چین میں تاریخ اسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسجد ہوائشنگ

چین میں اسلام کی آمد اور اِس کی تبلیغ ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔چین میں مجموعی طور پر تبلیغ اسلام کا آغاز ساتویں صدی میں ہوا اور یہ تبلیغ اور اشاعت اسلام کا کام سترہویں صدی تک یعنی منگ خاندان کے زوال تک جاری رہا۔

چین میں اسلام کی آمد کے ماخذ[ترمیم]

چین میں داخلہ ٔ اسلام کی ایک غیر مستند روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہجرت حبشہ کے زمانہ میں دو صحابیٔ رسول جعفر ابن ابی طالب اور سعد بن ابی وقاص چین آئے تھے۔ اِس روایت کے متعلق کوئی تاریخی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ اِن دونوں صحابیوں کا مدفن جزیرہ عرب ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق سعد بن ابی وقاص چین کے تیسرے اور اپنے آخری دورے میں 650ء سے 651ء کی وسطی مدت میں چین آئے جو خلیفہ سوم عثمان غنی کا عہدِ خلافت تھا۔ اگر یہ تاریخی روایت درست ہو تو یہ واقعہ چین کے شہنشاہ گاؤژونگ کے عہد کا ہے جو 649ء سے 683ء تک شہنشاہ چین تھا۔

تانگ خاندان[ترمیم]

تانگ خاندان کے دور میں چین کی خوش حالی کی راہیں برقرار ہوئیں تو لوگوں کے اذہان تجارتی اور ذہنی ترقی کی جانب مائل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں مغربی ایشیا کے مختلف مذاہب کا اثر چین کی زندگی پر پڑنا شروع ہوا۔ بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت بھی اِسی زمانے میں چین میں داخل ہوئے۔ اسلام جو ابتداً خلافت راشدہ کے دور میں جزیرہ عرب سے نکل کر ایشیاء میں منتقل ہو رہا تھا، وہ ما وراء النہر میں پہنچتا ہوا چین میں داخل ہوا۔ تقریباً تیس سال کے عرصے میں مسلم آبادیاں ایشیا میں قائم ہو چکی تھیں اور مسلمان جب ما وراء النہر میں داخل ہوتے ہوئے مشرقی ترکستان پہنچے تو وہاں کے باشندے بھی اسلام سے فیض یاب ہوئے اور منجملہ اُن سب قبائل کے جنھوں نے اسلام قبول کیا، اُن میں ایک قبیلہ ’’ہوئی چِہی‘‘ بھی تھا۔ وہ لوگ قتیبہ بن مسلم کے زمانہ میں حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہوئے اور آج چینی زبان میں ان مسلمانوں کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ کہتے ہیں، جس کی اصل ’’ہوئی چِہی‘‘ تھی اور یہ نام غیر مسلمانوں نے اُن مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا جو عہد تانگ خاندان میں اسلام لائے۔ کیونکہ اُن کے اکثر افراد اُس زمانے میں ’’ہوئی چِہی‘‘ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یوآن خاندان یعنی ابتدائی مغلوں کے زمانہ میں ان مسلمانوں نے ’’ہوئی چِہی‘‘ کے نام سے اِجتناب کیا اور ’’ہوئی چِہی‘‘ کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ میں تبدیل کر دیا، کیونکہ یہ لفظ اُن کے نزدیک بالکل اسلام کا مفہوم ادا کرتا ہے اور مشرق بعید میں آج تک وہ اِسی نام سے مشہور ہیں۔[1]

سونگ خاندان[ترمیم]

907ء میں تانگ خاندان کی سلطنت ختم ہو گئی تو سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا۔ تانگ خاندان کے عہد میں تبلیغ اسلام اپنے عروج پر رہی اور مختلف قبائل نے اسلام قبول کرکے چینی علاقوں اور صوبوں میں آبادیاں قائم کیں۔ سونگ خاندان کے دوسرے حکمران شہنشاہ تائی ژونگ (دور حکومت: 976ء تا 997ء) کے زمانہ ٔ حکومت میں کاشغر کے حاکم بغرا خان نے چینی ترکستان پر لشکرکشی کردی، کیونکہ بغرا خان والی ٔ خراسان کے ماتحت تھا اور اِس لشکرکشی کے بعد بغرا خان نے چینی ترکستان کو اپنے ماتحت کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بنا لیا اور شمال و جنوب میں ’’یتان و شان‘‘ کو اُن کی سکونت کے لیے مقرر کر دیا، چونکہ اُن میں سے اکثر مسلمان تھے، اِس لیے اُن کو آزاد کر دیا اور اُن کو یہ اختیار دِیا گیا کہ جہاں اُن کا جِی چاہے، وہ وہاں مقیم ہو سکتے ہیں۔ آج چینی ترکستان اور کانسو میں ایک مسلم قبیلہ ’’جوتون گان دل‘‘ (دونغان) کے نام سے مشہور ۔ موجودہ لوگوں کا بیان ہے کہ یہ قبیلہ اُن لوگوں کی اولاد ہے جن کو بغرا خان نے 976ء سے 987ء کے زمانہ میں قید کر دیا تھا۔[2] 1068ء میں صفر خان حاکم بخارا نے جو غز ترک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا، چین کے دار الحکومت آیا اور شہنشاہ چین سے ملاقات کی جس کی وجہ سے حکمران چین اور مسلمانوں کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ سونگ خاندان کے چوتھے حکمران رین ژونگ نے اُس کا شاندار استقبال کیا اور دربارِ چین میں اُس کو خاص مہمان کی حیثیت سے رکھا اور اُن کی دوستی و تعلقات ایسے بندھے کہ بعد میں کشیدہ نہیں ہوئے۔[3]

یوآن خاندان[ترمیم]

یوآن خاندان کے امرا میں مسلمانوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ تاریخ یوآن میں درج ہے کہ شہنشاہ شین چونگ (عہد حکومت: 1312ء) نے ایک شخص حسن نامی کو اپنا وزیر مقرر کیا مگر اُس نے پہلے عہدہ قبول نہ کیا کیونکہ حسن مغل دستور سے واقف تھا کہ دربار میں عموماً دو وزیر ہوتے تھے، ایک وزیر ایمن اور دوسرا ایسر۔ وزیر ایمن کا مرتبہ وزیر ایسر سے بلند ہوتا تھا اور چونکہ شہنشاہ کو اصرار تھا کہ حسن کو وزیر بنایا جائے، اِسی لیے حسن نے صرف وزیر ایسر کا عہدہ قبول کر لیا۔ وزیر ایمن کے لیے شہنشاہ نے ایک دوسرے شخص بطاش نامی ترک کو منتخب کیا تھا۔ یوآن خاندان کے عہد میں مجلسِ شوریٰ جو صوبہ جاتی حکومتوں سے متعلق ہوتی تھی، شہنشاہ عموماً اُس میں مغل مسلمانوں کو مقرر کیا کرتا تھا۔ اگر اُن میں کوئی قابل اور لائق آدمی نہ مل سکتا تو ترک مسلمان منتخب کر لیا جاتا۔ اور اگر ترک مسلمان بھی اِس عہدے کے لائق نہ ملتے تو تب ہان مسلمانوں کا انتخاب ہوتا تھا۔ عام طور پر ہانیوں کو چینی مسلمان کہتے ہیں۔ 1258ء میں سقوط بغداد میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور بغداد ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ دولت اسلامیہ کے مرکز میں چونکہ علمی زِندگی بالکل فنا ہو چکی تھی اور سوائے کھنڈر شہر کے بغداد کی حیثیت کچھ بھی باقی نہ رہ گئی تھی۔ ایسی حالت میں چین میں تبلیغ اسلام وسیع پیمانے پر جاری رہی۔ اِس زمانے میں عربی علوم و فنون کو چین میں مروج ہوئے اور علم طب، علم نجوم اور فنِ سپہ گری کے شعبہ جات پر مسلمان فائز ہوتے رہے۔[4] یوآن خاندان کے میں محکمہ ٔ تاریخ نویسی پر جو 1227ء میں قائم کیا گیا تھا، میں جب کام بڑھتا گیا تو شہنشاہ نے چینیوں اور مسلمانوں سے پانچ افسران منتخب کرکے اِس ادارے میں مقرر کیے کہ تاریخ مرتب کرنے میں وہ مدد کریں۔ 1314ء میں مسلمانوں کے لیے دارالاستفتاء کی بنیاد رکھی گئی جن میں بڑے بڑے مسلمان علما مقرر ہوئے۔ محکمہ ٔ فوج میں بھی ہزاروں مسلمان کام کرتے تھے جو فن سپہ گری سے واقف تھے۔ 1346ء میں توپچی کا عہدہ بھی مسلمانوں کے سپرد کر دیا گیا اور 1353ء میں محکمہ الفوج والبحر بھی قائم ہوا جس میں مسلمان فوجوں کے لیے درجہ ٔ اول کے دستے موجود تھے۔ [5]

منگ خاندان[ترمیم]

منگ خاندان کے ہم عصر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور عرب سمیت افریقہ اور یورپی ممالک کے ایک حصہ پر سلطنت عثمانیہ قائم تھیں۔ منگ خاندان کے عہد میں مسلمانوں نے نہ صرف فوجی ملازمتوں میں حصہ لیا بلکہ تمدنی اور عمرانی عہدوں پر بھی اپنی استعداد اور ذہانت ظاہر کی۔1383ء میں علامہ ٔ زمان کو تقویم ہجری کے متعلق کرۂ ارض کے طول و عرض کے متعلق جو کتب عربی زبان میں مل سکیں، اُن کو چینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مقرر کیا گیا۔ دراصل یہ بات تھی کہ ابتدا میں جب امیرالفوج نے دار السلطنت پر قبضہ کیا تھاتو یوآن خاندان کے شاہی کتب خانوں میں بہت سی ایسی کتب پائی گئیں تھیں جو غیر ملکی زبانوں میں تھیں اور اُن کتابوں کے متعلق لوگ بیان کیا کرتے تھے کہ وہ قدیم علما اور حکما کی تصانیف ہیں جن میں عقل اور حکمت آمیز اقوال موجود ہیں اور عام گمان یہ تھا یہ کسی چینی کو یہ طاقت نہیں کہ اُن اقوال کی تاویل کرسکے۔ چونکہ شہنشاہ تائی چُو ایک دانشمند اور سمجھدار دانا شہنشاہ تھا، لہٰذا اُس نے اُن کتب کو محفوظ رکھنے کا حکم دِیا آخر کار تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ سب کتب عربی زبان میں تھیں۔ شہنشاہ تائی چو نے علاقہ ہویہ چونگ اور لی زَن اور شیخ المشائخ کو حکم دِیا کہ اِن کتب کا ترجمہ عربی زبان سے چینی زبان میں منتقل کر دیں تاکہ تقویم عالم کی تدوین میں اِن کتب سے مدد مل سکے۔ یہ واقعات تاریخ منگ خاندان کے سینتیسویں حصہ میں مندرج ہیں۔ بعد ازاں اِن کتب پر تحقیق جاری رہی کہ یہ ترجمہ شدہ کتب کہاں چلی گئیں؟۔ مذکورۂ بالا بیانات سے واضح ہے کہ منگ خاندان میں اِسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت حاصل تھی، نہ صرف حکام اِن سے دلچسپی لیتے تھے، بلکہ شہنشاہِ وقت بھی اِن کے پھیلانے میں حتیٰ الامکان کوششیں اور اِمداد کیا کرتے تھے۔[6]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 8۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء
  2. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 22۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء
  3. بدرالدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 23۔ مطبوعہ اعظم گڑھ، 1935ء
  4. بدر الدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 25/26۔ مطبوعہ 1935ء
  5. بدر الدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 26۔ مطبوعہ 1935ء
  6. بدر الدین چینی: چینی مسلمان، صفحہ 25/26۔ مطبوعہ 1935ء