چودھری شجاعت حسین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(چوہدری شجاعت حسین سے رجوع مکرر)
چودھری شجاعت حسین
 

معلومات شخصیت
پیدائش 27 جنوری 1940ء (84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گجرات  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ ق  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
وفاقی وزیر داخلہ[1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
9 نومبر 1990  – 18 جولا‎ئی 1993 
وزیر داخلہ پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
25 فروری 1997  – 12 اکتوبر 1999 
 
معین الدین حیدر 
وفاقی وزیر داخلہ[1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
25 فروری 1997  – 12 اکتوبر 1999 
وزیر اعظم پاکستان (14 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
30 جون 2004  – 20 اگست 2004 
ظفر اللہ خان جمالی 
شوکت عزیز 
عملی زندگی
مادر علمی فورمن کرسچین کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ریاست کار،  کارجو،  سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

چودھری شجاعت حسین (ولادت: 1940ء) پاکستان کے ایک سیاست دان ہیں۔ ان کا شمار چند اہم ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور اس وقت مسلم لیگ (ق) کے صدر ہیں۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

چودھری شجاعت حسین کا تعلق گجرات کے جاٹ خاندان سے ہے جو تقریباً پچیس سال قومی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان کے خاندان نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں سے بھرپور تعاون کیا اور اپنی سیاسی قدر و قیمت بڑھاتا چلا گیا حالانکہ یہ خاندان پنجاب کے ان روایتی سیاسی خاندانوں میں شامل نہیں جو ملک بننے سے پہلے سے قومی سیاست میں نمایاں تھے۔

ظہور الہی[ترمیم]

چودھری شجاعت حسین گجرات کے چودھری ظہور الٰہی کے بیٹے ہیں جو ایک عام نچلے متوسط طبقہ کے آدمی تھے۔ وہ ایوب دور میں سرکاری جماعت کنوینشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے اور ایوب کی فوجی حکومت کی سرپرستی میں پنجاب میں جاٹ برادری کے ایک نمایاں سیاست دان کے طور پر جانے لگے۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کا شمار ملک کے نمایاں کاروباری خاندان کے طور پر ہونے لگا۔

ظہور الٰہی نے ذو الفقار علی بھٹو کی سخت مخالفت کی اور 1977کے انتخابات کے وقت وہ جیل میں تھے۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا میں ظہور الٰہی وفاقی وزیر بنائے گئے۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو جنرل ضیاء نے جس قلم سے بھٹو کی پھانسی کے پروانہ پر دستخط کیے تھے اسے یادگار کے طور پر حاصل کر لیا۔ انھیں جنرل ضیاء کے دور میں ہی لاہور میں قتل کر دیا گیا تھا۔

عملی سیاست[ترمیم]

شجاعت حسین نے اپنے والد کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور مجلس شورٰی کے رکن رہے۔ 1985 کے انتخابات میں وہ پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر صنعت رہے۔ ان کے کزن چودھری پرویز الٰہی پرویز مشرف دور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، جنہیں صحیح معنوں میں ظہور الٰہی کا سیاسی جانشین سمجھا جاتا ہے۔

چودھری شجاعت حسین 1988، 1990 اور 1997 میں بھی رکن قومی اسمبلی بنے تاہم 1993اور 2008 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اور معروف صنعت کار احمد مختار کے ہاتھوں شکست کھا گئے، لیکن بعد میں ق لیگ کے سینیٹر بن گئے۔

شریف خاندان سے تعلقات[ترمیم]

1986 میں چودھری خاندان نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لینے کے لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰٰ نواز شریف کے خلاف بغاوت کی تھی لیکن اسے ناکامی کا سامنا ہوا تھا۔ تاہم اس کے بعد انھوں نے شریف خاندان سے ہمیشہ اپنا تعلق استوار رکھا گو ان کے اختلافات اندرون خانہ موجود رہے۔

نواز شریف جب تک اقتدار میں رہے انھوں نے چودھری خاندان کے سیاسی قد میں اضافہ نہیں ہونے دیا اور ان کی خواہش کے برعکس 1990 اور 1997 میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰٰ نہیں بنوایا۔

شجاعت حسین نواز شریف کے دور میں وفاقی وزیر داخلہ رہے لیکن ان کی وزارت کے زیادہ تر اختیارات احتساب بیور کے سیف الرحمٰن کے پاس تھے یا خود وزیر اعظم کے پاس۔

پرویز مشرف[ترمیم]

جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو شجاعت حسین کو دو فائدے ہوئے۔ ایک تو جنرل مشرف سے ان کی واقفیت تھی کہ دونوں ایک زمانے میں لاہور کے ایف سی کالج میں پڑھتے رہے تھے او دوسری جنرل مشرف کے قریبی معتمد طارق عزیز چودھری خاندان کے دوست تھے۔

چودھری شجاعت حسین نے نواز شریف کی معزولی کے بعد ایک دم تو انھیں نہیں چھوڑا۔ وہ ایک سال تک شریف خاندان کی سربراہی میں مسلم لیگ سے وابستہ رہ کر حیلہ بہانہ سے نواز شریف کی سیاست سے اختلافات کرتے رہے لیکن جب نواز شریف کو سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا تو انھوں نے پرویز مشرف کی حمایت میں مسلم لیگ کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کا الگ دھڑا قائم کر لیا جس کے صدر لاہور کے ارائیں اور سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر بنے۔

مسلم لیگ کی صدارت[ترمیم]

میاں محمد اظہر نے نئی مسلم لیگ کو ایک جواز مہیا کیا کیونکہ وہ ایک بااصول اور کارکنوں کے دوست آدمی سمجھے جاتے تھے لیکن مسلم لیگ نواز شریف سے ٹوٹ کر منظم ہو گئی تو میاں محمد اظہر کو چودھری شجاعت حسین اور وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے مل کر صدر کے عہدے سے الگ کر دیا اور چودھری شجاعت حسین کو نئی جماعت کا صدر منتخب کر لیا گیا۔

ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوانے میں چودھری شجاعت حسین کا خاصا ہاتھ تھا کیونکہ دو ہزار کے انتخابات کے بعد انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے آئے جو صاف طور پر جمالی تھے حالانکہ اس وقت متحدہ مجلس عمل شجاعت حسین کے وزیر اعظم بننے پر ان کی حمات کرنے کے لیے تیار تھی۔

تاہم چودھری شجاعت حسین کی زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ ان کے کزن پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰٰ بن جائیں جو ان کی دیرینہ خواہش تھی اور لوگ مذاق کرنے لگے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں وزارت اعلیٰ کی لکیریں نہیں ہیں۔

وزیر اعظم جمالی سے شجاعت حسین کے اختلاف کی شروع ہوئے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ شجاعت حسین جمالی کی کابینہ میں اپنے پسند کے وزرا بنوانا چاہتے تھے لیکن ظفراللہ جمالی اس بات پر رضامند نہیں تھے اور انھوں نے اس دباؤ کو قبول نہ کرنے کے لیے کابینہ کی توسیع ہی نہیں کی۔ یوں جمالی صاحب کو بھی اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔

بطور وزیر اعظم[ترمیم]

جمالی صاحب نے استعفی کے بعد چودھری شجاعت حسین کو 3 مہینے کے وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اپنے دور اقتدار میں انھوں نے بہت سے سیاسی کام کیے۔ بدھ کو صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ہمیں چوہدری شجات حسین کی سیاسی تدابیر اور شوکت عزیز کی اقتصادی مہارت پاکستان کی ترقی اور خوشخالی کے لیے راہ پر لانا ہو گی۔ ایوان صدر میں انھوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ہمیں سیاست اور معیثت میں ایک معیارحاصل کرنا ہو گا۔ ایک سیاست دان اور ایک ماہر اقتصادیات کا مجموعہ ملک کے مستقبل کے لیے اچھا ہو گا۔ اسلام آباد : پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے بدھ کے دن صبح پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور دوپہر کو نیشنل اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ وزیر اعظم ہاؤس کا حصہ بننے کے بعد 189 ارکان نے ان کے لیے ووٹ کیا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے زیر انتظام نئے وزیر اعظم اور ایک 27 رکنی وفاقی کابینہ سمیت سات وزراء نے حلف اٹھایا۔ وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے اسی کابینہ کے تحت کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ظفراللہ جمالی کے پیش رو کیا تھا۔ لیکن انھوں نے دو وفاقی وزیر منتحب کیے۔ سید غازی گلاب اور محمد اجمال خان وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے تھے۔ ان محکموں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حلف برادری کی تقریب کے بعد، صدر مشرف نے کہا اقتدار میں بجلی کی منتقلی پاکستان کی جمہوری تاریح میں ایک تاریخی واقعہ تھا۔ انھوں نے کہا ملک میں بجلی کی اس طرح کی فراہمی کبھی نہی ہوئی۔ صدر نے کہا کہ اختلافی جماعتوں نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ سیاسی بخران تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی خواہشات کے برعکس، سب کچھ آسانی سے ہو گیا۔ کراچی 7جولائی، بدھ کو وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین کی پاکستان واپسی ہم سب کے لیے ایک بڑا تحفہ ہو گی۔ انھوں نے متحدہ کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے نائن زیرو پر ایم کیو ایم کے صدر دفتر کے دورے کے دوران میں خطاب کرتے ہوئے کہا۔ انھوں نے کہا ہم سب کو پاکستان کی ترقی اور خوشخالی کے لیے مل بیٹھ کر کام کرنا ہو گا۔ ایک اجتماع سے حطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے الطاف حسین سے فون پر بات کی جنھوں نے ہمارے دورے پر شکریا ادا کیا اور اس نے ہماری مبارکباد کو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ پاکستان لوٹ کر ہمیں تخفہ پیش کریں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح امن و امان تھی اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی جماعت کی تنقید کے لیے سندھ میں حکومت بنانے کے لیے پی پی پی کو مدعو کیا، لیکن پیپلز پارٹی نے ان کی اس پیش کش کی پروا نہ کی۔ مٹھی : چوہدری شجاعت نے کہا کہ کا کالا باغ ڈیم کو کسی بھی نام سے (پیلے، سیاہ یا کسی دوسرے نام سے ) تعمیر کیا جائے۔ صدر پرویز مشرف کو یقین تھا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ پانی کی قلت ہے اور اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر لازمی ہے۔ شجاعت نے مٹھی کمپلیکس میں ایک انتخابی ایک ریلی کے دوران میں کہا : وزیر حزانہ شوکت عزیز، وفاقی وزراء شیخ رشید احمد، نصیر خان، خالد احمد، اویس لغاری، سیئنر محمد علی درانی، وزیر اعلیٰ سندھ، ارباب غلام رخیم، صوبائی وزیر صدر الدین شاہ، شبیر احمد، قائم خانی، ایم پی اے پونجمال بھیل، عبد الرزاق، ایم این اے ڈاکٹر غلام حیدر اور سندھ اسمبلی کے سپیکر مظفر حسین بھی ریلی میں شامل تھے۔ اسلام آباد : اتوار کے دن وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ حدود و قوانین کی ترمیم اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دی گئی ہیں۔ اور جلد ہی سی آئی آئی اور دینی علما سے مشاورت کے بعد منظوری کے لیے کابینہ کو بھیج دی جائے گی۔ وزیر اعظم ہاؤس میں علما و مشائح کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، حکومت اسلامی نظریاتی کونسل اور دینی علما کو مدنظر رکھتے ہوئے حدود قوانین میں ترمیم کر سکتی ہے۔ شجاعت نے کہا کہ مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے علما کی مشاورت سے مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے متحدہ مجلس عمل اور علما سے اپیل کی کہ وہ مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو محدود کرنے کے فیصلے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اسلام آباد 16 جولائی : جمعہ کو حکومت نے قومی اسمبلی میں سیاست دانوں کو بیک وقت اور پارٹی دفاتر کے انعقاد کے مقصد سے ایک بل پیش کیا۔ بل قواعد کو معطل کرنے کے بعد خزب اختلاف کی طرف سے احتجاجً واک آؤٹ کیا۔ بل سے پولیٹکل پارٹیز آرڈر پی پی او، 2002 کی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کہ سرکاری دفاتر کہ حامل سلاخکار سیاسی جماعت میں دفاتر انعقادکریں۔ اسمبلی کی طرف سے دفتر میں اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعظم شجاعت حسین کی طرف سے بنائی گئی۔ پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر اعظم چوہدری نوریز شکور نے اختجاجی شور اور شرمندگی کے نعرے کے دوران میں سیاسی جماعتوں کے ترمیمی بل بلائے پی پی او کا پابندی کا مضمون چھوڑنے کے لیے مخالف جماعت بلائی۔ اسلام آباد 17 جولائی : وزیر اعظم شجاعت حسین نے کاروکی ایک معاشرتی نسوار قرار کے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور ملک سے لعنت کے خاتمے کا وعدہ کیا۔ ہفتہ کو وزیر اعظم شجاعت حسین نے نمائندہ گاہ جماعت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وفد کاروکی کے متاثرین کی حمایت کا وعدہ ہے۔ وزیر اعظم شجاعت حسین نے کہا کہ زندگی اور مال و جان کی حفاظت کا ذمہ حکومت کے سپرد ہے جو اسے کسی بھی قیمت پر پورا کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس لعنت سے نمٹنے کے لیے پارلیمنٹ میں جلد ہی ایک بل متعارف کروایا جائے گا اور ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اسلام آباد 27 جولائی : منگل کے دن وزیر اعظم شجاعت حسین نے کہا کہ عراق میں اپنی فوج بھیجنے پر حکومت کی پالیسی واضح ہے اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ پارلیمانی سیکرٹریوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پریمیئر شجاعت نے عراق میں فوج بھیجنے کے سوال پر عوام میں غیر ضروری غلط فیہمی پیدا کرنے کی مخالفت کا الظام لگایا ہے۔ انھوں نے کہا ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور جب کبھی ایسا فیصلہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے گی تو امت مسلمہ کے مشورے کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر نقطہ نظر میں رکھتے ہوئے لیا جائے گا۔

اندرونی روابط[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

  1. بنام: Chaudhry Shujaat Hussain — اخذ شدہ بتاریخ: 25 اپریل 2022
سیاسی عہدے
ماقبل  وزیر داخلہ پاکستان
1990ء   –   1993ء
مابعد 
فتح خان بندیال
ماقبل  وزیر داخلہ پاکستان - دوسری میعاد
1997ء   –   1999ء
مابعد 
ماقبل  وزیراعظم پاکستان
2004ء
مابعد 
سیاسی جماعتوں کے عہدے
ماقبل  صدر پاکستان مسلم لیگ ق
2002ء تا حال
مابعد 
موجودہ