چھولس سادات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کربلا چھولس سادات
امامبارگاہ عباس نگر چھولس سادات

چھولس سادات: انگریزی میں (Chhaulas Sadat)،[1]؛ ہندی میں (छौलस सादात)،[2]: چھولس سادات میں تقریباً اٹھارہ امامبارگاہ اور چار مساجد ہیں، دو مسجدیں اہل تشیع کی ہیں اور دو مسجدیں اہل تسنن کی۔ شیعوں کی ایک مسجد محلہ عباس نگر میں جامعہ رضویہ کے سامنے ہے اور دوسری مسجد جو جامع مسجد کہلاتی ہے وہ کربلا کے علاقہ میں واقع ہے۔ اہل سنت کی ایک مسجد چھوڑا چوک کے نزدیک محلہ قریشی میں اور دوسری مسجد تیلیوں کے محلہ میں واقع ہے جس کو "مدینہ مسجد" کہا جاتا ہے۔[3]۔ چھولس سادات کا قدیمی ضلع "شہرمیرٹھ" تھا اس کے بعد ضلع "بلندشہر" میں شمار ہوا اور اس کی تحصیل "سکندرآباد" قرار پایا؛ سنہ1976عیسوی میں جب ضلع "غازی آباد" بن گیا تو اس میں شمار ہوا اور اس کی تحصیل "دادری" قرار پایا؛ سنہ1997عیسوی میں حکومت ہند کی جانب سے "غازی آباد" کے دو حصے کیے گئے تو چھولس سادات نام کی بستی کا ضلع "گوتم بدھ نگر - نوئیڈا - گریٹر نوئیڈا" قرار پایا لیکن تحصیل "دادری" ہی باقی رہا۔ اگر جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو "چھولس سادات"، "دہلی" سے پچاس کیلو میٹر، "غازی آباد" سے اکتیس کیلو میٹر اور "دادری" سے تیرہ کیلو میٹر مشرق کی طرف؛ نیز "بلندشہر" سے اٹھائیس کیلو میٹر اور "سکندرآباد" سے تیرہ کیلو میٹر مغرب کی طرف واقع ہے۔ دادری اور سکندرآباد کے درمیان ایک نہر کا پُل ہے جس کو "کوٹ کا پُل" کہا جاتا ہے، اس پُل سے چار کیلومیٹر اندر بسنے والی بستی کا نام "چھولس سادات" ہے۔ [4]

چھولس سادات کا مختصر تعارف[ترمیم]

جامع مسجد چھولس سادات
مسجد عباس نگر چھولس سادات

چھولس سادات، ایک بہت پرانی بستی ہے جس میں قدیم زمانہ سے سادات آباد ہیں۔ سادات سے پہلے اس بستی میں راجپوت اور خان آباد تھے لیکن جب سادات نے اس بستی کو اپنے زیر اثر لے لیا تو وہ قومیں آہستہ آہستہ ہجرت کرکے دوسرے قریوں اور دیہاتوں میں جاکر بس گئیں۔ چھولس، ایک تاریخی بستی ہے جو سادات کی بستی کہلاتی ہے؛ اس بستی کے سادات، ایران کے شہر "سبزوار" سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اس بستی کے مورث اعلیٰ سبزوار سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے سرزمین چھولس سادات پر قیام پزیر ہوئے تھے۔ یہ بستی پہلے تو ضلع بلند شہر میں واقع تھی اس کے بعد غازی آباد اور حال حاضر میں یہ بستی ضلع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا) میں شمار ہوتی ہے۔[5]؛ اس بستی میں شروع سے آج تک صاحبان علم و فن موجود رہے ہیں، ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ایس، پروفیسر وغیرہ بالخصوص علما و شعرا وافر تعداد میں موجود رہے ہیں اور حال حاضر میں بھی موجود ہیں، جن میں سے مولانا سید مہدی حسن رضوی چھولسی، مولانا سید علی رضا رضوی چھولسی (مقیم لندن)، مولانا سید ذاکر رضا چھولسی۔[6]؛ مولانا سید غافر رضوی چھولسی۔[7]؛ مولانا علی عباس حمیدی، مولانا سید غضنفر علی رضوی چھولسی، مولانا تقی محمد رضوی چھولسی، مولانا مظاہر علی رضوی چھولسی، مولانا عرفان رضا رضوی چھولسی، مولانا قمر حسنین رضوی چھولسی، مولانا محمد مقتدیٰ رضوی چھولسی، مولانا گلزار حیدر رضوی چھولسی،[8]؛ مولانا کمال عباس چھولسی، مولانا مظاہر حسین رضوی چھولسی، مولانا عباس رضا رضوی چھولسی، مولانا ایاز رضوی چھولسی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں جن کی سرگرمیاں میدان علم و عمل میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ علمائے اعلام کی سوانح حیات کے لیے "پیام اسلام فاؤنڈیشن" کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے۔[9]

سید علی سبزواری[ترمیم]

دادا سید علی اصغرؒ (کربلا - چھولس سادات)
دادا سید شمس الدینؒ (جامعہ رضویہ عباس نگر - چھولس سادات)
دادا سید شمس الدینؒ (جامعہ رضویہ عباس نگر - چھولس سادات)

سید محمود برقع پوشؒ نے سنہ656ہجری بمطابق سنہ1285عیسوی میں جب ایران کے حالات ناسازگار دیکھے تو اپنے بھتیجے ("شاہ میرؒ" کے بیٹے) "سید حسنؒ" کو اپنے ہمراہ لیا سبزوار سے سرزمین ہندوستان پر تشریف لائے۔ سید محمودؒ کے دوسرے بھائی "سید محمدؒ" تھے، ان کے بیٹے سید علاء الدینؒ ہوئے اور ان کے دو بیٹے "سید علی سبزواریؒ" اور "سید مسیح سبزواریؒ" ہوئے، سید علیؒ، سنہ860ہجری بمطابق سنہ1455عیسوی میں اپنے بھائی "سید مسیحؒ" کو لے کر ہندوستان آئے، سید علیؒ نے سنہ865ہجری بمطابق سنہ1460عیسوی میں بندگی شاہؒ کی بیٹی سے شادی کرکے چھولس نامی بستی بسائی اور ان کے دوسرے بھائی "سید مسیح سبزواریؒ" واپس سبزوار چلے گئے۔ اسی دوران راجپوت قوم نے "چھولس" کو خیرباد کہا اس کے بعد رفتہ رفتہ پٹھانوں نے بھی "چھولس" سے ہجرت شروع کردی۔ اس تناظر میں سید علی سبزواریؒ، ساداتِ چھولس کے مورث اعلیٰ قرار پائے۔ سید علی سبزواریؒ کو خداوند عالم نے چار نعمتوں سے نوازا، جن کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: (1)سید اکبرؒ: ان سے خاندان پیر کی پٹی آباد ہوا جو "اکبر پوتے" کہلاتے ہیں۔ (2)سید امجدؒ: ان کے ذریعہ پیرجی خاندان آباد ہوا، یہ لوگ "پیرجی" کے نام سے مشہور ہوئے۔ (3)سید خانؒ: ان کے وسیلہ سے سیدخانی خاندان آباد ہوا جو آج بھی "سیدخانی" کہلاتے ہیں۔ (4)سید علی اصغرؒ: ان کی نسل میں ایک بزرگ کا نام "شہید سید شمس الدینؒ" ہے جن کا مزار عباس نگر چھولس کے "مدرسہ جامعہ رضویہ" میں موجود ہے، اس مناسبت سے ان کی نسل کو "شمس الدین پوتے" کہا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ یہ سکھوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے، چھولس میں کچھ سکھ آباد ہو گئے تھے اور وہ اس بستی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے ان کے خلاف قیام کیا اور اس جنگ میں خود بھی شہید ہوئے،[10]؛ آپ کے دو بیٹے "سید عادلؒ و سید محبوبؒ"، ان کے علاوہ دیگر ساتھی بھی شہید ہوئے۔ سید علی اصغرؒ کا مزار چھولس کی شبیہ کربلا میں معتقدین کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے بقیہ تین بیٹوں کے مزارات بھی چھولس کے متعدد مقامات پر موجود ہیں۔ چھولس سادات نامی بستی سے کچھ سادات کرام تقریباً دو کلومیٹر کی دوری پر "نورپور" نام کی بستی میں جاکر آباد ہو گئے۔[11]




چھولس سادات کی قدیمی تاریخ[ترمیم]

قبر سید محمود برقع پوشؒ و سید حسن سبزواریؒ (میفیر گارڈن حوض خاص مہرولی)

اس بستی کے مورث اعلیٰ کی فہرست میں "سید محمود برقع پوشؒ" کا نام بھی درج ہے، کیونکہ یہ "سید جلال بیہقیؒ" کے فرزند ہیں، (سید جلال بیہقیؒ کے تین بیٹے ہوئے: (1)سید محمدؒ (2)سید محمود برقع پوشؒ (3)سید شاہ میرؒ۔ سید محمدؒ کے پوتے "سید علی سبزواریؒ" نے چھولس سادات آباد کیا۔ سید محمود برقع پوشؒ، مجرد فقیر کامل رہے اور شاہ میرؒ کے بیٹے "سید حسن سبزواریؒ" نے جارچہ آباد کیا)۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ "سید محمود برقع پوشؒ" فقیر منش انسان تھے یعنی مجرد کامل تھے جنھوں نے شادی نہیں کی تھی، سید محمود کو برقع پوش اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ حسن و زیبائی کے پیش نظر چہرے پر نقاب ڈال کر نکلتے تھے۔ ہندوستان آنے کے بعد جب شاہ بنگال "غیاث الدین اعظم خان" نے ان کے سامنے اپنی بیٹی کی پیشکش رکھی تو آپ نے فرمایا: "میں تو ایک فقیر ہوں جس نے ترک دنیا کی قسم کھائی ہے، اگر چاہو تو میرے بھتیجے سے شادی کردو، یہ تمام اوصاف و خصائل میں مجھ جیسا ہے"۔ نتیجہ میں شاہ بنگال راضی ہو گیا اور اپنی بیٹی کا عقد "سید حسن" کے ساتھ کرادیا۔ کچھ عرصہ بعد سید حسن اور شہزادہ یعنی سالے بہنوئی میں کسی بات پر توتو میں میں ہوئی تو "سید محمود" اپنے بھتیجے اور بہو کو لے کر بنگال سے دہلی کے لیے روانہ ہو گئے۔ دہلی آکر شاہ دہلی کے دربار تک رسائی حاصل کی، بادشاہ بہت زیادہ مطیع ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد "لوہا گڑھ - کلوندا" کی مہم درپیش ہوئی تو بادشاہ نے "سید حسن" کا انتخاب کیا، ان کی سپہ سالاری میں کلوندا فتح ہو گیا۔ سید حسن سبزواریؒ کی نسل جارچہ سادات میں آباد ہوئی اور ان کی قبر دہلی میں مہرولی کے قریب حوض خاص کے علاقہ،[12]؛ میں واقع میفیر گارڈن،[13]؛ کے اندر اپنے چچا "سید محمودؒ" کی قبر کے پاس ہے، یہ مقام مخدوم شاہ کی درگاہ سے معروف ہے،[14]؛ میر سید علی سبزواریؒ (چھولس سادات کے مورث اعلیٰ) کی قبر بھی اسی مقام پر ہے۔ پروفیسر نبی ہادی رضوی چھولسی کے بقول: "میر سید حسنؒ اور میر سید علیؒ نے دہلی میں سید محمود برقع پوشؒ کے جوار میں مزاروں کی جگہ پائی"۔[15]

ساداتِ چھولس[ترمیم]

حضرت موسی مبرقع علیہ السلام فرزند بلافصل امام محمد تقی علیہ السلام: جدّ سادات رضوی، تقوی و برقعی- چہل اختران، قم (ایران)- وفات:سنہ296ہجری

معروف یہ ہے کہ چھولس میں آباد سادات، "رضوی" ہیں اور یہاں کے رہنے والے خود کو "رضوی" ہی لکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اختلاف روایات کے پیش نظر، اہل چھولس "تقوی رضوی" ہیں یعنی پہلے "تقوی" اس کے بعد "رضوی" ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کے فرزندوں کی تعداد میں شدید اختلاف ہے،[16]؛ لیکن مختلف روایات کے باوجود معتبر منابع اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کی نسل صرف امام محمد تقی علیہ السلام کے ذریعہ ہی چلی، بعنوان مثال: تہذیب الانساب، ابن طباطبا؛ لباب الانساب، ابن فندق؛ التذکرہ فی انساب المطہرۃ، ابن مہنا؛ عمدۃ الطالب فی انساب ابیطالب، ابن عنبہ؛ المعقبون من آل ابیطالب، مہدی رجائی؛ المشجر الوافی، ابوسعیدہ موسوی؛ کنز الانساب الموسوم بہ گلزار شمس تبریز؛ چودہ ستارے، علامہ نجم الحسن رضوی کراروی؛ فیضان سادات (شجرہ امروہہ)؛ شجرہ سادات رضوی کارگل، گلگت و کشمیر؛ حدیقۃ الزھرا معروف بہ گلستان زہرا سلام اللہ علیہا؛ وغیرہ جیسے متعدد، مؤثق اور قدیمی منابع نے یہ ثابت کیا ہے کہ جتنے بھی "رضوی" ہیں وہ در حقیقت "تقوی" ہیں اور "سادات رضوی" خود کو "رضوی" اس لیے لکھتے ہیں کہ ان کی نظروں میں امام محمد تقی علیہ السلام کی وصیت ہے کہ "میری نسل خود کو "تقوی" لکھنے کی بجائے "رضوی" لکھے تاکہ میرے بابا کا نام زندہ رہے"۔ ساداتِ چھولس کا سلسلہ کچھ اس طرح ہے: "امام محمد تقی علیہ السلام" ان کے بیٹے "حضرت موسی مبرقع علیہ السلام" ان کے بیٹے "ابوالمکارم سید احمدؒ" ان کے بیٹے "ابوعلی سید محمد اعرجؒ" ان کے بیٹے "ابو عبد اللہ سید احمد نقیب قمؒ" ان کے بیٹے "ابو محمد سید حسن معروف بہ شاہ حسن روشن چراغؒ"، ان کے بیٹے "شاہ محمد تقی کربلائیؒ" ان کے بیٹے "شاہ محمد علی نقیؒ" ان کے بیٹے "شاہ سید علیؒ" ان کے بیٹے "سید علی اکبر مودودیؒ" ان کے بیٹے "سید محمد مولائیؒ" ان کے بیٹے "سید علیؒ" ان کے بیٹے "سید جلال بیہقیؒ" ان کے بیٹے "سید محمدؒ" ان کے بیٹے "سید علاء الدینؒ" ان کے بیٹے "سید علی سبزواریؒ"۔ اس کے بعد سید علی سبزواریؒ کے یہاں چار بیٹے پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ سید علی سبزواریؒ کے ذیل میں کیا گیا ہے، ان کے ذریعہ "چھولس سادات" نام کی بستی، سادات کے نام سے پہچانی گئی۔[17]۔

چھولس سادات کی عزاداری[ترمیم]

چھولس سادات - روز عاشور کا جلوس

چھولس سادات کی عزاداری کم سے کم اتنی قدیمی ہے جتنی قدیمی یہ بستی ہے۔ اس بستی میں جتنے بھی امامباڑے ہیں ان میں سے کوئی امامباڑہ ایسا نہیں ہے جس میں مجالس منعقد نہ ہوتی ہوں!۔ چھولس سادات کے علم آس پاس کے علاقوں میں مشہور ہیں کیونکہ اس بستی کے علم بہت لمبے لمبے ہوتے ہیں، لمبے علموں میں سب سے چھوٹا علم پچیس فٹ کا ہے اور سب سے لمبا علم پچاس فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ چھولس سادات کے بعض پروگرام بہت مشہور ہیں مثلاً: اٹھائیس رجب میں عباسنگر کے بڑے امامباڑہ سے "نواسہ رسول کا مدینہ سے سفر" کے عنوان سے تاریخی جلوس، محرم کی سات تاریخ کی رات میں عباس نگر (گڑھی)کے بڑے امامباڑہ سے ذو الجناح کا جلوس، محرم کی آٹھ تاریخ میں امامبارگاہ محل میں جناب عباس علیہ السلام کا علم مبارک، آٹھ محرم الحرام کی شام میں علم ہائے مبارک کی ملائی جس میں دو بھائیوں کی ملاقات کا منظر دکھایا جاتا ہے،[18]؛ محرم کی نو تاریخ کی رات میں امامبارگاہ دیوانخانہ سے ذو الجناح کا جلوس، عشرہ محرم کا جلوس، سولہا صفر میں اٹھارہ بنی ہاشم کے تابوت، سترہ صفر میں امام سجاد علیہ السلام کے بستر کی شبیہ، سترہ صفر کی شب میں امامبارگاہ بیت الشہید میں شب بیداری، اٹھارہ صفر میں جناب عباس علیہ السلام کے تابوت کی تدفین کا دلخراش منظر، انیس صفر میں بڑا امامباڑہ چھولس سادات میں جناب علی اکبر علیہ السلام کی شبیہ تابوت و ذو الجناح، روز اربعین کا جلوس، اکیس صفر میں امامبارگاہ پیر کی پٹی میں سب بیداری اور آٹھ ربیع الاوّل میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت اور ایام عزا کا آخری جلوس۔ اس کے علاوہ چونکہ آبادی زیادہ ہے اس لیے آئے دن کسی نہ کسی امامباڑہ میں مجلس منعقد ہوتی رہتی ہے، کسی کا سوّم، کسی کا چہلم، کسی کی چھماہی، کسی کی برسی اور کسی کا ایصال ثواب وغیرہ۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://en.wikipedia.org/wiki/Chholas_Sadat
  2. https://ur.wikipedia.org/wiki/سید_غافر_رضوی_چھولسی
  3. Chhaulas Sadat, Tarikh o Shajraat, Urdu, Page.22
  4. Gulistan e Rizvia, Urdu, Page.14
  5. Chhaulas Sadat, Tarikh o Shajraat, Urdu, Page.12
  6. https://ur.wikipedia.org/wiki/سید_ذاکر_رضا_چھولسی
  7. https://ur.wikipedia.org/wiki/سید_غافر_رضوی_چھولسی
  8. https://ur.wikipedia.org/wiki/علمائے_چھولس_سادات
  9. https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
  10. Tarikh e Jarcha o Chhaulas, Prof. Nabi Hadi, Urdu, Page: 41 & 221
  11. Chhaulas Sadat, Tarikh o Shajraat, Urdu, Page.19
  12. https://ur.wikipedia.org/wiki/حوض_خاص
  13. https://en.wikipedia.org/wiki/Hauz_Khas
  14. https://en.wikipedia.org/wiki/Hauz_Khas_Complex
  15. Tazkera e sadat e Jarcha o Chhulas, Prof. S.Nabi Hadi Chhaulsi, Urdu, Page,24
  16. Gulsitan e Rizvia, Maulana S.Zakir Raza Rizvi, Page:24
  17. Gudasta e Rizvia, S.Ghulam Hasnain Najm, Page:18
  18. https://www.youtube.com/watch?v=WIkNbLM9czE