کتھاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کتھاب
نوعیتبچوں کا مزاحیہ ڈراما
تحریررفیق منگلاسیری
نشروڈاگرا (کیرلا, بھارت)
زبانملیالم زبان

کتھاب ایک ملیالم زبان میں لکھا گیا مذاحیہ ڈراما ہے جو ایک نوجوان لڑکی کے بارے میں ہے جو آذان دینے کی خواہشمندی ہوتی ہے جو عمومی طور پہ مرد موذن انجام دیتا ہے۔ یہ لڑکی اپنے علاقے کی مسلمان خواتین کے ساتھ غیر مساوی رویے پہ سوال اٹھاتی ہے، اپنی سہیلیوں کے ساتھ ناچنے، ممنوع کھانا چوری کرنے اوراذان دینے کا موقع دیے جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔[1][2] اس ڈرامے کو اسکرپٹ رائٹر/ ہدایتکار رفیق منگلاسیری نے لکھا ہے۔[3][4][5] اسے نومبر 2018 میں بھارت کی ریاست کیرلا میں اس وقت پیش کیا گیا تھا، جب خواتین کے حقوق کی تحریک زور پکڑ رہی تھی جس میں ہندو خواتین، صبریمالا مندر میں عبادت کا حق مانگ رہی تھیں، مسلمان خواتین، مذہبی رسومات و مقامات میں صنفی برابری کا سوال اٹھا رہی تھیں بشمول مساجد میں امامت اور مساجد میں باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی کے۔

خیال[ترمیم]

رفیق منگلاسیری کا کہنا ہے کہ ان کا ڈراما، "کھتاب" براہ راست "وانگو" کی کہانی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ انی آر کی کہانی "وانگو" سے متاثر ایک آزاد موافقت تھا۔ تاہم، انی آر نے منگلاسیری کے ڈرامے سے خود کو دور کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے نظریات کے مطابق نہیں ہے اور اس میں روحانی قدر نہیں پائی جاتی۔ [6] ملیالم کے ہدایتکار وی کے پرکاش کا بھی انی آر کی کہانی "وانگو" کو فلم کے لیے استعمال کرنے کا ایک آزاد منصوبہ تھا۔ [7]

پلاٹ[ترمیم]

ایک مسلمان لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے باپ کی طرح موذن بن جائے اور آذان دیا کرے۔ وہ تلی ہوئی مچھلی چوری کرتی ہے جو اس کی والدہ گھر کے مردوں کے لیے کھانا پکاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا اخلاقی طور پر غلط نہیں ہے کیونکہ پیڈاچن (تخلیق کار خدا) سمجھتا ہے کہ لڑکیوں کو کافی کھانا نہیں دیا جاتا ہے۔ تب اس کے والد نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور بتایا کہ عورتوں کو مردوں کے پاس موجود ہر چیز کا نصف حصہ ملنا چاہیے۔ اس کے جواب میں، لڑکی بے چارگی سے پوچھتی ہے کہ پھر عورتوں کو مردوں کے پہناوے کا آدھا حصہ کیوں نہیں پہننا چاہیے؟[8] اس جدوجہد کے دوران، وہ اذان دینے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ اس کا والد ایک بڑی کتاب (کتھاب) کا حوالہ دے کر اس کے تمام سوالات کا جواب دیتا ہے اور لڑکی کو کمرے میں بند کر دیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ ڈرامے (ڈرامے کے اندر موجود ایک ڈرامے) میں حصہ نا لے سکے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ اگر وہ اس طرح کے کام کرتی رہی تو وہ جنت میں نہیں جا سکے گی۔ وہ کہتی ہے: "اگر میں ناچنے یا گانے کی وجہ سے جنت میں داخلہ کھو دوں تو میں اس جنت کو نہیں پانا چاہتی ہوں۔" باپ لڑکی کو مارنے کے لیے تیار ہوتا ہے جب وہ اس کی مرضی کے خلاف اسکول کے ڈراما میں حصہ لیتی ہے۔ جب لڑکی کی ماں نے اس کے باپ کو یاد دلادیا کہ وہ صرف موذن ہی نہیں، بلکہ ایک باپ بھی ہے تب وہ بیٹی کو اذان دینے کی اجازت دیتا ہے اور ڈراما اس لڑکی کو آذان پکارنے اور دعا مانگنے کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔

تنازع[ترمیم]

کوزیکوڈ میں میموندا اعلیٰ ثانوی اسکول نے ضلعی سطح پر وڈاکرا میں بین السکول مقابلہ کے لیے ایک ڈراما کا انعقاد کیا اور بہترین ڈراما اور بہترین اداکارہ کے لیے انعامات جیتے اور ریاستی سطح پرکیرلا میں بین السکول مقابلے میں شرکت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کتھاب، روایتی مسلم گھرانوں میں خواتین کے ساتھ مختلف امور پر معاشرتی امتیاز کی تصویر کشی کرتا ہے۔ کھانے کی فراہمی، ناقص تعلیم اور کثیرالتعداد ازدواجی تعلقات میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک جیسے بہت سے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ [9] چونکہ یہ ڈراما اسلام کے تناظر میں صنفی انصاف سے متعلق ہے، اس لیے اس کی مخالفت کی گئی تھی اور اس کی تکمیل میں میمنڈا ہائر سیکنڈری اسکول کی شرکت کو مذہبی-سیاسی آرتھوڈوکسی اور قدامت پسندوں نے مذہب کے معاملات پر مبنی کامیابی کے ساتھ روک دیا تھا۔ اس ڈرامے سے صنفی مساوات اور مذہبی عدم رواداری پر بحث کا آغاز ہوا۔ ڈراما علاحدہ علاحدہ اسٹیج کی زینت بنا اور مقررہ تاریخ کی بجائے نو منتخب تاریخ میں پیش کیا گیا۔[10] اس کے بعد، "کتھابائل کورا" کے نام سے ایک وٹاباؤٹری جوابی کھیل بھی ملیالم اسٹیج پر پیش کیا گیا، جس میں ایک ایسی خاتون کردار تھی جو مذہب کی آزادی کی خواہاں تھی۔ ملیالم تھیٹر کے کارکنوں میں سے ایک، عباس کلاٹھوڈے جو جوابی کھیل کے بارے میں پرجوش نہیں تھے، انھوں نے مسلم کمیونٹی میں حالیہ بہت ساری دور رس تبدیلیوں پر غور نہ کرنے پر منگلاسیری کی کتھاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے مزید کہا، "معاشرے میں مکری کے کردار کو ایک منفی کردار کے طور پر ظاہر کرنا ایک چھوٹی سی بات ہے کیونکہ مسلمان معاشرے میں دوسرے بہت سے منفی کردار ابھرے ہیں۔" منگلاسیری نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ اس ڈراما میں کسی خاص مذہب کی توہین کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، پس منظر ایک مسلمان گھرانے کا ہے اور روزمرہ کی زندگی دکھائی گئی ہے۔ "یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مسلم کمیونٹی نے معاشرتی زندگی میں مستقل ترقی کی ہے۔ مسلمانوں میں بھی دوسری جماعتوں کی طرح تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ لیکن رجعت پسند قوتوں نے غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی ایک مثال مکری کی ہے کیونکہ یہ معاشرے میں گرفت آور کردار رکھتے ہیں۔" ڈرامے کا اختتام سوچ کے نئے زاویے اپنانے کے ساتھ ہوا ہے۔[11]

سماجی کارکنان اور مصنفین بشمول کے سچییدانن اور ایس ہریش نے ریاستی تہوار میں کتھاب کو خارج کرنے کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔ ایک مشترکہ بیان میں انھوں نے کیرلا اصلاحی تحریک اور اظہار رائے کی آزادی پر مذہبی تنظیموں کے مداخلت کی مذمت کی۔ سینما کے ماہر پرتھاپ جوزف نے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس ڈرامے کی منسوخی، " تجدید اقدار اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہے"۔

رفیق منگلاسیری[ترمیم]

رفیق منگلاسیری بھارت میں ملیالم زبان کے ایک مصنف اور ہدایتکار ہیں جن کا تعلق چیٹیپڈی، مالا پورم، کیرلا سے ہے۔ ان کا ڈراما، "اینی یپرونا"، وافر مقدار کے کھانے کے ضیاع کے متعلق ہے۔ کھانے کی بربادی کو دکھایا گیا ہے جبکہ بہت سے لوگ بھوکے رہ جاتے ہیں۔ [12] انھوں نے "کوٹم کریم" ڈراما کی کی ہدایت بھی کی ہے ۔ انھوں نے 2013 میں ڈراما "جنو کرشنن" کے لیے کیرلا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے ڈراما جیتا ہے ۔[13][14] اور کیرلا سنگیتھا ناٹکا اکیڈمی ایوارڈ کو اراٹا جیویتھنگلیلوڈ ( جڑواں زندگیوں کی کہانی) کے لیے بہترین اسکرپٹ کا ایوارڈ جیتا ہے۔ [15] رفیق، بچوں کے تھیٹر میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔[16]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "In Kerala's Kozhikode, a play about a girl who dreams about giving azaan call has Muslim conservatives up in arms"۔ Firstpost۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  2. "Kozhikode School Withdraws Play Calling out Gender Disparity After Muslim Groups Protest"۔ The Wire۔ 17 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  3. "Kozhikode: SDPI, MSF up in arms against Kithab"۔ Deccan Chronicle۔ 25 November 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  4. "Play showing girl performing 'azaan' raises conservatives' ire"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  5. Staff Reporter، A. s Jayanth (5 December 2018)۔ "Campaign for Kithaab takes off"۔ The Hindu۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  6. "Controversial play 'Kitab' dropped from Kerala school art festival"۔ OnManorama۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  7. "Unni R short story Vanku to be adapted on screen by V K Prakash daughter Kavya Prakash Shabna Mohammed: വാങ്ക് വിളിക്കാൻ ആഗ്രഹിച്ച റസിയയുടെ കഥ സിനിമയാകുന്നു: ഉണ്ണി ആറിന്റെ കഥയ്ക്ക് ദൃശ്യഭാഷ്യമൊരുക്കാന്‍ രണ്ടു പെണ്‍കുട്ടികള്‍"۔ The Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2019 
  8. "Following protests by Muslim groups Kozhikode school withdraws students play"۔ thenewsminute.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  9. "After dropped by school Kalolsavam, 'Kithaab' to be staged across Kerala"۔ The New Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  10. "ക്ലബുകളും വായനശാലകളും സാംസ്കാരിക സംഘടനകളും ഏറ്റടുത്തു; ബാലസംഘവും ഡിവൈഎഫ്ഐയും നാടകം പ്..."۔ marunadanmalayali.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  11. "Purdah phobia"۔ Times of India Blog۔ 1 December 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2019 
  12. G. Krishnakumar (7 January 2018)۔ "The show will go on, with aplomb"۔ The Hindu۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  13. "2013–ലെ കേരള സാഹിത്യ അക്കാദമി അവാര്‍ഡുകള്‍ പ്രഖ്യാപിച്ചു" (PDF)۔ Kerala Sahitya Akademi۔ 20 December 2014۔ 13 جون 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2019 
  14. "Sahitya Akademi award for Meera's 'Aarachar'"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2019 
  15. Staff Reporter (8 May 2018)۔ "Beedi wins best short play award of akademi"۔ The Hindu۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  16. "Ennu Mammali Enna Indiakkaran"۔ 06 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019