چین میں تیار کردہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

چین میں تیار کردہ (انگریزی: Made in China) ایک لیبل ہے جو عمومًا چین میں تیار کردہ مصنوعات پر لگایا جاتا ہے۔ چین 1989ء تیاننمین چوک احتجاج کے بعد جو ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ شدید طرز کا مخالف کمیونسٹ احتجاج، اپنے مقاصد میں اس اعتبار سے کامیاب ہوا کہ ملک کی حکومت قدامت پسند اشتراکیت کی بجائے کھلے بازار اور وسیع پیمانے پر صنعتییانے کی پالیسی اختیار کر لی۔ اس کی وجہ سے مصنوعات کی تیاری چین میں کافی بڑھ گئی اور اس کار خانہ داری کی تبدیلی کو حکومت نے اضافہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے حکومت کی ایک مسلمہ پالیسی بن چکی ہے کہ وہ کسی بھی فیکٹری یا کاروباری ادارے کو لائسنس دیتے وقت یہ دریافت کرتی ہے کہ وہ کتنی مصنوعات کو باہر فروخت کرتا ہے۔ چین کی حکومت خود وہاں کے مصنوعات کے تیار کنندوں کی باہری ملکوں کے کاروباریوں سے ربط کرنے اور انھیں مصنوعات فروخت کرنے میں مدد کرتی ہے۔ چینی صنعت ہر قسم کی مصنوعات اور ہر ملک اور معاشرے کے لیے مصنوعات تیار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت جیسے ملک کے لیے چین بسنت یا مکر سنکرانتی کے لیے پتنگ، چرخ اور مانجھا تک تیار کرتا ہے، ہولی کے لیے رنگ فراہم کرتا ہے اور دیپاولی کے لیے پٹاخے تیار کرتا ہے۔ اسکولی بچے جب بازار سے پنسل، ربڑ وغیرہ خریدنا چاہتے ہیں تو انھیں بھارت کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ چینی مصنوعات بھی متبادل کے طور پر ملتے ہیں۔ اسی طرح سے دفتری مصنوعات جیسے کہ اسٹیپلر، ٹوچن وغیرہ کا حال ہے۔ بازار کے بچوں کے کھلونے، بناؤ سنگھار کا سامان، وغیرہ ہر چیز میں چینی متبادل موجود ہے۔ مسلمان ممالک میں عام طور سے قرآن کے تسخوں اور جائے نمازوں کی بہت مانگ ہوتی ہے۔ چین ان مصنوعات کو بھی فراہم کرتا ہے۔ ایضًا چین تسبیحات بھی بناتا ہے، جو روایتی اور ڈیجیٹل دونوں شکلوں میں دست یاب ہیں۔ یہ باوجود اس کے ہیں کہ چین اپنے ہی ملک میں اویغور مسلمانوں پر قید و بند کی مشکلات برپا کر رہا ہے۔ چینی کمپینوں نے ایک طرف جہاں مجسمہ اتحاد کی تیاری کا بیڑا اٹھایا، وہیں انھوں نے مکہ میٹروں کا بھی ذمہ اٹھایا۔ جدید طور یہ چینی مصنوعات الیکٹرونک مصنوعات اور موبائل فونوں کی تیاری میں نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں۔

مصنوعات کی عدم حوصلہ افزائی[ترمیم]

ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے لگ بھگ 150 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر یکم ستمبر 2019ء سے دس فیصد محصولات عائد کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ صدر کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد کرسمس کے موقع پر صارفین کو مہنگائی کے اثرات سے بچانا ہے۔ اسی طرح سے کچھ اور ملکوں نے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]