کلیم عثمانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کلیم عثمانی
معلومات شخصیت
پیدائش 28 فروری 2000ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند ،  سہارنپور ضلع ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 اگست 2000ء (0 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ احسان دانش   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  غنائی شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

کلیم عثمانی (پیدائش: 28 فروری، 1928ء - وفات: 28 اگست، 2000ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار ہیں، جو اپنے گیت تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں، ملی نغمہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں اور یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

کلیم عثمانی 28 فروری، 1928ء کو دیوبند، سہارنپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2][3][4]۔ ان کا اصل نا م احتشام الہٰی تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ والد فضل الہٰی بیکل بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور منتقل ہو گیا۔ کلیم عثمانی نے یہاں احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انھیں خوب داد ملتی تھی۔ پھر انھوں نے فلمی نغمہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انھوں نے 1955ء میں فلم انتخاب کے گیت تحریر کیے اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی[2]۔ اس کے بعد انھوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے نغمے لکھے۔ فلم راز کے لیے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔[3]

1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔ یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ بعد ازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کیے جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمھارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انھوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ فلم فرض اور مامتا میں انھوں نے ایک ملی گیت اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے اور اسے مہدی حسن نے گایا۔ کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا۔[3]

مشہور نغمات[ترمیم]

  • اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں (فرض اور مامتا)
  • تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا (گھرانہ)
  • یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
  • ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا (ہم دونوں)
  • میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا (راز)
  • پیار کر کے ہم بہت پچھتائے (عندلیب)
  • تیرے سنگ دوستی ہم نہ توڑیں کبھی (زندگی)
  • مستی میں جھومے فضا(نازنین)

تصانیف[ترمیم]

  • دیوار حرف (غزلیات)
  • ماہ حرا (نعتیہ مجموعہ)

اعزازات[ترمیم]

کلیم عثمانی نے 1973ء میں انھوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کیے۔[3]

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت​پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساسِ تنہائی بہت
اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں ہم نے کرکے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت
منہ چھپا کر آستین میں دیر تک روتے رہے​رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت
اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سےہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت
آئینہ بن کے وہ صورت سامنے جب آئیعکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت
میں تو جھونکا تھا اسیرِ دام کیا ہوتا کلیماس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت[5]

غزل

رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح ​ چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں ​ شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی​ پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح
بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گزاری ہے حیات میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح [6]

وفات[ترمیم]

کلیم عثمانی 28 اگست، 2000ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے[4] اور لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن میں کریم بلاک کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[2][3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]