ڈاکٹر مسعود محمود خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ڈاکٹر مسعود محمود خان كرٹن یونیوررسٹی آسٹریلیا میں پروفیسر ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور كمپیو ٹر سائنس میں مہارت اور اس شعبہ میں تحقیق كے حوالے سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر مسعود محمود خان کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی ہے۔ انھوں نے اسی شہر سے بنیادی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انجینئری کی سند کراچی کی مایہ ناز درسگاہ جامعہ این ای ڈی سے حاصل کی۔

زمانہ طالب علمی میں ١٩٧٧ سے ١٩٨٤ کے دوران ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا اور وہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے سرگرم رہنما بھی تھے۔

ڈاكٹر مسعود امریكن یو نیورسٹی آف شارجہ كی تا سیسی سینیٹ كے منتخب ركن ہونے کے علاوہ ١٩٩٩ سے ٢٠٠٧ تك امریكن یو نیورسٹی آف شارجہ میں بطور پروفیسر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

قبل ازیں ڈاکٹر صاحب برونائی دارالسلام کے جیفری بلقیہ کالج آف انجینئری میں شعبہ کمپیوٹر کے سربراہ تھے۔ وہ گذشتہ پندرہ برس سے مصنو عی ذہا نت اور توانائی كے شعبوں میں تحقیق میں مصروف ہیں اور اب تك ٤٠ سے زیادہ تحقیقی مقالات لكھ چكے ہیں۔

مسعود محمود خان پی ایچ ڈی اور انجینئر ہونے کے علاوہ ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ ان کا کلام عصرِ حاضر کی سیاست، تصوف اور دکھوں کے علاوہ ظنز اور مزاح کے رنگوں پر مشتمل ہےـ انتر نیٹ پر موجود ان کی شاعری کا کچھ نمونہ کلام درج ذیل ہے۔

شا عری[ترمیم]

شریف آدمی اور كراچی[ترمیم]

شہرِ قا تل میں لرز ا ں شر یف آ د می
دشتِ وحشت میں گرداں شریف آدمی

دردِ و حیر ت سے آ نكھوں كو ملتا رھا
ز یرِ تیغ ہا ئے یاراں شر یف آ د می

اپنے ہی خوں كے دھبو ں كو دھوتا رہا
بر سرِ قتل حیر ا ں شر یف آ د می

نقشِ قا تل كو رنگِ لھو رنگ كر
اپنے لا شے پہ رقصا ں شر یف آ د می

جسم گو ہیں رواں چھا ر سو شہر میں
آ د میت كو تر سا ں شر یف آ د می

ہر د ھن خونِ آ د م سے رنگین ہے
كس پہ كھولے زبا ں یا ں شریف آدمی

لا شہُ فكر و فن دوشِ جانِ مسعو د
اپنے گھر سے گر یز اں شریف آدمی ْْْ ْ

ْ ْحالات سے تنگ آكر كراچی چھوڑ جا نے والوں كی جا نب اشا رہ ہے

اشك[ترمیم]

ز خم كھا تے ہیں اشك پیتے ہیں
اس طرح سے بھی لو گ جیتے ہیں

بارشِ درد و غم كے تھمنے تك
ما ہ گذر ے ہیں سا ل بیتے ہیں

لُطفِ د ر دِ جگر بڑ ھا نے كو
مسكر ا ہٹ سے ہو نٹ سیتے ہیں

د ستِ د لبر ہے جا ں ہے مقتل ہے
تُف ہے ُان پہ جو اب بھی جیتے ہیں

كھ گئے و ہ جو اُن كو كھنا تھا
ہم گریبا ں كے چا ك سیتے ہیں

كیو ں گنا ہگا ر ہوں بھلا مسعود
چشمِ مخمو ر ہی سے پیتے ہیں

اچھے دن[ترمیم]

نظر میں تھے كبھی دستِ غر یب میں تو نہ تھے
وہ جانِ سوختہ كے یو ں قر یب میں تو نہ تھے

رہِ حیا ت كا ھر سنگ خو د تر ا شا ہے
یہ آ بلے میر ے لو حِ نصیب میں تو نہ تھے

شكستہ پا كو ئی گز ر ا ہے كوچہٴ جا ں سے
كہ نا لے ظا بطہ ھا ئے شكیب میں تو نہ تھے

تلا ش ا پنے ہی د ل میں ہمیں كیا ھو تا
گم ھو گئے تھے د یارِ غر یب میں تو نہ تھے

ھر ا یك سنگ خد ا بن گیا ہے كیو ں مسعو د
كہیں و ہ آج د یا رِ منیب میں تو نہ تھے

دہشتگر دی كیخلاف جنگ پاكستان كے مفادمیں ہے[ترمیم]

(بمباربش اور زرداری)_ ٢٥ ستمبر ٢٠٠٨

و ھا ئٹ ہا وُ س سے قافیہ آیا
صدر صا حب نے شعر فر ما یا
د ا د د یتے نہیں عو ا م مگر
بش یہ كہتے ہیں خوب فرمایا

شھداءجمعیت كے نام[ترمیم]

یہ سلا م ١٩٨٧ میں كرا چی جمعیت كے ركن عامر سعید كی شھا دت كے مو قع پر لكھا گیا تھا_

شھیدِ زندہ كی اے مادرِ كریم سلام
خدا نے آپ كو بخشا ہے یہ عظیم مقام
پكار تے ہیں فرشتے حضورِ ربِّ جلیل
جنابِ فاطمہ زہرا كے سا تھ آپكا نام

سلام تیری سعادت كو اے میرے ہمدم
سلام تیری عبادت كو اے میرے ہمدم
تیری شھادتِ حق كا گواہ ربِّ جلیل
سلام تیری شھادت كو اے میرے ہمدم

ہو ئی ہے ظلمتِ شب تیرے خون سے زائل
تیرے مقام كا ہر نوجوا ن ہے سا ئل
ہوا ہے زندہ و جا وید تو دو عا لم میں
مگر وہ دستِ ستم آج ہو گیا گھا ئل

حضورِ سر ورِ كو نین جب تو جا ئیگا
ہر ایك قطرہ تیرے خوں كا جگمگا ئے گا
كرو ڑوں دستِ دعا گو گوا ہی دیتے ہیں
تیرے لھو سے اب اِك انقلا ب آ ئیگا

ستارہ بن كے ہر ایك زخم جگمگا ئے گا
لھو شھید كا ایك روز رنگ لا ئیگا
جس انقلا ب كی دعوت رسولِ پاك نے دی
ہمارے ملك میں وہ انقلاب آ ئے گا

تیرے رفیق نہ دا من صبر كا چھو ڑیں گے
مسعود ہم نہ یہ رستہ امن كا چھو ڑیں گے
زما نہ كرتا رہے ہم پہ ظلم و جور مگر
رسولِ پاك كی سنت كو ہم نہ چھو ڑیں گے