کام کی جگہ پر خواتین کی جنسی ہراسانی (انسداد، امتناع اور چارہ جوئی) قانون 2013ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Sexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal) Act, 2013
An Act to provide protection against sexual harassment of women at workplace and for the prevention and redressal of complaints of sexual harassment and for matters connected therewith or incidental thereto.
سمنAct No 14 of 2013
Territorial extentWhole of بھارت
نفاذ بذریعہبھارتی پارلیمان
تاریخ نفاذSep 03, 2012 & Mar 11, 2013 (Lok Sabha)
Feb 26, 2013 (Rajya Sabha)
تاریخ رضامندی22 April 2013
تاریخ آغاز9 December 2013
قانون سازی کی تاریخ
بلSexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal) Bill, 2012
حوالہ بلBill No 144-C of 2010
تاریخ اشاعت7 December 2010
Committee reportStanding Committee Report
صورت حال: نافذ

کام کی جگہ پر خواتین کی جنسی ہراسانی قانون 2013ء (انگریزی: Sexual Harassment of Women at Workplace Act, 2013) بھارت کا ایک قانون ہے جس کا مقصد ہے کہ ملک کی خواتین کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے بچایا جا سکے۔ اسے لوک سبھا کی جانب سے 3 ستمبر 2012ء کو منظور کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسے راجیہ سبھا کی جانب سے 26 فروری 2013ء کو منظور کر لیا گیا تھا۔[1] اس بل کو صدارتی منظوری 23 اپریل 2013ء کو حاصل ہوئی۔[2] اس قانون کو 9 دسمبر 2013ء سے نافذ العمل بنایا گیا۔[3] یہ قانون وِشاکھا رہنمایانہ خطوط پر فوقیت رکھتا ہے جو جنسی ہراسانی کے انسداد کے لیے بھارت کے سپریم کورٹ کی جانب سے متعارف کیے گئے تھے۔ بین الاقوامی مزدور ادارے کی اطلاع کے مطابق بہت کم بھارتی آجرین اس قانونی لزوم پر عمل پیرا تھے۔[4][ناقبل تصدیق][5] زیادہ تر بھارتی آجرین نے اس قانون کو نافذ نہیں کیا ہے حالاںکہ قانونی لزوم یہ ہے کہ یہ ہر اس کام کی جگہ نافذ رہے گا جہاں ملازمین کی تعداد دس ہے۔[6] فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی 2015ء کی سالانہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ 36% بھارتی کمپنیاں اور 25% بین الاقوامی کمپنیاں اس جنسی ہراسانی قانون پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ حکومت نے ان آجرین کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کی دھمکی دی ہے جو اس قانون کو نافذ نہ کریں۔[7] [8]

ابتدائیہ اور پس منظر[ترمیم]

اس قانون کا تعارفی متن اس طرح ہے:

ایک قانون جس کا مقصد خواتین کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی تحفظ مل سکے اور اس کے انسداد اور شکایتوں کی چارہ جوئی کے لیے جہاں پر کہ جنسی ہراسانی کی شکایات موصول ہوں اور ان تمام معاملوں کو جس سے جڑے ہوں امر واقعہ متعلق ہوں۔

چونکہ جنسی کے نتیجے میں خواتین کے مساوات کے حق کی پامالی ہوتی ہے جو دستور ہند کی دفعات 14 اور 15 میں ہے اور عورت کے حق زندگی اور باوقار زندگی جینے کا حق جیساکہ دستور کی دفعہ 21 میں مذکور ہے اور کسی بھی پیشے پر عمل کرنے یا اسے جاری رکھنے، تجارت یا کاروبار جس میں یہ حق بھی شامل ہے کہ ایک ایسا ماحول ہو جس میں جنسی ہراسانی نہ ہو۔

اور چونکہ جنسی ہراسانی سے تحفظ اور وقار کے ساتھ کام کرنے کا حق عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق ہیں جنہیں بین الاقوامی کنونشنوں اور آلات جیسے کہ خواتین سے ہر قسم کے امتیاز کو ہٹانے کا کنونشن، جسے 25 جون 1993ء کو بھارت سرکار نے قبول کر لیا؛

اور چونکہ یہ ضروری ہو چکا تھا کہ مذکورہ کنونشن کے لیے گنجائشوں میں وسعت دی جائے تاکہ خواتین کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ [9]


پس منظر اور گنجائشیں[ترمیم]

حکومت ہند کے پریس انفارمیشن بیورو کے مطابق:

یہ قانون اس بات کو یقینی بنائے گا کہ خواتین سبھی کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے محفوظ رہیں، چاہے وہ عوامی ہو یا نجی۔ یہ ان کی جنسی برابری، زندگی، آزادی اور مساوات کے حق میں سبھی کام کے ماحولوں میں معاون ہوگا۔ کام کی جگہ پر حفاظت کا احساس خواتین کی کام میں شراکت داری کو بہتر بنائے گا، جس کے نتیجے میں ان کی معاشی ترقی اور شمالیتی اضافہ ہوگا۔[10]

اس قانون میں جنسی ہراسانی کی وہ تعریف دی گئی ہے جسے بھارت کے سپریم کورٹ نے وِشاکھا بمقابلہ راجستھان ریاست مقدمے میں کی تھی۔[11] بھارت کے دستور کی دفعہ 19 (1) سبھی شہریوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے کسی بھی پیشے سے جڑ جائیں یا پھر اپنا خود کا کاروبار یا تجارت شروع کریں۔ وِشاکھا بمقابلہ راجستھان ریاست مقدمے یہ ثابت ہوا کہ ایسی حرکتیں کو کسی کے ’جنسی مساوات’ اور ’زندگی اور آزادی’ کے حقوق کی نفی کرتے ہیں درحقیقت مظلومہ کے 19 (1) کے تحت بنیادی حق کی نفی ہے۔ یہ فیصلہ نظیر بن گیا کہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی صرف شخصی چوٹ کا معاملہ نہیں ہے۔[12] اس مقدمے کے فیصلے سے وشاکھا رہنمایانہ خطوط دستور کی دفعہ 32 کے تحت جاری ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ لازمی قرار دیا کہ انھیں سبھی تاسیسات کی جانب سے اپنایا جانا چاہیے جب تک کہ اس موضوع پر کوئی قانونی ڈھانچہ بنایا نہ جائے اور اسے منظور نہ کیا جائے۔[13] تاہم یہ قانونی خلا پھر بھی جاری رہی اور سپریم کورٹ نے اپیرل ایکسپورٹ پروموشن کونسل بمقابلہ اے کے چوپڑا ((1999) 1 SCC 759) میں یہ دہرایا کہ وشاکھا فیصلے میں قانون کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ آلوچنا (غیر سرکاری تنظیم) کی ڈاکٹر میدھا کوتوال نے جنسی ہراسانی کے کئی مدلل واقعات پیش کر کے یہ واضح کیا کہ وشاکھا رہنمایانہ خطوط پر مؤثر ڈھنگ سے عمل آوری نہیں کی جا رہی ہے۔ اس خط کو ایک تحریری درخواست بناتے ہوئے سپریم کورٹ نے صورت حال کا جائزہ لیا اور وشاکھا رہنمایانہ خطوط پر ملک پھر میں عمل آوری کی نگرانی شروع کی۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وشاکھا رہنمایانہ خطوط کی عدم عمل آوری یا عمل پیروی کی صورت میں مظوم اشخاص کو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا کھلا اختیار حاصل ہے۔[14]

اس قانون کو بنانے میں لمبا وقت لگا۔ اس بل کو اولًا خواتین اور بچوں کی بہبودگی کی وزیر کرشنا تیرتھی نے 2007ء میں متعارف کیا اور اسی کو مرکزی کابینہ نے جنوری 2010ء میں منظور کیا۔ اسے دسمبر میں پارلیمنٹ میں رکھا گیا اور پارلیمانی مجلس قائمہ برائے ترقی انسانی وسائل کے حوالے کیا گیا۔ کمیٹی کی رپورٹ ایک سال کے بعد یعنی 30 نومبر 2011ء کو چھپی۔[15][16] مئی 2012ء میں مرکزی کابینہ نے ایک ترمیم کو منظوری دی تاکہ گھریلو ملازمین کو اس میں شامل کیا جا سکے۔[17] ترمیم شدہ بل 3 ستمبر 2012ء کو بالآخر لوک سبھا میں منظور کر لیا گیا۔[18] اس بل کو راجیہ سبھا میں 26 فروری 2013ء کو پاس کیا گیا۔ اسے بھارت کے صدر جمہوریہ کی منظوری بھی حاصل ہوئی اور اسے بھارت کی گزٹ میں غیر معمولی کالم کے حصہ دوم سیکشن ایک، مؤرخہ 23 اپریل، 2013ء میں 2013ء کے قانون نمبر 14 کے طور پر شائع کیا گیا۔

اہم نکات[ترمیم]

  • یہ قانون کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کی تعریف پیش کرتا ہے اور ایک طریقۂ کار تجویز کرتا ہے جس سے کہ شکایات کی یکسوئی ممکن ہو سکے۔ اس میں جھوٹے اور سازشی الزامات سے بھی تحفظ کی گنجائش موجود ہے۔[19]
  • اس قانون میں 'جوابی ہراسانی' اور 'ناسازگار کام کا ماحول' جیسے تصورات کو جنسی ہراسانی میں شامل کیا گیا ہے اگر یہ جنسی ہراسانی سے جڑے کسی اقدام یا برتاؤ کے تحت انجام پائیں۔[20]
  • "مظلوم خاتون" کی تعریف کافی وسیع ہے جسے اس قانون میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں سبھی خواتین شامل ہیں، بلا لحاظ اس کے ان کی عمر یا ملازمت کی نوعیت کیا ہے یا یہ کہ وہ منظم یا غیر منظم شعبوں میں ہوں، عوامی یا نجی میں بر سر خدمت ہیں اور اس میں گاہک اور گھریلو ملازمین بھی شامل ہیں۔[21]
  • ایک آجر کی تعریف ہر شخص کے طور پر کی گئی ہے جو کام کی جگہ کے اہتمام، نگرانی اور دیکھ ریکھ کا ذمے دار ہو اور اس میں وہ اشخاص شامل ہیں جو ادارے کی پالیسیوں کو بناتے اور انھیں شق 2(g) کے تحت رو بہ عمل لاتے ہیں۔[21]
  • جہاں "کام کی جگہ" وشاکھا رہنمایانہ خطوط کے تحت روایتی دفتر تک محدود ہے جہاں پر آجر اور ملامہ کا رشتہ واضح ہے، یہ قانون اس کے آگے ان کے اداروں، محکموں، دفاتر، شاخوں کی اکائیوں کو بھی شامل کرتا ہے جو عوامی اور نجی شعبوں شعبوں، منظم اور غیر منظم، ہسپتالوں، نرسنگ ہوموں ،تعلیمی اداروں، کھیل کے اداروں، اسٹیڈیموں، اسپورٹس کامپلیکسوں اور ہر اس جگہ کو شامل کرتا ہے جو ایک ملازمہ دوران ملازمت جاتی ہے، جس میں حمل و نقل کے ذرائع بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کے غیر روایتی کی جگہوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے جس میں فون کے ذریعے دید و گفت و شنید ممکن ہے۔[22] [21]
  • متعلقہ کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنی تحقیق 90 دنوں میں مکمل کرے۔ تحقیق کی تکمیل کے بعد رپورٹ کو آجر کے پاس یا ضلعی عہدیدار کے بھیجا جاتا ہے، جیسی بھی صورت حال ہو، ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ رپورٹ پر کارروائی 60 دنوں کے اندر کریں۔[21]
  • ہر آجر پر لازم ہے کہ وہ اندرونی شکایات کی کمیٹی ہر دفتر یا شاخ کی سطح پر بنائے جہاں 10 یا اس سے زیادہ ملازمین ہوں۔ ضلعی عہدیدار پر لازم ہے کہ وہ ہر ضلعی سطح پر مقامی شکایات کی کمیٹی بنائے اور اگر ضرور ہو تو بلاک کی سطح پر بھی بنائے۔
  • شکایات کی کمیٹیوں کو ثبوت یکجا کرنے کے لیے دیوانی عدالتوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
  • شکایات کی کمیٹیوں پر لازم ہے کہ وہ تحقیقات شروع کرنے سے پہلے صلح صفائی کی کوشش کریں، اگر شکایت کنندہ یہی چاہتی ہو تو۔
  • اس قانون کے تحت تحقیقات کا عمل راز داری میں ہونا چاہیے اور یہ قانون ہر اس شخص پر 5000 روپیے کا جرمانہ عائد کرتا ہے جو راز داری کو پامال کرتا ہو۔
  • اس قانون میں یہ ضروری ہے کہ آجرین تعلیم و حساسیت ابھارنے کے پروگرام منعقد کریں اور جنسی ہراسانی کے خلاف پالیسیاں وضع کریں، جبکہ دیگر واجبات کے ساتھ ساتھ آجرین پر جرمانے طے کیے گئے ہیں۔ اس قانون کی عدم پاسداری کی صورت میں آجرین پر 50 ہزار بھارتی روپیوں کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ مسلسل خلاف ورزی کی صورت میں زائد جرامانے عائد ہو سکتے ہیں اور تجارت چلانے کا لائسینس یا اندراج منسوخ ہو سکتا ہے۔[23]
  • حکومت کسی عہدیدار کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کی کام کی جگہ اور متعلقہ دستاویزات کا معائنہ کرے جو جنسی ہراسانی سے متعلق ہو۔
  • اس قانون کے تحت جس میں اسکولی اور کالجی طلبہ ہسپتالی مریضوں اور آجرین کا احاطہ کیا گیا ہے، آجرین اور مقامی ارباب مجاز پر لازم ہو گا کہ وہ شکایات کی کمیٹیاں قائم کریں تا کہ سبھی شکایتوں کو نپٹایا جا سکے۔ وہ آجرین جو اس لزوم پر عمل نہیں کر پاتے ہیں، 50 ہزار روپیے کے جرمانے کی سزا بھگتیں گے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ""The Sexual Harassment Bill undermines the innovative spirit of Vishaka" – Naina Kapur, Lawyer and Equality Consultant"۔ Bar and Bench۔ 1 مارچ 2013۔ 02 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2013 
  2. "The Sexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal) Act, 2013 Published in The Gazette of India"۔ Press Information Bureau۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2013 
  3. "Law against sexual harassment at workplace comes into effect"۔ Times of India۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2013 
  4. "India must have zero tolerance for workplace sexual harassment"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2014 
  5. "Action against sexual harassment at workplace in the Asia and the Pacific" (PDF)۔ صفحہ: 121۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2014 
  6. "Indian firms take little notice of law against sexual harassment"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2014 
  7. "Fostering safe workplaces" (PDF)۔ FICCI-EY۔ 08 دسمبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2015 
  8. DNA 18 ستمبر 2014 (2014-09-18)۔ "Serious legal action against organisations without a sexual harassment committee, says Maneka Gandhi"۔ DNA۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2014 
  9. "The Sexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal) Act, 2013" (PDF)۔ PRS Legislative Research۔ 03 اپریل 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2013 
  10. Press Information Bureau, Government of India (4 نومبر 2010). Protection of Women against Sexual Harassment at Workplace Bill, 2010. ماخوذ 13 ستمبر 2012.
  11. Chakrabarty, Rakhi (4 ستمبر 2012) "Sexual harassment at workplace Bill passed" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.timesofindia.indiatimes.com (Error: unknown archive URL). The Times of India. ماخوذ 13 ستمبر 2012.
  12. Lawyer's Collective, Sexual harassment of women at workplace bill 2012 passed by Lok Sabha آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lawyerscollective.org (Error: unknown archive URL), 6 ستمبر 2012.
  13. "آرکائیو کاپی"۔ 03 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2018 
  14. "آرکائیو کاپی"۔ 03 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2018 
  15. دی ٹیلی گراف (کولکاتا) (18 اپریل 2012). "Watch what you say". Retrieved 13 September 2012.
  16. Thorpe, Edgar (ed.) (2012). The Pearson Current Event Digest 2011-2012, pp. 3-4. Pearson Education India. آئی ایس بی این 8131761789
  17. Polanki, Pallavi (28 اگست 2012). "Bill against sexual harassment a boost to domestic workers". First Post. ماخوذ 13 ستمبر 2012.
  18. نیو یارک ڈیلی نیوز (3 ستمبر 2012ء). "Lok Sabha passes bill against sexual harassment in the workplace" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ india.nydailynews.com (Error: unknown archive URL). ماخوذ 13 ستمبر 2012.
  19. "آرکائیو کاپی"۔ 03 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2018 
  20. Handbook on the Law of Sexual Harassment at Workplace by Shivangi Prasad and Attreyi Mukherjee, available at amazon.in and bigbookshop.com
  21. ^ ا ب پ ت
  22. "Is your " workplace" covered under the new sexual harassment law?"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2014 
  23. "The Protection of Women Against Sexual Harassment at Work Place Bill, 2010"۔ PRS Legislative Research۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2013