چچ نامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چچ نامہ
اصل زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع سندھ کی تاریخ   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

چچ نامہ ((سندھی: چچ نامو)‏)، فتح نامہ سندھ ((سندھی: فتح نامہ سنڌ)‏)، جو عربی میں تاریخ ہند و سندھ عربی (تاريخ الهند والسند) کے نام سے معروف ہے، تاریخ سندھ پر ایک مشہور کتاب ہے، اس کتاب میں الور کے راجا چچ اور اس کے جانشینوں کے حالات اور محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں[1]

تالیف و تراجم[ترمیم]

سندھ 700ء میں برہمن گھرانے کے زیر نگین

کتاب چچ نامہ قاضی محمد اسماعیل بن علی کی تالیف ہے، جو سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم کی طرف سے اروڑ کے قاضی مقرر کیے گئے تھے۔ بعد ازاں اس کتاب کو علی بن حامد بن ابو بکر کوفی نے 613ھ میں عربی سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ علی بن حامد بن ابو بکر کوفی اوچ میں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ ناصر الدین قباچہ کے عہد حکومت میں انھیں بڑی پزیرائی ملی۔ علی بن حامد بن ابوبکر کوفی کا انتقال بھی اوچ میں ہوا۔[2] ماؤنٹ اسٹورٹ کی جانب سے اس کتاب پر تحقیق سے قبل اسے رومانی داستان سمجھا جاتا تھا۔ خیال ہے کہ اصل عربی متن ثقفی خاندان کے کسی ایسے شخص نے لکھا جو محمد بن قاسم کا رشتہ دار تھا۔

درستی[ترمیم]

تاریخ معصومی اور تحفۃ الکرام اسی دور سے متعلق دو مسلم تاریخیں ہیں، مگر وہ کچھ واقعات کی مختلف تفصیلات دیتی ہیں۔ نظام الدین احمد، نورالحق، فرشتہ اور میر معصوم کے بعد والی مسلم تواریخ میں عربوں کی فتح کا احوال چچ نامہ سے ماخوذ ہے۔

ابو بکر کوفی بھی تند و تیز نثر کی وجہ سے درباری مورخ سمجھا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی اس کا ترجمہ بہت حد تک درست سمجھا جاتا ہے، جس میں وہ مواد کے مآخذ کی بھی نشاہدہی کرتا ہے، چاہے وہ لوگوں سے منسوب کرے یا روایت سے اخذ کرے۔

اس دور کے تاریخی جغرافیہ، سیاست اور معاشرت پر اسے ایک تاریخی بیانیہ کے طور پر قابل قدر دستاویز مانا جاتا ہے۔ ثقفی خاندان کے قدرتی تعصب کے طور پر بھی مقبول روایت میں فطری غلطیاں اور حقائق کے بیان میں افسانہ طرازی پر مشتمل ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ۔ سید قاسم محمود، انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا، حصہ 2؛ طلوع اسلام کے بعد،باب؛ تواریخ اور مؤرخین، صفحہ 16، اپریل 2006ء، الفیصل ناشران، لاہور
  2. مسعود حسن شہاب دہلوی، خطہ پاک اوچ، اردو اکیڈمی بہاولپور، 2009ء، ص 182