چودھری جلال الدین اکبر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چودھری جلال الدین اکبر
معلومات شخصیت
پیدائش ستمبر1905ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گورداسپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 مئی 1988ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1905–اگست 1947)
پاکستان (اگست 1947–8 مئی 1988)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ معلم ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

چوہدری جلال الدین اکبرؔ (پیدائش: ستمبر 1905ء– وفات: 8 مئی 1988ء) اردو زبان کے نامور شاعر اور معّلَّم تھے۔

سوانح[ترمیم]

پیدائش و ابتدائی حالات[ترمیم]

اکبر کا پیدائشی نام چوہدری جلال الدین اکبر تھا۔ پیدائش ستمبر 1905ء میں ہفتہ کے روز گورداس پور میں ہوئی۔آبائی علاقہ علی وال نہراں والا ، ضلع گورداس پور تھا۔ آپ کے والد چوہدری فتح علی شہ زوری (پہلوانی) میں شہرۂ آفاق تھے اور سیرِ چشمی اور فیاضی کی بدولت اپنے علاقہ میں شہرت رکھتے تھے۔یہاں تک کہ یہ سخاوت اور فیاضی غلط بخشی کی حد تک پہنچ گئی تھی اور آپ اپنی جائداد وغیرہ اپنے اقرباء کو دے کر خود ساری عمر افلاس و عسرت میں بسر کرتے رہے۔[1]

تعلیم و ملازمت[ترمیم]

اکبر نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں نہراں والا سے حاصل کی اور میٹریکولیشن کا امتحان ایم بی ہائی اسکول، گوجرہ سے پاس کیا۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج ، لاہور میں داخلہ لے لیا جہاں سے بی اے (آنرز) کا امتحان پاس کیا۔ طالب علمی کے دوران تقریباً ہر درجہ میں خداداد ذہانت کی وجہ سے وظیفہ پاتے رہے۔ چونکہ ابتدا سے طبیعت علمی و تعلیمی زندگی کی جانب راغب تھی، اِسی لیے سینٹرل ٹریننگ کالج، لاہور سے معلَّمی کی سند حاصل کرکے 1930ء میں اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ دروازہ، لاہور میں ملازمت اِختیار کرلی۔ بعد ازاں انجمن حمایت اسلام، لاہور کے ایک مقامی اسکول میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہو گئے[2]۔اور اِسی عہدے سے 1970ء میں اسلامیہ ہائی اسکول، ملتان روڈ، لاہور سے ریٹائر ہوئے۔[3]

وفات[ترمیم]

وفات سے چند سال پہلے اکبر کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور آپ ضعفِ جسمانی کے باعث صاحب فراش ہو گئے۔مؤرخہ 8 مئی 1988ء کو تقریباً 2 بجے دوپہر کے بعد اِنتقال کرگئے۔ تدفین لاہور کے موضع ڈھولن وال میں کی گئی۔ وہاں ایک بزرگ اور آپ کے معتقد برکت علی نے مزار کے لیے اور مجوزہ ملحقہ مسجد اور اسلامی درس گاہ کی خاطر زمین ہبہ کردی تھی۔[4]

شخصیت و شاعری[ترمیم]

اکبر کو شاعری سے بچپن سے ہی لگاؤ رہا۔ چنانچہ کمسنی کے زمانہ میں بھی پنجابی کے متعدد اَشعار یاد تھے۔ چھٹی جماعت میں اردو شاعری کی ابتدا کی اور اُس وقت مسعودؔ تخلص کیا۔ لیکن بعد میں اپنے ایک عزیز چوہدری محمد شفیع علیگ کی تجویز پر مسعودؔ کو اکبرؔ سے تبدیل کر دیا۔ ثانوی تعلیم کے زمانہ سے ہی غزل گوئی کی جانب مائل ہوئے۔ اکبر جب لاہور آئے تو ادبی حلقوں میں آپ کے اشعار بہت مقبول ہوئے اور ملک کے مقتدر جریدوں میں کلام شائع ہونا شروع ہوا۔1927ء میں جب مولوی منصور احمد نے رسالہ ’’ہمایوں‘‘ کی اِدارت سنبھالی تو اکبر اُن سے متعارف ہوئے اور شناسائی بڑھتے بڑھتے نہایت گہرے مراسم میں بدل گئی۔ منصور احمد اِن کے کلام کو ہمایوں میں شائع کرنے لگے۔ اکبر کہا کرتے تھے کہ: ’’ اُس وقت سے جب کچھ لکھا ہے، وہ پہلے منصور کو دکھا لیا ہے اور پھر شائع کیا ہے‘‘۔ چنانچہ اکبرؔ کی بہترین نظمیں اور غزلیں رسالہ ’’ہمایوں‘‘ میں ہی شائع ہوئی ہیں۔[5]

ملازمت کے دوران میں انجمن مذکور کے حلقوں میں بے حد احترام و عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد گوشہ نشینی اِختیار کرلی اور اپنے اوقات عبادت، ذکر و فکر اور دیگر روحانی مشاغل کے لیے وقف کردیے اور تشنگانِ سلوک و معرفت کی راہنمائی کرنے لگے۔ اگرچہ یہ سلسلہ دورانِ ملازمت بھی جاری تھا مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ہمہ وقتی ہو گیا۔سینکڑوں حضرات نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ لیکن یہ نہیں دریافت ہو سکا کہ شاعری میں بھی آیا کوئی آپ کا شاگرد تھا یا نہیں؟۔اکبر 1938ء میں ایک صاحبِ طریقت بزرگ حضرت ابوالرضا حاکم علی رحمۃ اللہ سے متاثر ہوکر تصوف و روحانیت کی طرف مائل ہوئے تھے۔ اُنہی کے حکم سے چند سال کے لیے شاعری بھی بالکل ترک کردی تھی ۔ پھر جب اِجازت مل گئی تو آپ کے کلام میں تصوف و معرفت کو زیادہ دخل حاصل ہو گیا۔ پھر ہر قسم کی شاعری 1960ء کے قریب قریب ترک کردی تھی، یعنی وفات سے 28 سال قبل۔[6]

کتابیات[ترمیم]

  • ملک محمد باقر نسیمؔ رضوانی: شعرائے پنجاب (عصر حاضر)، مطبوعہ گجرات پرنٹنگ پریس، گجرات (پنجاب)، اشاعت اول، 1937ء
  • جلال الدین اکبر: نقوشِ اکبر، مطبوعہ مکتبہ کاررواں، لاہور، 1989ء
  1. شعرائے پنجاب، صفحہ 221۔
  2. شعرائے پنجاب، صفحہ 222۔
  3. نقوشِ اکبر، صفحہ 38۔
  4. نقوشِ اکبر، صفحہ 39۔
  5. شعرائے پنجاب، صفحہ 222-223۔
  6. نقوشِ اکبر، صفحہ 38-39۔