کابلگرام و اخون خیل قوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اخوند خیل ( اخوند سالاک) شانگلہ پاکستان کے شمالی صوبے خیبر پختون خواہ کا سب سے پسماندہ ضلع تو ہے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ قدرت کے دست ہنر شناس نے اسے جس حسن سے مالامال کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، جس میں بلند وبالا خوبصورت پہاڑبھی اس ضلع کے حسن کو چار چاند لگاتے ہیں، شانگلہ کا ہیڈ کوارٹر الپوری ہے، یہ ضلع دو تحصیلوںپر مشتمل ہے، ایک بشام ہے ، جہاں سے شاہراہ رے شم گزرتی ہے اور موجودہ سی پیک بھی بشام سے گذرے گی ، دوسرا تحصیل پورن ہے ، اسی تحصیل کا ایک گاﺅں جس کو ہم کابلگرام (کابل گرام) کے نام سے پہچانتے ہے ۔ کابلگرام جس کا ابتدائی نام کابل گران تھا ، دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے ، خوبصورت بل کھاتے پہاڑ وں کے درمیان یہ خوبصورت گاﺅں ایک طویل تاریخ بھی رکھتاہے ۔ سترھوئیں صدی سے قبل موجودہ پاکستان کے شمالی صوبے کے پہاڑی علاقوں میں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے ، مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ، مسلمان جو ان علاقوں میں آباد تھے وہ زیادہ تر ہندﺅں اور سکھوں کے ہاں غلامانہ زندگی گزارتے تھے ۔ سترھوئیں صدی کے آخر میں افغانستان سے ایک لشکر جہاد کرنے کے غرض سے ان حسین پہاڑوں کی جانب نکلا ،جس کی قیادت اخون پنجو باباؒ(سید عبد الوہاب ؒجن کی مرقد پشاور میں ہے ) کے مرید خاص اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کر رہے تھے، اخون سالاک باباؒ جن کا اصل نام عبدالاکبر ؒ ہے ، ( بعض مورخین نے آپ ؒ کا نام محمد اکبرشاہ اور کچھ نے سید اکبر شاہ لکھا ہے۔ کجھ نے آپ کا تعلق خٹک ، ترین اور درانی قوم سے بتایا ہے جبکہ آپ کی اولاد نے خود کو اخوند خیل کہنا ہی پسند کیا ہے۔ غازی اخون سالاک بابا سولہویں صدی کے صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ آپ خٹک قوم کے پیر بھی کہلاتے ہیں۔ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق ترکستان سے تھا۔ ترکستان بخارا سے تعلق ہونی کی وجہ سے ان کو سادات کا اہل چشم بھی تصور کیا جاتا ہے۔بعض مؤرخین کے مطابق آپ کا خاندان خوست میں آکر آباد ہوا جبکہ بعض نے توغہ لکھا ہے۔ غازی اخون اور ان کے بھائی اخون سباکؒ سید عبد الوہاب المعروف اخون پنجو صاحب کے مرید و خلیفہ تھے ،

ڈوما کافر ایک طاقتور سردار تھا گر چہ وہ ہندو تھا،مگر ان کی فوج میں ایک بڑی تعداد سکھوں کی تھی ۔ 1614عیسوی میں اخون سالاک بابا رحمہ اللہ کی قیادت میں مسلمانوں نے ایک زبردست حملہ کرکے ڈوما کافر اور اس کی فوج کو شکست دی اوربونیر میں اسلامی پرچم لہرایا ، اس جہادی لشکر میں شمشی خیل قبائل کا ایک خاص کردار رہا اور فتح کے بعد کچھ قبائل نے یہاں رہائش اختیار کرلی تاکہ علاقہ پر قبضہ برقرار رہے ، شمشی خیل قبائل دریائے سندھ کے قریب گنانگر میں آباد ہوئے اور چکیسر سے پیرسر تک کے علاقوں پر وہ قابض رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنے ہی لوگوں پر ظلم و جبر شروع کردیے اور لوگ ان کی وحشایت سے تنگ آگئے تھے اور ایک دن اللّٰہ کے آسمان غضب یعنی تندری پانی نے پورے گاؤں کو بہا دیا ایک یا دو بندے جو گاؤں میں نہیں تھے بچ گئے تھے جو آج بھی گنانگر میں آباد ہے اور ان کے جائداد پر کانا غوربند کے لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا جو آج چکیسر میں آباد ہے ،اس کے علاؤہ شمشی خیل قبائل صوابی ، بنوں اور وانا وزیرستان میں کثیر تعداد میں آباد ہے ،(جبکہ بعض تاریخ دانوں کے مطابق ڈوما کافر کو باکوخان نامی ایک مسلمان سردار نے شکست دی تھی. مگر ان تاریخ دانوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ باکو خان نے اخون سالاک بابا ؒکی مدد حاصل کی تھی، ڈوما کافر کو شکست دینے میں)بونیر کو فتح کرکے اخون سالاک باباؒ نے کچھ عرصہ بونیر کے ایک” گاﺅں کوریا “میں قیام کیا ۔ جس کے بعد آپ ؒ نے لشکر لے کر ہزارہ کی جانب کوچ کیا۔راستے میں کئی سارے گاﺅں، دیہات فتح کرتے ہوئے ہزارہ کوہستان تک پہنچ گئے۔ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوریوں اور مختلف بیماریوں نے جھکڑا تو واپسی کی راہ لی ، بونیر واپس آتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹے سے دیہات میں قیام پزیر ہوئے ، یہیں وہ علاقہ ہے جس کو آج کابلگرام کہا جاتا ہے۔ (واضح رہے ڈوما کافر کے علاوہ اخون سالاک باباؒ نے اور بھی کئی بڑے فتوحات حاصل کیے، مثلاً موجودہ ضلع شانگلہ ،تورغر اور سوات کے کئی سارے علاقوں پر اسلامی پرچم لہرایا۔ اگر ان کے جہادی خدمات پر تفصیلاً روشنی ڈالی جائے تو ایک زخیم کتاب بن جائے ۔


اخون سالاک بابا ؒ سے اخون خیل قوم تک !

اخون خیل قوم کہاں کہاں آباد ہے؟

اخون خیل صرف اخون سالاک بابا ؒ کی اولاد کو نہیں کہا جاتابلکہ اخون درویزہ بابا کی اولاد کو بھی کہا جاتا ہیں ، اخون درویزہ اور اخون سالاک بابا ؒ ایک ہی وقت کے بزرگ تھے ، اخون درویزہ پیر باباؒ بونیر والے کے مرید اور اخون سالاک بابا ؒ اخون پنجو بابا ؒ پشاور والے کے مرید تھے ۔ اخون درویزہ بابا صوفیانہ طرز کے بزرگ اور قوم سے فارسی بان تھے، جبکہ اخون سالاک باباؒ جہادی عالم تھے۔ اخون سالاک بابا ؒ کے بیٹے اشرف بابا کی اولاد ہزارہ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ اسی طرح اخون عبد الرحمن باباؒ کی اولاد شانگلہ کے مختلف علاقوں مثلاً کابلگرام، ماندوریا، مارتونگ اور خدوخیل میں قاسم خیل اس کے ساتھ دیرکے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ اخوند سالاک بابا کے باقی دو بیٹے بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔