کریمہ مروزیہ
کریمہ مروزیہ | |
---|---|
(عربی میں: كريمة المروزية) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | کریمہ بنت احمد بن محمد بن حاتم مروزیہ |
پیدائش | سنہ 975ء مرو |
تاریخ وفات | سنہ 1070ء (94–95 سال) |
کنیت | ام الکرام |
لقب | کریمہ مروزیہ |
والد | احمد بن محمد بن حاتم مروزی |
عملی زندگی | |
طبقہ | چوبیسواں |
نسب | مروزیہ |
استاذہ | کشمیہنی |
پیشہ | فقیہہ ، محدثہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، فارسی |
درستی - ترمیم |
ام الکرام کریمہ بنت احمد بن محمد بن حاتم مروزیہ، مشہور خاتون عالمہ، فقیہہ اور محدثہ ہیں، صحیح بخاری کی مشہور راویہ ہیں۔ حدیث اور علوم احادیث کی خدمت کو شادی پر ترجیح دیں اور پوری زندگی شادی نہیں کیں۔ ان کی اسلام اور علوم اسلام کے تئیں بے پناہ خدمات اور کارناموں کی وجہ سے مؤرخین اور علما انھیں "ام الکرام" کے لقب اور کنیت سے پکارتے ہیں۔ مکہ میں مسجد حرام کے پڑوس میں رہتی تھیں، اپنے والد احمد بن محمد مروزی کے ساتھ علمی اسفار بھی کیے، پوری زندگی احادیث کی تعلیم، اس کے حفظ اور پھر ان کی نشر و اشاعت اور روایت میں گزار دی۔ ان کے زمانے کے کبار محدثین اور فقہا سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اپنے زمانہ کی محدثہ اور مسندہ شمار ہوتی تھیں، فراست و فہم بھی بہت اعلی تھا، صحیح بخاری کی اعلی اسناد انھیں پر ختم ہوتی ہیں، یہاں تک کہ انھیں راویۃ البخاری کہا جانے لگا، ان کے بارے میں لکھنے والا ہر مؤرخ اور مترجم اس کا تذکرہ ضرور کرتا ہے۔[1]
اساتذہ
[ترمیم]ام الکرام کریمہ نے حدیث اور فقہ کو اس زمانے کے مشہور کبار محدثین اور فقہا سے حاصل کیا تھا، مثلاً:
- ابو الہیثم کشمیہنی
- زاہر بن احمد سرخسی
- عبد اللہ بن یوسف بن بامویہ اصفہانی
جب کوئی حدیث بیان کرتی تو پہلے اصل سے ملا لیتی تھیں، صلاح و خیر کے ساتھ ساتھ زبردست معرفت و فہم کی بھی حامل تھیں۔ صحیح بخاری کی کئی مرتبہ روایت کی، ایک مرتبہ ابو بکر خطیب کی قرات کے ساتھ موسم حج میں روایت کی۔
تلامذہ
[ترمیم]- ابو بکر خطیب
- ابو الغنائم نرسی
- ابو طالب حسین بن محمد زینبی
- محمد بن برکات سعیدی
- علی بن حسین فراء
- عبد اللہ بن محمد بن صدقہ بن غزال
- ابو القاسم علی بن ابراہیم نسیب
- ابو المظفر منصور بن سمعانی
ابو الغنائم نرسی نرسی کہتے ہیں: «میں نے کریمہ کے سامنے صحیح بخاری کا ایک نسخہ نکالا اور ان کے سامنے بیٹھ گیا، سات اوراق لکھے اور اس کو پڑھا، میں کچھ اعتراض کرنا چاہتا تھا، انھوں نے کہا: گھبراؤ نہیں، مجھ سے اشکال کرو، پھر میں نے ان کے ساتھ اشکالات کو حل کیا، فرماتے ہیں: میں نے ان سے زاہر کی حدیث پڑھی»۔
علما کی آرا
[ترمیم]امام ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: «شیخہ، عالمہ، فاضلہ اور مسندہ ام الکرام کریمہ بنت احمد بن محمد بن حاتم مروزیہ حرم کے پڑوس میں رہتی تھیں، جب کوئی روایت بیان کرتی تو اس کے اصل سے ملا لیتی تھیں، صلاح و خیر کے ساتھ فہم و فراست کی بھی مالک تھیں، صحیح بخاری کو بہت مرتبہ بیان کیا اور روایت کی ہے»
ابو بکر بن منصور سمعانی کہتے ہیں: «میں نے اپنے والد سے کریمہ کا ذکر کرتے سنا، فرماتے تھے: کیا کسی انسان نے کریمہ جیسی شخصیت کو دیکھا ہے؟»
ابو بکر خطیب کہتے ہیں: «کریمہ نے پوری زندگی شادی نہیں کی، ان کے والد "کشمہین" سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی والدہ "سیاری" کی اولادوں میں سے تھیں، ان کے والد انھیں لے کر بیت المقدس گئے پھر وہاں سے مکہ واپس آئے، سو سال کی عمر پائیں»
وفات
[ترمیم]ام الکرام کریمہ کی وفات سنہ 463ہجری میں ہوئی۔
ابن نقطہ کے مطابق ان کی وفات 465 ہجری میں ہوئی ہے۔
ہبۃ اللہ اکفانی نے عبد العزیز بن علی صوفی کے حوالہ سے 63 بیان کیا ہے، اسی طرح ابو جعفر محمد بن علی ہمدانی نے بھی 63 کہا ہے۔
ذہبی نے بھی 463 کو صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔
- ↑ سیر اعلام النبلاء، از: شمس الدین ذہبی ج8، ص223