چند ماحولی خطرات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مغربی ممالک نے مدد کے نام پر تیسری دنیا کے غریب ممالک کو اپنی ضائع شدہ اشیاءکا ڈسٹ بن بنا دیا۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں من الیکٹرونک کوڑا جس میں کمپیوٹر، مانیٹر، کی بورڈ ،موبائل فون ،ٹی وی، ریفریجریٹرز اور دیگر اشیاءشامل ہیں آتا ہے جو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے نہ صرف خارج ہونے والی انتہائی مہلک گیسوں کی وجہ سے کینسر جیسے موذی امراض کا سبب بن رہا ہے بلکہ فضائی اور زمینی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کوڑے سے نکلنے والی سونا اور چاندی جیسی قیمتی دھاتوں کے لالچ میں مقامی تاجر اس کوڑے کے نقصانات سے بے خبر اس کی درآمد میں ہر سال اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ آئندہ 10/15سال بعداس کے نتیجے میں ہونے والے گھمبیر اثرات سے بے خبر سرکاری ادارے اس کے تدارک کے لیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کر رہے۔ صرف برطانیہ کی ساﺅتھ ویلز کمپنی نے گذشتہ برس 40لاکھ کمپیوٹر، 5لاکھ ٹیلی ویژن ،30لاکھ ریفریجریٹر، 40لاکھ دیگر الیکٹرک اشیاءاور 2کروڑ موبائل فون پر مشتمل کوڑا کرکٹ تیسری دنیا کے ممالک میں برآمد کیا جبکہ امریکا میں2001میں تقریباً4کروڑ کمپیوٹر متروک ہوئے جو دس گنا کم قیمت پر پاکستان، بھارت اور چین کو فروخت کیے گئے اور ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں اب ہر سال 6کروڑ سے 8کروڑ کے قریب کمپیوٹر متروک ہو جاتے ہیں جن میں سے دو تہائی ایشیاءمیں برآمد کر دئے جاتے ہیں۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپ میں صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا تو کارخانوں سے نکلنے والے سکریپ نے وہاں کے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے جبکہ کمپیوٹر کی صنعتی پیدوار کے بعد دوران تیاری ٹوٹ پھوٹ پر مشتمل اور پرانے ہو جانے والے مال نے مغرب کے ان مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا جبکہ وہاں پر اس مال کی ری سائیکلنگ یعنی اسے دوبارہ قابل استعمال کرنے کے لیے کئی گنا زیادہ اخراجات آتے تھے جبکہ وہاں کے قوانین اور ان پر عملدرآمد کی وجہ سے ان کے سرمایہ داروں کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا چنانچہ یورپی صنعت کاروں نے اس سکریپ کی زائد مقدار کو خوش حالی اور ترقی کے نام پر افریقی ممالک میں فروخت کرنا شروع کر دیا مگر جب افریقہ میں اس ضائع شدہ اور مضر صحت الیکٹرونک سکریپ سے بیماریاں پھیلنے لگیں تو افریقی عوام اس کے خلاف ہو گئے اور سماجی تنظیموں نے اس کی درآمد کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا یہ احتجاج اتنے جاندار اور موثر تھے جس پر 1992میں یورپی کمپنیوں اور افریقی ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا جس کے تحت افریقہ میں اس سکریپ(ویسٹ) پر درآمد پر پابندی لگ گئی۔ چنانچہ یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے اس ویسٹ کو (Dump)ڈمپ کرنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو انھوں نے جنوبی ایشیاءکا رخ کر لیا اور پھر ان ممالک سے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین میں ہر سال لاکھوں ٹن الیکٹرونک کوڑا اور دیگرسکریپ آنا شروع ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں کے جس کے تحت کوئی ایسا سکریپ ملک میں داخل نہیں ہو سکتا جو انتہائی خطرناک ہو اور عوام کی صحت کے لیے مضر ہو مگربعض اداروں کے کچھ اہلکاروں کی وجہ سے اس کی درآمد بآسانی ہو رہی ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر تمام شہروں میں یہ کوڑا جگہ جگہ نظر آتا ہے جس کو بعض پلاسٹک کا کام کر نے والے افراد خرید کر اسے پگھلاتے ہیں تاکہ اس سے تیار ہونے والے پلاسٹک دانہ سے دیگر چیزیں بنائی جائیں جبکہ کمپیوٹر کے کوڑے سے سونا اور چاندی جیسی دیگر قیمتی دھاتیں بھی اس کاروبار کے بڑھانے میں ایک اہم وجہ ہے۔ یہ لوگ اسے اپنی فیکٹریوں جو زیادہ تر بند روڈ ،شفیق آباد ،ملتان روڈ، فیروز پور روڈ ،شاہدہ اور فیروز والہ میں واقع ہیں لے جاتے ہیں جبکہ بعض افراد نے ایسی لیبارٹریاں فیصل ٹاﺅن اور دیگر شہری علاقوں میں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ اس کوڑے کو نہصرف کھلی جگہوں پر جلاتے ہیں بلکہ مختلف کیمیکلز میں ڈال کر اس سے دھاتیں علاحدہ کرتے ہیں اس سارے عمل میں ٹیٹینیم، بیریلیم، ویناڈینیم ،یوٹیریم اور سیلینیم جیسی دھاتوں کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیس کینسر جیسی موذی کا مرض بن رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور کے گرد و نواح میں ہر ماہ 25سے30ٹن پلاسٹک نکالا جاتا ہے اور بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہی حال دیگر شہروں کا بھی ہے ،اس سکریپ سے کالا شاپر جیسی دیگر مصنوعات بنائی جاتی ہیں جبکہ اس کا بچنے والا گند نالوں اور ندیوں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف فضائی بلکہ زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے اور فضا گندی ہونے کی وجہ سے سانس اور گلے کی دیگر بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ اور اگر یہ صورت حال ایسی ہی رہی تو آئندہ دس سالوں کے بعد تمام خطہ آلودہ ہو جائے گا اور قوم کاہر فرد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا اور ایک ایسا گھمبیر مسئلہ بن جائے گا جس کی روک تھام بہت مشکل ہو جائے گی مگر متعلقہ سرکاری ادارے قوانین ہونے کے باوجود اس کی بندش کے لیے کئی مناسب اقدامات نہ کر سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 27کلو کمپیوٹر کے کوڑے میں سے پلاسٹک 6.26کلو،لیڈ1.72کلو،سیلیکا 6.8کلو، ایلمونیم 3.86کلو،لوہا 5.58کلو، تانبہ 1.91کلو ،نکل 0.23کلو، زنک 0.6کلو، ٹن 0.27کلو گرام نکلتی ہے جبکہ سونا، چاندی ،آرسینک، مرکری، انڈیم، یٹریم، ٹیٹا نیم، کوبالٹ، کرومیم، کیڈ میم، سیلینیم، بیریلیم ،ٹیٹا لم، ویناڈیم اورایروپیم کی بھی خاصی مقدار نکلتی ہے۔ ڈاکٹر غلام فرید کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر اور دیگر اشیاءکے کوڑے کو جب نمک اور گندھک کے تیزاب کے علاوہ پوٹاشیم سائینائیڈ جیسے خطر ناک کیمیکل سے پگھلایا جاتا ہے تو اس کیمیائی رد عمل کے نتیجے میں انتہائی مہلک گیسز خارج ہوتی ہے جس سے کینسر جیسی مہلک اور ناقابل علاج بیماری پھیلتی ہے بلکہ گلے ،سانس، پھیپھڑے اور سینے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں جبکہ نوزائیدہ بچوں میں جسمانی نقائص بھی پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پلاسٹک دانہ بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی اکثریت ان بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ جبکہ ضلعی محکمہ ماحولیات کے انسپکٹر محمدیونس زاہد کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسے متعدد کارخانوں کو بند کرنے کا نوٹس دے دیا ہے جو شہری آبادی میں مضر صحت ماحول کو بڑھا رہے ہیں جبکہ انھوں نے بتایا کہ ری سائیکلنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زہریلی گیسوں سے نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات، پرندوں اور دریائی مخلوق پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ہمارا محکمہ اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کر رہا ہے۔ اس بارے میں کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ کسٹم قوانین کے مطابق ہر وہ چیز درآمد کرنا ممنوع ہے جو بین الاقوامی بیسل کنونشن کے تحت ممنوع ہیں۔ اورجوخطرناک اور مضر صحت ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بعض کاروباری لوگ قابل استعمال پلاسٹک کے نام پر کمپیوٹر سکریپ درآمد کرتے ہیں مگر ہمارا محکمہ ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کی ساﺅتھ ویلیز کمپنی نے لاہور میں چند ایک کنٹینرزبھیجے جو یہاں کی ایک پارٹی نے منگوائے تھے اور ان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ ان میں پیکنگ میٹریل ہے مگر جب کسٹم حکام نے انھیں چیک کیا تو ان میں سے کمپیوٹر کی سکریپ نکلی جو واپس بھجوا دی گئی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہم اس بارے میں مزید سخت اقدامات کر رہے ہیں جس سے غیر قانونی اشیاءکی درآمد بند ہو سکے۔ میو ہسپتال کے قریب کمپیوٹر سکریپ کے ایک کباڑی محمد اعجاز نے بتایا کہ ہم سے نہ صرف بند روڈ کے تاجر سکریپ خریدتے ہیں بلکہ فیصل ٹاﺅن کا ایک کاریگر جس کا نام بھولا سنارا ہے خریدتا ہے جو اس کوڑے کو کیمیکل کے ذریعے اس میں سے سونا اور چاندی کے علاوہ دیگر دھاتیں نکالتا ہے اور چند ماہ قبل اسے ایک پارٹی انگلینڈ لے گئی ہے۔ بند روڈ کے رہائشی حبیب اللہ اور محمد اکرم نے بتایا کہ ہمارے گھر کے قریب رات ہوتے ہی پلاسٹک جلنا شروع ہو جاتا ہے جس سے سانس لینا بھی دوبھر ہوتا ہے جبکہ ہم سب کو کھانسی، دمہ اور جلد کی بیماریاں لاحق ہیں،انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں دیگر ایسے کارخانے بھی ہیں جن سے دیگر بدبو دار گیسیں نکلتی ہیں ہم نے متعدد بار متعلقہ اداروں کو درخواستیں دیں کہ آبادی سے ان کارخانوں کو منتقل کیا جائے مگر ہماری درخواست پر کوئی عمل نہ ہوا۔ گوجرانوالہ کے رہائشی خدا بخش نے بتایا کہ سکریپ کا پورے پاکستان سے زیادہ کام ہمارے شہر میں ہوتا ہے اور شیخوپورہ روڈ پر بڑی بڑی فیکٹریاں دن رات موت کا دُھواں اگل رہی ہیں مگرکوئی روک تھام کرنے والا نہیں ہے ۔ ماحولیات سے متعلق ایک تنظیم کے رکن کر امت علی شمس نے بتایا کہ کمپیوٹر سکریپ کے علاوہ دیگر قسم کی پلاسٹک بھی درآمد ہو رہی ہے جس میں متعد د یورپی ملٹی نیشنل فوڈ کمپنیوں کی سکریپ ریپر کی شکل میں درآمد ہو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس میں جعلی کھانے پینے اور خصوصاً بچوں کی چاکلیٹ، ٹافی اور گولیاں پیک کر کے بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہوتی ہیں جس سے بچوں میں نت نئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے خلاف ہم نے 1992میں وفاقی محتسب کو ایک درخواست بھیجی جس پر جسٹس ( ر) پیر عثمان علی شاہ نے اس کی درآمد پر پابندی لگانے کے علاوہ دیگر محکموں کو اس کے مستقل تدارک کے لیے ہدایت کی تھی مگر اس پر آجتک عمل نہیں ہو سکا۔