کل ہند خواتین کانفرنس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کل ہند خواتین کانفرنس (انگریزی: All India Women's Conference) دہلی میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ مارگریٹ کزنز نے اس تنظیم کو 1927ء میں خواتین اور بچوں کی تعلییمی اصلاح کے لیے قائم کیا تھا۔ بعد میں خواتین کے مسائل پر بھی توجہ دی گئی اور تعلیم کے ساتھ خواتین کے سماجی مسائل بھی اس تنظیم کے منصوبوں میں شامل ہو گیا۔ یہ تنظیم بھارت میں خواتین کی قدیم ترین تنظیموں میں سے ایک ہے اور اس کی شاخیں ملک بھر میں موجود ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

کل ہند خواتین کانفرنس (AIWC) 1927ء میں پونے میں قائم کی گئی اور اس کا مقصد خواتین اور بچوں کی تعلیمی اور سماجی اصلاحات کے جدوجہد کرنا تھا۔[1][2][3] مارگریٹ کزنز جو اس تنظیم کی بانی ہیں، 1925ء سے ہی اس تنظیم کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ دیگر خواتین اور دوستوں اور خواتین کی تنظیموں اور گروہوں کو اس سلسلہ میں خطوط لکھا کرتی تھیں اور انھیں خواتین کے تعلیمی مسائل پے گفتگو کرنے کے لیے مدعو کیا کرتی تھیں۔ [4] اس سلسلہ کا پہلا اجلاس پونے کے ساوتری بائی پھلے پونہ یونیورسٹی کے فرگوسن کالج ہال میں منعقد ہوا جس میں کم و بیش 2000 شرکا تھے۔[4] مشارکین میں زیادہ مشاہدین کی تھی مگر کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جنہیں مارگریٹ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا اور وہی تنظیم کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوئیں۔[5] ان میں ایک نام ]]امرت کور]] کا تھا جو تنظیم کی بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔[6] تنظیم کی اولین سکریٹریوں میں کملا دیوی چٹوپادھیائے کا نام آتا ہے۔[7] 1928ء میں تنظیم نے لیڈی اروین کالج آف ڈومیسٹک سائنس کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔[4] اسی سال تنظیم نے محسوس کیا کہ فرسودہ اور دقیانوسی روایات کو ختم کیے بغیر خواتین کی تعلیم کی اصلاح کرنا مشکل ہے۔[8] انھوں نے بچوں کی شادی کے بل کی رپورٹ پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور کم سنی کی شادی کو روکنے کے لیے سیاسی چارہ جوئی بھی شروع کردی۔[9]

ان سب کے علاوہ طلاق، وراثت اور رائے دہندگی پر بھی انھوں نے خوب کام کیا۔[10] تنظیم نے 1941ء میں روشنی مجلہ نکالنا شروع کیاجو ہندی زبان اور انگریزی زبان میں شائع ہوتا تھا۔[11][12] انھوں نے بھارتی پارلیمان میں خواتین کو رائے دہندگی کے حق کے لیے لابی کرنا شروع کی۔[13][14] دیہی علاقوں میں طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے 1946ء میں اسکیپو کمیٹی بنائی گئی۔[11] تحریک آزادی ہند کے موقع کئی اہم ارکان نے قومی نظریہ کو اپناتے ہوئے تحریک میں شرکت کی اور تنظیم کو الوداع کہ دیا۔[4] 1948ء میں تنظیم نے ان تمام ارکان کو برخواست کر دیا جن کا کسی نا کسی طرح اشتمالیت سے کوئی تعلق تھا۔[15]

سرگرمیاں اور انعقادات[ترمیم]

تنظیم کا بنیادی مقصد تعلیم نسواں کو فروغ دینا تھا اور آج تک تنظیم اس پر قائم ہے۔ 1996ء میں تنظیم نے اسکول ترک کرنے والوں اور بالغ خواتین کے لیے خواندگی اور کرافٹ کی ٹریننگ کے لیے شدت سے غیر رسمی تحریک شروع کردی۔[16][17] تنظیم نے دیہی علاقوں میں کئی اسکیمیں شروع کیں۔[10]

اہم ارکان[ترمیم]

یہ فہرست سابق صدور تنظیم کی ہے:[18]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "All India Women's Conference"۔ Women's International Network News۔ 23 (1)۔ Winter 1997۔ صفحہ: 56۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – EBSCOhost سے 
  2. Usha Nair۔ "AIWC at a Glance: The First Twenty-Five Years 1927–1952" (PDF)۔ AIWC۔ 17 اپریل 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  3. "All-India Women's Conference"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ 5 فروری 1938۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے 
  4. ^ ا ب پ ت Radha Kumar (1997)۔ The History of Doing: An Illustrated Account of Movements for Women's Rights and Feminism in India 1800–1990 (بزبان انگریزی)۔ New Delhi: Zubaan۔ صفحہ: 68–69۔ ISBN 9788185107769 
  5. Forbes 1996, p. 79.
  6. Sanchari Pal (2018-03-05)۔ "The Princess Who Built AIIMS: Remembering India's First Health Minister, Amrit Kaur"۔ The Better India (بزبان انگریزی)۔ 17 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  7. Vaidehi (2017-10-26)۔ "A voice for women"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  8. Forbes 1996, p. 80.
  9. Mieke Aerts (2015)۔ Gender and Activism: Women's Voices in Political Debate (بزبان انگریزی)۔ Amsterdam: Uitgeverij Verloren۔ صفحہ: 40۔ ISBN 9789087045579 
  10. ^ ا ب Sharmila Lodhia۔ "All India Women's Conference | Description, History, & Work"۔ Encyclopedia Britannica (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  11. ^ ا ب Forbes 1996, p. 82.
  12. AIWC 1953, p. 12.
  13. Pamela Bone (9 فروری 1990)۔ "Choosing Life Over Death"۔ The Age (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے 
  14. M.L. Maffett (14 مارچ 1940)۔ "Modern Women"۔ The Springville Herald (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 – Newspapers.com سے 
  15. Gail Omvedt (1975)۔ "Rural Origins of Women's Liberation in India"۔ Social Scientist۔ 4 (4/5): 45۔ JSTOR 3516120۔ doi:10.2307/3516120 
  16. "Project Details"۔ Asha for Education (بزبان انگریزی)۔ 3 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  17. Nilanjana Ghosh Choudhury (22 فروری 2005)۔ "Hope Afloat for Special Tots – Making That Vital Difference"۔ The Telegraph۔ 23 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2018 
  18. "Past Presidents"۔ AIWC: All India Women's Conference۔ 19 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2014 

مصادر[ترمیم]