چو برجی
چو برجی | |
---|---|
چو برجی | |
بنیادی معلومات | |
مذہبی انتساب | اسلام |
ملک | پاکستان |
تعمیراتی تفصیلات | |
طرز تعمیر | اسلامی فن تعمیر |
سنہ تکمیل | 1646 عیسوی (1056 ہجری) |
مینار | 4 |
چو برجی (عام فہم کا پنجابی تلفظ: چبرجی) تاریخی شہر لاہور میں ملتان کی جانب جانے والی سڑک پر مغلیہ باغات میں وسیع ترین باغ کے دروازے کی حیثیت سے تعمیر شدہ ایک تاریخی عمارت ہے۔
چوبرجی دراصل مغلیہ باغات میں انتہائی ممتاز اور وسیع ترین باغ کا دروازہ تھا جو مغل شہزادی زیب النساء سے منسوب ہے۔ اس تاریخی عمارت دروازے کے چار مینار ہیں اوراسی مناسبت سے اس کا نام چو برجی رکھا گیا تھا، یعنی چہ : چار اور برجی: برج یا مینارے۔ اس تا ریخی عمارت پر انتہائی نفیس کام کیا گیا ہے۔
1843ء میں آنے والے شدید زلزلے میں شمال مغربی مینار کو نقصان پہنچا اور یہ منہدم ہو گیا، جب کہ مرکزی حصے میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اس کی ممکن حد تک دوبارہ سے تعمیر کی گئی اور یہ تقریباً مغلیہ دور کی حالت میں دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر نو کا کام محکمہ آثار قدیمہ نے 1960ء میں مکمل کروایا۔
چو برجی میں منفرد طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے جو مغلیہ اور قدیم اسلامی طرز تعمیر کے ملاپ کا حسین شاہکار ہے۔ اس تاریخی عمارت کی ممتاز حیثیت اس کے میناروں کی وجہ سے ہے جو برصغیر پاک و ہند میں کہیں بھی دوسری عمارات میں نہیں دیکھی جاتی۔ کہی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان میناروں پر گنبد بھی تعمیر کیے گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے مگر اس یادگار کی طرز تعمیر میں ایسی کسی نشانی کے کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملے۔ اس یادگار میں استعمال ہونے والی سرخ اینٹیں اسلامی طرز تعمیر کی نشان دہی کرتی ہیں جو برصغیر میں کئی عمارات جیسے لال قلعہ اور بادشاہی مسجد میں بھی شامل ہیں جو وسیع پیمانے پر استعمال کی گئی ہیں۔ اس عمارت کا رقبہ اور تعمیراتی کام اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ صرف تاریخی عمارت عمارت ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ آج کل یہ عمارت جوں کی توں، مغلیہ دور کی یادگار ہے لیکن اس کے ارد گرد بڑے اشتہار، تجارتی مراکز اور ملتان روڈ کی بے پناہ رش اس کی خوبصورتی میں حائل ہے۔
1985ء میں ڈاکٹر اعجاز انور نے روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ:
” | چو برجی کا سب سے خوبصورت حصہ اس کی چہار مینار سے مماثلت ہے۔ یہ بالکل اسی طرز کے چہار مینار ہیں جو حیدر آباد دکن میں 1591ء میں محمد قلی نے تعمیر کروائے تھے، جو حیدر آباد میں چار شاہراوں کے ملاپ کو ظاہر کرتا تھا۔ یہ شاہراہیں حیدر آباد کے قدیم شہر میں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بعد میں اسی طرز کے مینار جہانگیر کے مقبرے میں بھی تعمیر کیے گئے۔ یہی طرز تعمیر اتنا مشہور ہوا کہ اس کا تجربہ تاج محل میں بھی کیا گیا، لیکن اس کی مجموعی ساخت وہی برقرار رکھی گئی جو خاص طور پر مغلوں کا خاصہ ہے۔ چہار مینار کی طرح یہاں بھی طرز تعمیر میں عجب رنگ بھرے گئے ہیں، اس یادگار کا نچلا حصہ انتہائی سادہ اور اونچائی میں یہ انتہائی محنت سے تیار کردہ نقش و نگار سے مزین ہے۔ مغلیہ دور میں کئی عمارات میں سنگ مرمر کا بے دریغ استعمال کیا گیا، وہ ایک وقت میں مغلیہ طرز تعمیر کی نشانی بھی بن گیا لیکن چوبر جی میں اینٹ کا استعمال اس دور میں اس کی ممتازی حیثیت کو واضع کرتا ہے۔[1] | “ |
یہ یادگار درحقیقت باغ زیب النساء کا داخلی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ زیب النساء بیگم بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی صاحبزادی تھیں۔ اس باغ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کبھی یہ نواں کوٹ سے لاہور شہر کے مرکز کی جانب شمال میں توسیع شدہ باغ تھا۔ اب اتنے وسیع پیمانے پر اس باغ کے پھیلاؤ کے کوئی نشانات بھی اس علاقے میں موجود نہیں ہیں، شاید اس کی وجہ یہاں بڑے پیمانے پر ہونے والے آبادی میں اضافہ ہو۔