتاب و سنت اور شریعت مطہرہ کے پابند تھے۔ نماز تہجد آخر دم تک سردیاں ہو یا گرمیاں ہمیشہ نہا کر پڑھتے تھے۔ بہترین اخلاق کے مالک تھے۔ اپنے شیخ سے والہانہ محبت تھی۔ گویا اپنے شیخ کے دیوانے تھے۔ محبت خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سرشار تھے۔ نہایت خوشخط تھے۔

تصانیف[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ کی تصانیف اور اشعار مجموعہ محفوظ نہ رہی سکیں۔ آپ کی تصانیف میں حلیہ مبارک، جھلک شریف ، بار ماہ پنجابی اور منظوم سلسلہ چشت خواجگان شامل ہیں۔ ان سب کو مولانا محمد حیات متوطن جمالی خوشاب نے ایک کتاب مجموعہ ہائے چھ کے نام سے شائع کروائی۔

وصال[ترمیم]

پیر جندوڈا شاہ اپنی عمر کے آخری ایام میں علاج کی غرض سے بھیرہ شریف جاتے رہتے تھے۔ آپ کا وصال 7 ربیع الثانی 1334ھ بمطابق 12 فروری 1916ء بروز جمعتہ المبارک کو وڑچھہ شریف ضلع خوشاب میں ہوا۔ آپ کی تدفین وڑچھہ شریف میں کی گئی۔ آپ کا خوبصورت مزار آپ کے بیٹے نے بنوایا تھا۔ آپ کا عرس ہر سال 5، 6 اور 7 ربیع الثانی کو منعقد کیا جاتا ہے۔

اولاد[ترمیم]

آپ کی اولاد میں صرف ایک بیٹا شامل تھا۔

  1. غلام دستگیر شاہ [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 288 تا 290
  2. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 200 تا 203
  3. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 191 ، 192
  4. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 203 تا 206