کعب بن ثور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کعب بن ثور
معلومات شخصیت

کعب بن ثورؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

کعب نام ،نسب نامہ یہ ہے کعب بن سوربن بکر بن عبدبن ثعلبہ بن سلیم ابن ذیل بن لقیط بن حارث بن مالک بن فہیم بن غنم بن اوس بن عدنان بن عبداللہ ابن زہران بن کعب بن عبداللہ بن مالک بن نصر۔

قضاءت بصرہ[ترمیم]

کعب سے کوئی حدیث نہیں مروی ہے،اس لیے اورباب رجال نے ان کے حالات نہیں لکھتے ہیں، لیکن وہ ایک ممتاز تابعی ہیں،حضرت عمرؓ کے ہم صحبت وہم جلیس اورنہایت ذہین اورطباع تھے ان کی ذہانت اورطباعی کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے ان کو عہدۂ قضاء پر مامور کیا تھا۔

ان کے تقرر کا واقعہ یہ ہے کہ کعب ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئےتھے کہ ایک عورت آپ کے پاس حاضر ہوئی اورکہا کہ میں آپ کے پاس دنیا کے ایک بہترین آدمی کی شکایت لے کر حاضر ہوئی ہوں، کوئی آدمی عمل میں اس پر سبقت نہیں لے جاسکتا اوراس کے جیسا عمل نہیں کرسکتا وہ قیام لیل میں صبح کردیتا ہے روزے میں سارادن گزار دیتا ہے،اتنا کہنے کے بعد اس عورت کو شرم دامنگیر ہوئی اور اس کے آگے وہ اس کے سوا اورکچھ نہ کہہ سکی کہ امیر المومنین مجھے معاف فرمائیے،آپ نے فرمایا خدا تم کو جزائے خیر دے،تم نے اچھی تعریف کی، میں نے تم کو معاف کیا اس کے بعد وہ عورت چلی گئی، اس کے واپس جانے کے بعد کعب نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ امیر المومنین اس عورت نے آپ کے سامنے نہایت بلیغ پیرایہ میں شکایت پیش کی ہے،فرمایا کیسی شکایت ،کعب نے کہا اپنے شوہر کی (یعنی وہ رات دن عبادت میں مشغول رہتا ہے اور اس کی طرف ملتفت نہیں ہوتا) یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے عورت کو بلواکر کعب سے کہا تم دونوں کا فیصلہ کردو،کعب نے عرض کیا آپ کی موجود گی میں میں فیصلہ کروں ؟فرمایا،جس چیز کو تم نے سمجھ لیا میں نہ سمجھ سکا،اس کا فیصلہ بھی تم ہی کو کرنا چاہئے؛چنانچہ کعب نے کلام پاک کی اس آیت : فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ [1] تم کو جو عورتیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو،دو،تین اورچارتک سے اس استدلال پر کہ جب قرآن میں چار بیویوں کی اجازت ہے تو اس کے یہ معنی یہ ہوئے کہ ہر چارشبانہ یوم میں ایک شبانہ یوم ہر بیوی کا حق ہوا تو تنہا ایک بیوی کا کم سے کم یہی حق ہوگا، اس عورت کے شوہر کو تین دن روزہ رکھنے اورایک دن بیوی کے لیے افطار کرنے اورتین رات عبادت کرنے اور ایک رات بیوی کے پاس رہنے کا حکم دیا۔ حضرت عمرؓ یہ استدلال سُن کر بہت مسرور ہوئے اورفرمایا کہ یہ (استدلال) میرے لیے پہلے (ذہانت) سے بھی زیادہ تعجب انگیز ہے؛چنانچہ اسی وقت ان کو بصرہ کا قاضی بناکر بھیج دیا۔ [2]

فتنہ سے اجتناب[ترمیم]

کعب بصرہ جانے کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت عائشہؓ اورحضرت علیؓ میں اختلافات رونما ہوئے اورحضرت عائشہؓ حضرت علیؓ سے مقابلہ کی تیاری کے لیے طلحہؓ اورزبیرؓ کے ساتھ بصرہ آئیں تو کعب اس خانہ جنگی سے اپنے کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک گھر میں خلوت نشین ہوگئے اور کھانے پینے کا سامان لینے کے لیے اس میں ایک سوراخ بنالیا،لوگوں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ اگر کعب آپ کے ساتھ ہوجائیں تو پورا قبیلہ ازو آپ کے ساتھ ہوجائے گا، یہ سُن کر آپ کعب کے پاس تشریف لے گئیں اورباہر سے پکار کر کعب سے گفتگو کرنی چاہی،انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا آخر میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا کعب کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں اورتم پر میرا حق نہیں ہے یہ سُن کر کعب جواب دینے پر مجبور ہوگئے اور حضرت عائشہؓ سے گفتگو کی،انہوں نے فرمایا میں چاہتی ہوں کہ تم لوگوں کو سمجھا کر اصلاح کی کوشش کرواس حکم کی تعمیل میں کعب کو کیا عذر ہوسکتا تھا؛چنانچہ وہ قرآن لے کر لوگوں کو سمجھانے کے لیے نکلے اورجب دونوں فوجیں بالمقابل ہوئیں تو وہ صفوں کے درمیان گھس کر قرآن کھول کر فریقین کو سمجھاتے تھے اورقرآن کی طرف بلاتے تھے۔

شہادت[ترمیم]

لیکن یہ معاملہ افہام و تفہیم کے حدود سے بہت آگے بڑھ چکا تھا،اس لیے ان کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں اور جنگ شروع ہوگئی اوریہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کسی شقی کے تیر سے ہلاک ہوگئے۔ [3]

فضائل واخلاق[ترمیم]

ان کے حالات کتابوں میں بہت کم ہیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے نیک سیرت اورنیکو کار لوگوں میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ خیر اور صلاح میں مشہور تھے۔ [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (النساء:۳)
  2. (ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص۶۵)
  3. (ابن سعد،جلد۷ق ۱،ص ۶۵،۶۲)
  4. (ابن سعد ایضاً:۶۶)