کاظم حسین اثیر جاڑوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف[ترمیم]

سرزمین پاکستان کے علمائے اعلام میں ایسی شخصیت جنھوں نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور علوم آل محمد سے مومنین کو سیراب کیا اور مذہب شیعہ اثنا عشریہ خیر البریہ کے پیروکاروں کو علم دین کی شعاوں سے منور کیا

ولادت[ترمیم]

علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی 1941 کو بستی جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ملک مکھنہ خان تھا۔[1]

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

کلاس ششم تک پڑھنے کے بعد قرآن پاک و دینیات پڑھنے کے لیے مولانا محمد پناہ کی خدمات حاصل کیں ۔[1]

فائل:Allama Jara & Allama Jarvi on Grave Muh Husain Shaad (Shaheed Convension Islamabad).jpg
قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلی اللہ مقامہ، علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی اعلی اللہ مقامہ ، علامہ صابر حسین منڈی بہاو الدین، مولانا خادم حسین گھاگھری ، شہید ملت جعفریہ جناب محمد حسین شاد مرحوم (جو اسلام آباد کنونشن کے موقع پر شہید ہوئے تھے) کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے

تحصیل علوم آل محمد[ترمیم]

اس کے بعد اپنے ماموں علامہ حسین بخش جاڑا اعلی اللہ مقامہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔[1] اور درس نظامی و عربی ادبیات کی تعلیم حاصل کی[2] آپ مدرسہ علمیہ باب النجف جاڑا کے ان طلاب میں شامل ہیں جنھوں نے مدرسہ کے تعمیر کرنے میں استاذ العلماء علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کا ہاتھ بٹایا[3]

عزاداری کے تحفظ اور بقاء کے لیے اختلاف سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہیے ۔ اثیر جاڑوی
علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی مذہبی جرائد و اخباروں کے ایڈیٹرز کے ہمراہ

نجف اشرف روانگی[ترمیم]

1953 میں حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لے گئے ۔[4] اور شرح لمعہ اور معالم الاصول تک تعلیم حاصل کی۔[2][5]

تدریسی سلسلہ[ترمیم]

باب النجف جاڑا[ترمیم]

جب نجف اشرف سے واپس پاکستان آئے تو آپ نے قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے ہمراہ مدرسہ باب النجف جاڑا میں تدریس کی۔[2][5]

جامعہ امامیہ کراچی[ترمیم]

پھر آپ نومبر 1964 میں جامعہ امامیہ کراچی میں بطور مدرس تشریف لے گئے کچھ عرصہ تدریس کرنے کے بعد والد بزرگوار کے انتقال پر واپس وطن جاڑا لوٹ آئے۔[2][5]

باب النجف جاڑا[ترمیم]

یکم اگست کو مدرسہ باب النجف جاڑا میں دوبارہ تدریسی سلسلہ شروع کیا اور کافی طلبہ کرام کو علوم آل محمدؑ سے سیراب کیا[2][5]


قم المقدسہ میں حصول تعلیم[ترمیم]

کچھ عرصہ پاکستان میں تدریس کے بعد آپ 1971 کو قم المقدسہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے ان اساتذہ سے کسب فیض کرتے ہوئے درس خارج پڑھا:

  1. آیت اللہ العظمی سید محمد کاظم شریعتمدار اعلیٰ اللہ مقامہ
  2. آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی دامت برکاتہ

درس و تدریس[ترمیم]

1974 کو قم المقدسہ سے وطن واپسی پر مختلف مدارس دینیہ میں اپنے تدریسی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا اور ترویج علوم آل محمد کے لیے مختلف شہروں کا سفر کیا۔

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام[ترمیم]

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام ضلع بھکر میں درس و تدریس کی ابتدا آپ سے ہوئی۔

مدرسہ دیووال[ترمیم]

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام کے بعد دینی مدرسہ دیووال میں بھی کافی عرصہ تدریس کرتے رہے۔

دار العلوم جعفریہ خوشاب[ترمیم]

اس کے بعد آپ دار العلوم جعفریہ خوشاب میں گئے اور طلبۂ کرام کو دینی تعلیم دی۔[5]


جامعہ حسینہ جھنگ صدر[ترمیم]

16 نومبر 1975 کو جامعہ حسینیہ جھنگ صدر میں تشریف لائے اور ایک عرصہ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے،[5]

مدرسۃ الواعظین لاہور[ترمیم]

جامعہ حسینیہ کے بعد آپ لاہور آئے اور مظفر المدارس (مدرسۃ الواعظین) ایمپرس روڈ لاہور میں طویل مدت تک پرنسپل رہے اور درس و تدریس کرتے رہے۔[2]

تلامذہ[ترمیم]

آپ کے شاگردوں کی ایک فہرست ہے جنھوں نے مختلف مدارس میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جن میں سے چند کے اسماء یہ ہیں:

  1. خطیب علامہ سید ضمیر حسین نقوی آف لاہور
  2. علامہ منظور حسین جوادی آف سرائے مہاجر
  3. علامہ غلام حر قمی آف پہاڑ پور
  4. مولانا غلام محمد باٹھ آف دیووال
  5. مولانا ناصر مہدی جاڑا مرحوم
  6. مولانا ظہیر مہدی جاڑا لاہور
  7. مولانا نذر حسین وجھہ آف سرگودھا

تالیف کتب[ترمیم]

جہاں آپ نے تدریس کے فرائض انجام دیے وہاں آپ نے کتب کی تصنیف و تراجم میں بھی حصہ لیا، تصنیف شدہ کتب یہ ہیں:

  1. الفکر الجدید فی القرآن المجید 3 جلدیں غیر مطبوعہ
  2. آیت العرفان بجواب بلاغ القرآن
  3. عشر کیا ہے
  4. ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے[5]
  5. نماز حیدریہ
  6. جواز متعہ
  7. نظام مصطفی بزبان زوجہ مصطفی
  8. شرح لمعہ کتاب طہارت و طلاق
  9. مطلوب الطالب فی ایمان ابو طالب

جبکہ تراجم میں یہ کتب شامل ہیں:

  1. الارض و التربۃ الحسینیہ
  2. القول السدید فی شرح التجرید
  3. دمعۃ الساکبہ
  4. جزیرہ خضراء
  5. انوار خمسہ
  6. معالی السبطین
  7. کشف الاسرار فی عقائد الابرار

شہادت[ترمیم]

علامہ اثیر جاڑوی 28 مارچ 1992 بمطابق 23 رمضان المبارک کو شہید ہوئے جبکہ آپ کے ہمراہ جواں بیٹے کوثر رضا جاڑا کو بھی شہید کر دیا گیا،[6] آپ کی نماز جنازہ خوشاب میں علامہ ملک اعجاز حسین صاحب کی امامت میں ادا کی گئی اور علاقہ بھر کے مومنین شریک ہوئے۔ اور جب آپ کا جنازہ دریاخان میں پہنچا تو نماز جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق مولانا آغا علی حسین قمی صاحب نے پڑھائی اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد علامہ سید حامد علی موسوی و اراکین، تحریک جعفریہ کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی و اراکین، سید وزارت حسین نقوی، علامہ ملک اعجاز حسین خوشاب، علامہ طاہر ترابی پنجگرائیں، علامہ رمضان توقیر ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ ناصر نجفی خوشاب، علامہ سید تقی نقوی ملتان، علامہ سید امداد حسین شیرازی، علامہ ناصر مہدی جاڑا، مولانا مشتاق حسین کوٹلہ جام اور دیگر علاقہ بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات اور ہزاروں مومنین نے شرکت کی۔ یہ شہر دریاخان کا تاریخی جنازہ تھا جس میں کئی ہزار لوگ شریک ہوئے۔

دفن[ترمیم]

آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو مسجد امامیہ ڈیرہ روڈ دریاخان کے قریب قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے جوار میں دفن کیا گیا۔

اولاد[ترمیم]

آپ کی اولاد میں 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں جن میں سے آپ کی دستار علمی کے وارث مولانا زہیر کاظم جاڑا ہیں جو حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں 8 سال سے تحصیل علم کے لیے مقیم ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان ص244
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث جعفریہ جنتری 1997 مکتبہ انوار النجف دریاخان
  3. تفسیر انوار النجف ج1 اشاعت 2004
  4. مشاہیر میانوالی و بھکر ص44
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج تذکرہ علما امامیہ پاکستان ص244
  6. نظام مصطفی بزبان زوجہ مصطفی ج4 ص223 ایلیاء فاؤنڈیشن بھارت