چکرم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

چکرم (انگریزی: Chakram) ایک عام معاون اداکار تھے۔ مسکراہٹیں بکھیرنے والے فلمی صنعت کے سینئر ترین کامیڈین چکرم راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصہ سے بے روزگار تھے اور راولپنڈی میں اپنی بیٹی کے پاس قیام پزیر تھے۔ انھیں مقامی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ان کا اصل نام سید ظل حسنین رضوی تھا۔ چکرم نے 122 سو فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیے ان کی مقبول فلموں میں اردو، اناڑی، انمول، امبر، رنگیلا، منور ظریف، تلاش، پہچان قابل ذکر ہیں۔ چکرم نے سنتوش کمار، محمد علی، ندیم، شان، منورظریف، لہری، رنگیلا، کے ساتھ کئی فلموں میں مرکزی کردار کیے جبکہ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔وہ آلہ آباد کے موضع رام پور میں سید فتح محمد رضوی کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد زمیندار تھے۔چکرم نے 88 برس کی عمر پائی ۔ انھوں نے کیرئیر کا آغاز مشتاق عباس زیدی کی فلم یاراں نال بہاراں سے کیا۔اس فلم میں ان کے ساتھ اکمل خان اور فردوس نے کام کیا تھا اور منور ظریف بھی شامل تھے۔ان کی شبااب کیرانوی کی ڈائریکشن میں بنی فلم یہ زمانہ اور ہے کامیاب ترین فلم تھی۔اس فلم میں فیصل رحمان ' ایا ز نائیک اور شیراز نے بھی کام کیا تھا۔ان کے اس فلم میں کامیڈی کردار سے انھیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ چکرم کے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ان کی دونوں بیگمات کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا۔حکومت سے انھیں ماہانہ وظیفہ ملتا رہا لیکن 2013ء میں کچھ فنکاروں نے ان کو پرائڈ آف پرفارمنس دینے کے لیے ایک تحریک بھی چلائی تاہم وہ اس اعزاز سے محروم ہی رہے۔ چکرم نے فلمی صنعت کے عروج و زوال دیکھے۔ چکرم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے اپنی اداکاری سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے سال ہو گئے ہیں۔ میرا چکرم بننے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ہندوستان میں ایک فلم مسٹر چکرم بنی تھی۔ 1962ء میں میری پہلی فلم یاراں نال بہاراں کی تھی۔ جس میں اکمل، فردوس منور ظریف اور رنگیلا بھی تھے۔ اس فلم میں میرا نام چکرم رکھا گیا کہ میں چکرم سے ملتا جلتا ہوں۔ فلم کے ٹائٹل پرا میرا نام چکرم آنے کی دیر تھی کہ بعد میں وہی نام مشہور ہو گیا اور میرا اصلی نام بہت پیچھے رہ گیا۔ اب میرے بھانجے مجھے چکرم ماموں اور بھتیجے چکرم چاچو کہتے ہیں۔ میرا اصلی نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ چکرم نے بتایا کہ 50 برسوں کے دوران میں چوٹی کے ہدایتکار وںحسن طارق، نذرالاسلام، خلیل قیصر سمیت تمام صف اول کے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔جہاں تک ایوارڈز کا تعلق ہے تو مختلف اداروں کی طرف سے 50 سے زائد ایوارڈ مل چکے ہیں تاہم حکومت پاکستان کی طرف سے کسی ایوارڈ کا حق دار نہیں سمجھا گیا جس کا مجھے دکھ بھی نہیں ہے۔ میں تو ہنسنے ہنسانے اور خوشیاں بانٹنے والا آدمی ہوں۔ چکرم نے بتایا کہ کئی برس پہلے میں کسی فلم کی شوٹنگ میں حصہ لینے نیپال گیا تو وہاں ملکہ کی سالگرہ تھی میں نے وہاں فن کا مظاہرہ کیا۔ اگلے روز وہاں کے کسی اخبار کا نمائندہ میرے پاس آیا کہ آپ کتنے عظیم انسان ہیں جو بلا معاوضہ لوگوں کو ہنساتے ہیں۔ آپ کے اندر کتنی خوشی ہو گی۔ میں نے اسے جواب دیا کہ تم نے غلط دروازے پر دستک دی ہے۔ میں تو دکھ کی دکان پر بیٹھ کر سکھ کا سودا بیچتا ہوں۔ یہ میری زندگی کی کمائی ہے میں نے کبھی اپنے دکھ اور غم کا اظہار نہیں کیا۔ لوگوں کو ہنسانے والا خود نہیں ہنس سکا۔ میں لوگوں کو خوشیاں بانٹتا رہا لیکن اپنے گھر میں خوشیاں نہیں دے سکا۔ میں کتنا بڑا دکان دار ہوں۔ چکرم نے کہا کہ کیمرے کے سامنے کوئی سینئر جونیئر نہیں ہوتا۔ ہم میں سے پہلے باقاعدہ ریہرسل کرتے تھے لیکن اب فنکار ریہرسل کوکچھ نہیں سمجھتے۔ میں چوتھی نسل میں کام کر رہا ہوں۔ میری 1200 فلمیں ہیں جو دنیا میں کسی بھی فنکار کی نہیں ہوں گی۔ پورے پاکستان میں مجھ سے سینئر فنکار کوئی نہیں ہو گا۔ اتنا کام کرنے کے باوجود آج بھی نہ صرف بے گھر بلکہ پیدل ہوں۔ گزارہ بڑی مشکل سے ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے بطور سینئر فنکار میرا وظیفہ مقرر کیا تھا جو کبھی ملتا ہے تو کبھی نہیں بھی ملتا۔ چکرم نے بتایا کہ فلم انڈسٹری کا عروج اور زوال دیکھا ہے۔جب آنکھوں والا اندھے سے راستہ پوچھے گا تو یہی کچھ ہو گا ناں۔ جس نے سٹوڈیو کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ اب ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بن گیا ہے۔ ہمیں پانی پلانے والے آج ڈائریکٹر بن گئے ہیں۔ یہی فلم انڈسٹری کا المیہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بطور سینئر آرٹسٹ ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا تھا جو کبھی ملتا ہے ‘ کبھی نہیں ملتا۔ میں فلم انڈسٹری کا واحد فنکار ہوں جو آج بھی کام کر رہا ہے۔ ڈائریکٹر جرار رضوی کی فلم سن آف پاکستان میری آخری فلم تھی۔ سنجیدہ فلمی حلقوں نے چکرم کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، انہی حلقوں کا کہنا ہے کہ آج بھی آرٹسٹ کی قدر اس طرح سے نہیں ہورہی جس کا وہ حقدار ہے ابھی بھی من پسندوں میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور دوسرے سرکاری اعزاز تقسیم کیے جاتے ہیں اور اصل حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا۔میرٹ کی دھجیاں بکھری جارہی ہیں۔ مستحق آرٹسٹ کی دل آزاری ہوتی ہے۔اس سلسلے کو اب بند ہوجانا چاہیے ۔

بیرونی روابط[ترمیم]