عبد القدیر خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ڈاکٹر عبدا لقدیر خان سے رجوع مکرر)
عبد القدیر خان
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 اپریل 1936ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھوپال   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 اکتوبر 2021ء (85 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسلام آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات کووڈ-19 [3]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن شاہ فیصل مسجد [4]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1936–1947)
ڈومنین بھارت (1947–1950)
بھارت (1950–1952)
پاکستان (1952–2021)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قد
عملی زندگی
مادر علمی ڈلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی
جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ طبیعیات دان [5]،  انجینئر ،  اکیڈمک ،  دھات کار ،  نظریاتی طبیعیات دان ،  جوہری طبیعیات دان ،  سائنس دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل طبیعیات ،  نویاتی طبیعیات ،  دھات کاری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ڈلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ،  یورینکو گروپ ،  خان ریسرچ لیبارٹریز ،  غلام اسحاق انسٹیٹیوٹ برائے انجینیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر سلطان بشیر الدین محمود   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 نشان امتیاز   (1999)
 ستارۂ امتیاز  
 ہلال امتیاز  
فیلو پاکستان سائنس اکادمی   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ڈاکٹر عبد القدیر خان (پیدائش: 1 اپریل 1936ء - وفات:10 اکتوبر 2021ء) پاکستانی سائسندان اور پاکستانی ایٹم بم کے خالق تھے۔

پیدائش[ترمیم]

ڈاکٹر عبد القدیر خان ہندوستان کے شہر بھوپال میں ایک اردو بولنے والے گھرانے میں 1 اپریل 1936ء کو پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئےـ عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئری کی اسناد حاصل کیں۔

عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئری ریسرچ لیبارٹریز" کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نومبر 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔

جدید روایتی میزائل کا معائنہ کرتے ہوئے

عبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انھوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں ـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ

عبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنھوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔ 10 اکتوبر 2021 اسلام آباد میں وفات پائی۔ اللّٰہ پاک ان کی بخشش فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔

ایٹم بم[ترمیم]

مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی۔ بالآخر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورمیں آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیےـ

اس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔

اس کے بعد سے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے خام تیل مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ مغربی دنیا نے پرپگینڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔ پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔

مضامین[ترمیم]

انھوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔

اعزازات[ترمیم]

1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔

فاروق لغاری سے نشان امتیاز حاصل کرتے ہوئے

14 اگست 1996ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغا بھی ان کو عطا کیا گیا۔

مزید خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیچٹ (sachet) کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا ـ جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔

شادی[ترمیم]

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران میں ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

Najmuddin Roghani

وفات[ترمیم]

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صبح 6 بجے کے قریب پھیپھڑوں کے مرض کے سبب کے آر ایل ہسپتال لایا گیا تھا جہاں ان کی طبیعت مزید خراب ہو گئی، ڈاکٹروں اور طبی ماہرین نے انھیں بچانے کی پوری کوشش کی تاہم 10 اکتوبر 2021ء کی صبح 7 بج کر 4 منٹ پر وہ پاکستانی قوم کو سوگوار چھوڑ کر. دار فانی کو الوداع کہہ گئے ، ڈاکٹر عبدالقدیر کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی [6] وجہ وفات کورونا پیچیدگی اور پھیپھڑوں سے خون بہنا تھی۔[7]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]