کورونائی ادب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کورونا کی آمد نے جہاں ایک طرف عالمی معیشت، ٹکنالوجی، سیاست اور تعلیمی نظام کو متاثر کیا،تو دوسری طرف اس ایک چھوٹے سے نادیدہ وائرس نے انسانی فکرونظر،تصورات، انسانی مزاج اور زبان و ادب پر بھی گہرے اثرات چھوڑے، کورونا دور میں ادبا وشعراء اور قلمکاروں کی تخلیقات سے زبان و ادب میں ایک بڑا اور متنوع علمی و ادبی ذخیرہ وجود میں آگیا، جس کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں،خاص استعارات وتشبیہات ہیں، مختلف پیرایۂ بیان ہے۔ چنانچہ اسے بجا طور پر ایک صنف قرار دیا جا سکتا ہے۔

وبا کے ادب پر اثرات[ترمیم]

ویسے توکسی بھی بحران میں زندگی کا ہر شعبہ ہی متاثر ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ تبدیلی انسانی نفسیات اور رویّوں میں محسوس کی جاتی ہے اور ادبی تاریخ گواہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے ترتیب پاتی معاشرتی صورتِ حال کو بھی ادبا و شعرا نے ہمیشہ ہی اپنی تخلیقات کا حصّہ بنایا ہے کہ ادب کا بنیادی سروکار ہی انسان اور انسانیت سے ہے۔ جیسے کہا گیا کہ ’’دمشق میں قحط پڑا ہے، یاروں نے عشق فراموش کر دیا ہے‘‘ تو گویا ہمارے ادب سے اس کی بڑی گواہی ملتی ہے۔’’خطوطِ غالب ‘‘ہوں، راجندر سنگھ بیدی کا ’’قرنطینہ‘‘ یا قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ کا آغاز،اسی طرح یورپ میں ’’دی کینٹر بری ٹیلز‘‘ ہو، ڈینیل ڈیفو کی ’’اے جرنل آف دی پلیگ ایئر ‘‘،کامیوکی ’’دی پلیگ ‘‘یا گارشیا مارکیز کی ’’وبا کے دنوں میں محبّت‘‘…وبا میں انسانی مزاج اور فطرت پر اس کے اثرات ادب کا حصّہ بنتے رہے ہیں۔[1]

حالیہ کووڈ19کی وبا میں سب سے اذّیت ناک احساس سائنسی دَور میں انسان کی بے بسی ہے کہ جہاں پوری دنیا میں دفاعی نظام بہتر بنانے پر تمام تر توجّہ مرکوز اور نِت نئی ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، وہاں انسانی مدافعتی نظام میں بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا، حالاں کہ ڈاکٹر رونالڈ جے گلاسیر جیسے مصنّفین ’’وی آر ناٹ امیون‘‘ جیسے مضامین لکھ رہے تھے، لہٰذا آج بھی چھوٹا سا وائرس پوری دنیا کو جامد کرکے اس تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے ،جہاں انسان دوسروں سے ہاتھ ملانا تو دُور، خود اپناچہرہ بھی چُھونے سے قاصر ہے۔

تنہائی ادب کو تحریک دیتی ہے اور ادیب کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھا دیتی ہے، لیکن ادیب کو ملنے والی حالیہ تنہائی دراصل جبری تنہائی ہے اور شاعر و ادیب تو یوں بھی ہر جبر کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے جبری تنہائی انسان میں اکتاہٹ اور وحشت پیدا کردیتی ہے، بلکہ فرانسیسی زبان میں اکتاہٹ کے لیے مستعمل لفظ کا مطلب ہی تخلیقی صلاحیت میں کمی ہے۔ لہٰذا، وبا کے ابتدائی دنوں میں شاعر و ادیب بھی اسی صورتِ حال پر غور کرتے اور اس سے وحشت اور اکتاہٹ کا اظہار کرتے نظر آئے۔ کامیو سے لے کر آج تک سوچنے والے ذہنوں کے لیے سب سے اہم سوال یہی رہا ہے کہ یہ وائرس قدرت کی طرف سے ہے یا کسی تجربہ گاہ کی ایجاد ۔

نثر ونظم میں کورونائی تخلیقات[ترمیم]

کورونا کے شب و روز کے پس منظر میں مستنصر حُسین تارڑ نے ’’شہر خالی، کوچہ خالی‘‘ تحریر کیا،تو آصف فرخی نے اپنے جذبات و احساسات کو ڈائری کی شکل دی اور ’’تالا بندی کا روزنامچہ‘‘ تحریر ہونے لگا ،جب کہ ڈاکٹر جعفر نے کئی اقساط میں وبائی ادب کو عالمی اور اردو ادب میں تقسیم کرکے تجزیہ کیا۔

اسی طرح 2021ء کے آغاز میں محمد اعظم ندوی (حیدرآباد)نے کورونا سے متعلق نثری اور منظوم تخلیقات کا ایک مجموعہ’’کورونائی ادب‘‘ کے نام سے ترتیب دیا، جس میں خود مرتب کی اور ہند و پاک کے دیگر کئی ادبا وشعراء کی کورونا سے متعلق دلچسپ تحریریں اور نظمیں شامل ہیں۔کورونائی ادب سے متعلق یہ مجموعہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے اور کورونا دور کی ایک تاریخی یاد گار ہے، اس کا مقدمہ مشہور عالم دین اور قلمکار مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے اور مکتبہ احسان لکھنؤ سے یہ کتاب طبع ہوئی ہے۔[2]

اسی طرح ایک اہم تخلیق محمد شاہد خاں  کی قرنطینی یادداشتوں پر مشتمل ’’کورونا مریض کی ڈائری‘‘ ہے۔یہ ڈائری بارہ مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے گیارہ ایک ماہ کی طبی حراست یعنی قرنطینہ کے دوران قلمبند کیے گئے اور آخری آرٹیکل قرنطینی شہریت واپس لیے جانے کے بعد لکھا گیا جو اس صبر آزما ایک ماہ کے احساسات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ ان مضامین کی ادبی اور دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن ان کا سماجی مرتبہ زیادہ بلند اور قابل احترام ہے ،کیونکہ یہ مضامین جس وقت لکھے جا رہے تھے ، اس یاسیت اور بے یقینی کے عالم میں ستارۂ سحری ثابت ہو رہے تھے۔ نفسیاتی خوف کی وہ چادر جو عام لوگوں کے دل و دماغ پر طاری تھی، اس ڈائری کے ہر نئے صفحے کے ساتھ اس کے دھاگے کسمساکر ٹوٹتے جا رہے تھے۔[3]

دوسری طرف شعرا نے بھی اپنے احساسات و جذبات کو منظوم شکل دی اور ساتھ ہی ساتھ اس جبری تنہائی سے لڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے مفید استعمال کا خیال پھیلنا شروع ہوا۔ کئی شاعروں نے یوٹیوب چینلز بنا ئے، کچھ فیس بُک اور سوشل میڈیا پر اپنا کلام پیش کرنے لگے۔ ساتھ ہی اداروں نے بھی آن لائن مشاعروں، کانفرنسزاور سیمینارز کا انعقاد ممکن بنانے پر توجّہ دی اور یوں اچھا خاصا ’’کورونائی ادب‘‘ وجود میں آگیا۔ یہ ادب مختلف رسالوں نے گوشوں اور نمبرز کی صُورت شایع کرکے محفوظ دستاویز میں تبدیل کیا،تو مسرت زہرا کنول نے وبا کے مختلف پہلوئوں پر غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’درد کی دہلیز پر‘‘ کتابی شکل میں بھی شایع کیا، جسے’’کورونا شاعری‘‘ کا پہلا مجموعہ قرار دیا گیا۔

اسی طرح ’’لاک ڈاؤن اور ڈائری‘‘ (ادارۂ انحراف) جیسے سلسلوں کا آغاز کیا گیا، جس میں ادبا و شعرا کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اپنے احساسات کو تحریری شکل دی۔ یہ ادب نہ صرف آج ،بلکہ آئندہ وقتوں میں بھی وبائی صورتِ حال میں انسانی نفسیات، احساسات اور حالات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا اور اس ادب کا تجزیہ آنے والے وقت میں ان سوالوں کا جواب بھی دے گا کہ اس جبری تنہائی اور سماجی دُوریوں کو ادب نے کیسے قبول کیا ۔ ممکن ہے یہ سوال سمجھنے میں کچھ اور چیزیں بھی ہمارے سامنے آجائیں ، لیکن ایسے کسی تجزیے میں ہنگامی نوعیت، فوری ردّ ِعمل اور صحافتی سطح کا ادب یقیناً توجّہ کا مرکز نہیں بنے گا، بلکہ اُنہی تخلیقات سے مدد لی جائے گی کہ جن میں شعریت کے ساتھ گہری معنویت اور سماجی صورتِ حال کو گرفت کیا ہوگا۔[4]

شعری مجموعے[ترمیم]

سالِ رفتہ لاک ڈاؤن کے سبب کتابیں کم شایع ہوئیں، مگرجو ہوئیں،اُن میں شاعری کی کتب کی تعداد زیادہ تھی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں اور خصوصاً نثری نظموں کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آئے۔ ان کتابوں میں ’’کلامِ رابعہ نہاں‘‘ ( حمرا خلیق)،’’ کلیاتِ بلقیس جمال بریلوی‘‘ (حمرا خلیق)، ’’نیازی گوشۂ دل‘‘ (حمرا خلیق)،’’ کلیاتِ جوش‘‘ (ہلال نقوی ،تین جِلدیں)، ’’ڈھلتی عُمر کے نوحے‘‘ (ڈاکٹر وحید قریشی، مرتّب:اورنگ زیب نیازی )،’’دریا کی تشنگی‘‘ (کشور ناہید) ،’’ایک گِرہ کُھل جانے سے‘‘ (امجد اسلام امجد) ، ’’خواب ریزے‘‘ (کرامت بخاری) ،’’جمالِ آب سے وصال‘‘ ( صابر ظفر) ’’اداسی کے گھائو ‘‘(عذرا عباس)، ’’نئی زبان کے حروف‘‘( تنویر انجم) ،’’شش جہات‘‘ (قمر رضا شہزاد) ،’’اتمامِ حُجت‘‘ (قمر رضا شہزاد )،’’ پریاں اُترتی ہیں‘‘ (وحید احمد، دو ایڈیشن )، ’’بارش بھر اتھیلا ‘‘( مسعود قمر) ،’’حدیثِ دلبراں ‘‘( مجید اختر )،’’ دسواں رنگ بھی اُس کا ہے‘‘ (علی محمّد فرشی ، کلیاتِ اوّل تین غیر مطبوعہ مجموعوں کے ساتھ )، ’’خانہ بدوش آنکھیں ‘‘ (طاہر حنفی)، نمی دانم(شکیل جاذب)،’’قوسِ خیال‘‘ (یوسف خالد، قطعات) ’’مَیں بھی ہوں‘‘ (احتشام حُسین) (طالب حُسین طالب)،’’چاک اور چراغ‘‘ (شائستہ مفتی: نظمیں اور افسانے )،’’موت کی ریہرسل ‘‘(سدرہ سحر عمران)، ’’اوجِ کمال ‘‘(سیّدہ ہما طاہر) وغیرہ اہم ہیں۔[5]

افسانے[ترمیم]

افسانوں کے اہم مجموعوں میں ’’مَیں ‘‘ (خالد فتح محمد) ،’’خواب گلی‘‘( محمود احمد قاضی)، ’’ایک زمانہ ختم ہوا ہے‘‘ (ناصر عباس نیّر )، ’’گھٹیا آدمی‘‘ ( کلیم خارجی)شامل ہیں۔ناولز میں ’’اے فلکِ نا انصاف( حسن منظر)،’’پارے شمارے ‘‘(شاہین عبّاس)، ’’کماری والا‘‘(علی اکبر ناطق)،’’ حسرتِ تعمیر ‘‘( اعجاز روشن)، شجر حیات (ریاظ احمد) قابلِ ذکر ہیں۔تنقید میں ’’کولو نیلیٹی ،ماڈرینیٹی اینڈ اردو لٹریچر‘‘ (ڈاکٹر ناصر عبّاس نیّر) ،’’ جدید ادب کا سیاق‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر علمدار حُسین بخاری)،’’مابعد جدیدیت اور چند معاصر متغزلین ‘‘(اکرم کنجاہی) ،’’راغب مراد آبادی، چند جہتیں ‘‘(اکرم کنجاہی،دوسرا ایڈیشن ) ،’’فِکشن ، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘‘ (فرخ ندیم) شایع ہوئیں۔گذشتہ برس کچھ تراجم بھی شایع ہوئے، جن میں ’’دریا کنارے ‘‘ (ہرمن ہیسے کے ناول ’’سدہارتھ‘‘ کا ترجمہ اور تجزیہ ،عطیہ سیّد) ’’امرتسر آ گیا ہے‘‘(مترجم :انعام ندیم ،بھیشم ساہنی کے افسانے ) ، ’’ادب کی سماجیات‘‘( مترجم عمران ازفر۔ منیجر پانڈے کی کتاب ’’ساہتیہ کے سماج شاستر کی بومیکا) شامل ہیں۔نثر کی دیگر کتابوں میں ’’نوادراتِ فیض‘‘ (ڈاکٹر محمّد منیر احمد سلیچ) ،’’شاعر ، مصوّر ،خطاط ، صادقین ‘‘(سلطان احمد نقوی)،’’ مجموعہ خطوط حسن نظامی‘‘ ( مرتبہ: محترمہ لیلیٰ خواجہ بانو اہلیہ حسن نظامی،’’ تہذیب نو‘‘( عثمان وجاہت)، ’’ارژنگ‘‘ (مبین مرزا ، خاکے)،’’راگنی کی کھوج میں ‘‘ (نجیبہ عارف، یادیں، تصوّف)،’’کالم پارے ‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی)،’’درویش نامہ ‘‘ اقبال نظر (رپورتاژ ، یادیں)، ’’کنول ،پھول اور تتلیوں کے پنکھ ‘‘(طاہرہ کاظمی ،کالم)، ’’رموزِ شعر‘‘ (احمد حُسین مجاہد )، ’’وفیاتِ مشاہیرِ لاہور( ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ)، ’’ نصر اللہ خان: اک شخص مجھی سا تھا‘‘ (عقیل عباس جعفری، بازیافت وتدوین) ،’’جیون دھارا‘‘ (ہدیۂ ظفر، خود نوشت)’’ کمال ہم نشیں‘‘(سید بابر علی، سوانح حیات)، صبیح رحمانی کی ’’اردو کا حمدیہ ادب، اجمالی جائزہ‘‘ نسیم سحر کا نعتیہ مجموعہ ’’محورِ دو جہاں‘‘ ’’مطالعاتِ حمد و نعت‘‘ (نسیم سحر، تنقیدی مضامین)، ’’ربنا لک الحمد‘‘ (ڈاکٹر محمد افتخار الحق ارقم، ہدیہ حمد) ،’’خواب، اجتماعی شعور اور اختر رضا سلیمی‘‘ (خالد محمود سامٹیہ) ’’لخت لخت داستاں/ دھند اور دھنک‘‘ (خاکے اور یادداشتیں) بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی(ترتیب، اہتمام و پیشکش:راشد اشرف)اور’’عظمت رفتہ‘‘ (ضیاء الدین احمد برنی، شخصی خاکے، ترتیب، اہتمام و پیشکش: راشد اشرف)قابلِ ذکر ہیں۔[6]

جرائد[ترمیم]

لاک ڈائون کی وجہ سے ادبی جرائد تاخیر اور تعطّل کا شکار رہے، جب کہ کچھ جرائد نے وبا کے ادب کو خاص جگہ دی ، جن میں ’’دنیا زاد‘‘، وبا نمبر(شمارہ 49:) سب سے اہم ہے۔یہ شمارہ دنیا زاد کی آخری کتاب تھی ،جو اس کے مدیر ،ڈاکٹر آصف فرخی ترتیب دے رہے تھے، مگر ان کی اچانک رحلت کے بعد ان کی صاحب زادی ،غزل آصف، ڈاکٹر شیر شاہ،سید کاشف رضا اور ڈاکٹر انعام ندیم نے شایع کیا۔ دنیائے ادب میں یہ خبر دُکھ سے سُنی گئی کہ یہ ’’دنیا زاد‘‘ جیسے موقر جریدے کا آخری شمارہ تھا۔ نعت رنگ کا 30واں ضخیم شمارہ شایع ہوا، جب کہ جہانِ حمد، رثائی ادب بھی شایع ہوئے۔سالِ رفتہ ’’لوح ‘‘ کا خصوصی ضخیم شمارہ ’’ ناول نمبر ‘‘ شایع ہوا، جو ناول کی ڈیڑھ صدی کی تاریخ کا عُمدگی سے احاطہ کرتا ہے۔ ’’استعارہ ‘‘ کا ’’ حسن عسکری نمبر ‘‘ شایع ہوا، جو اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔

اسی طرح’ ’اجرا‘‘ نے شکیل عادل زادہ نمبر شایع کیا۔ سہ ماہی ’’ادبیات‘‘ کا اردو ناول ’’ڈیڑھ صدی کا قصّہ ‘‘ اور ’’موزیک‘‘ کا ’’خالد سعید نمبر ‘‘ شایع ہوئے، ’’چہار سو ‘‘نے مبین مرزا گوشہ شایع کیا۔ دیگر پرچوں میں مکالمہ ،ادبِ لطیف(حُسین مجروح،خاص شمارہ) ،فنون ،بیلاگ، بنیاد ، زیست ، الحمرا ،تناظر ،سیپ، ادبِ عالیہ، کولاژ، تطہیر ،ساتھی،پیلوں، پیغامِ آشنا ،عمارت کار، الاقربا، فن زاد، شعر و سخن ،انشا، جمالیات، دنیائے ادب ،ارژنگ، الماس، لوحِ ادب، دریافت ، آج، شعر و سخن، اوریئنٹل کالج میگزین، تحقیقی زاویے، بازیافت ،تحقیق، تخلیقی ادب، تحقیق نامہ، جرنل آف ریسرچ، خیابان ، معیار، رسالہ، زبان و ادب الزبیر ، تخلیق ،اردو اخبار، نیرنگ خیال، چہار سُو، مجلسِ ترقیٔ اردو اخبار، تہذیب، دانش، اردو، قومی زبان، پاکستانی زبان و ادب، نیرنگِ بیاض، ذوق وشوق ،سپوتنک ،کاغذی پیرہن، مجلّہ ٔبدایوں، مخزن، ثبات، غنیمت، کارواں، ادبِ معلّیٰ ، ادب دوست، ندائے گل، حرف انٹرنیشنل ،عکّاس انٹرنیشنل، انہماک ، بجنگ آمد، نزول، بیاض، فانوس، کہکشاں ،قلم کی روشنی، ہم رکاب، صبحِ بہاراں ، کارواں، اجمال، تلازمہ ،راوی، قرطاس ،قلم قبیلہ، انگارے، فکرو نظر ،ارتقا ،نمود ،عالمی رنگ و ادب ،آہنگ، عبارت، الایّام، سنگ، کہانی گھر ،پاکستان شناسی ، پیامِ اُردو ،امتزاج ، ارتفاع، ثالث، تفہیم، سوچ، ابجد، نوارد، دستک، دھنک، اُردو کالم، تعبیر،پیامِ آشنا، ادب و کتب خانہ اورالحمد وغیرہ شامل ہیں۔[7]

کورونا دور میں نظمیں[ترمیم]

کورونا دور میں نظم کو بھی شعرا و ادبا نے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا،چند نمونے یہ ہیں:

خالی راہیں، باہیں خالی ، ہر چہرہ ویران[ترمیم]

(علی کمیل قزلباش)

*کورونائی غزل*

خالی راہیں، باہیں خالی ، ھر چہرہ ویران

خالی خالی آنکھیں ، خالی دل کا بھی دالان

رونق ، رنگ اور نور ، نظارے سارے ماند مدھم

شور شرابہ ، موج و مستی ، آوازیں بے جان

بحروبر کی تسخیروں کے منتر سب بے کار

علم کے دریا ، سائنس کی چکی چلنے سے انجان

دین و دنیا کے رکھوالوں کے سکے سب کھوٹے

دم ، دعائیں ، دارو درمل والے بھی حیران

چور اچکے نیک ہیں،غنڈے، قاتل سب شریف

بم برسانے والوں کے بم ناکارا سامان

لوٹ، کھسوٹ اور دھمکی دینے والے سب خاموش

جیسے قرنطینہ کے واصل ہوں سارے شیطان

عشق ، محبت ، عہد وفا ،سب بھول گئے عشاق

نا اب کوئی جان رہی ہے نا کوئی جانان

منبر، مسجد ،گرجا ، مندر، زیارت، رقص ، طواف

سب اس کے اندر ہی ہوں گے جس میں ہو ایمان

فطرت ، موسم زندہ سارے ، سب پرند چرند

آب ہوا اور سبزہ ، رنگیں پھول ، چمن کلیان

آقا، نوکر، پست ، بلند اور مشرق مغرب تک

سانس کی ڈوری کی سختی سے ایک ہوا انسان[8]

مردِ مؤمن پر’’ نگاہِ زعفرانی‘‘آج کل[ترمیم]

محمد اعظم ندوی


ہم ہیں اور ویرانئ دل کی کہانی آج کل

بجھ رہی ہے رفتہ رفتہ زندگانی آج کل


اب کہاں وہ دل ملانے کی روایت رہ گئی!

صرف ملنا بھی ہے 'مرگِ ناگہانی' آج کل


ہاتھ دھونا، منہ چھپانا، دور ہوجانا ترا

بس یہی ہے تیری الفت کی نشانی آج کل


تھم گئی دنیا، سہم کر رہ گئی طاقت تمام

اس بلائے جاں سے ہے اک سرگرانی آج کل


ہوگئیں خالی جہازوں سے فضائیں چار سو

ریل محرومِ تماشائے روانی آج کل


یہ کورونا کا زمانہ فتنہ ساماں ہو گیا

مردِ مؤمن پر نگاہِ 'زعفرانی' آج کل


کیا کورونا آگیا! نفرت کا موسم آگیا

خشک ہوکر رہ گیا آنکھوں کا پانی آج کل


ہر گھڑی جادو بیانی جن کی عادت تھی کبھی

چھا رہی ہے ان پہ ہر سو بے زبانی آج کل


اس ستم گر کی جفائیں پہلے ہی کچھ کم نہ تھیں

اور اس پر میڈیا کی لن ترانی آج کل


اب تو باز آؤ کہ حد ہوتی ہے ظلم وجور کی

ہے کورونا! مت کرونا بے ایمانی آج کل


ایک روٹی پانچ ہاتھوں میں دمِ سیلفی ملی

اٹھ گئی دنیا سے رسمِ مہربانی آج کل


کیوں حرم اللہ کے بندوں سے خالی ہو گیا؟

کیا اترتا ہے عتابِ آسمانی آج کل؟


مثبت ومنفی کے جھگڑے ہیں کورونا ٹیسٹ میں

کچھ تو گڈ مڈ سے ہوئے ہیں یہ معانی آج کل


چھوڑئیے اعظم! کہاں بازار میں نکلے ہیں آپ

گھر میں رہئے، لُوٹئے بس شادمانی آج کل[9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مائیکل مارشل (16-05-2020)۔ "کورونا وائرس: ہم اپنی زندگی میں آنے والے بحرانوں کو پہچان کیوں نہیں پاتے ہیں؟"۔ بی بی سی اردو۔ مائیکل مارشل۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2022 
  2. "مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی کے ہاتھوں محمد اعظم ندوی کی کتاب کورونائی ادب کا رسم اجرا"۔ آواز نیوز۔ 08-02-2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2022 
  3. عتیق انظر (28-11-2020)۔ "کورونا مریض کی ڈائری کی رسم اجرا اور شعری نشست"۔ مضامین۔ عتیق انظر۔ 22 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2022 
  4. عنبریں حسیب عنبر (10-01-2021)۔ "کورونائی ادب تخلیق ہوا، نابغہ روزگار شخصیات بچھڑ گئیں"۔ روزنامہ جنگ۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2022 
  5. عنبریں حسیب عنبر (10-01-2021)۔ "کورونائی ادب تخلیق ہوا"۔ روزنامہ جنگ۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2022 
  6. عنبریں حسیب عنبر (10-01-2021)۔ "کورونائی ادب تخلیق ہوا، نابغہ روزگار شخصیات بچھڑ گئیں"۔ روزنامہ جنگ۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2022 
  7. عنبریں حسیب عنبر (10-01-2021)۔ "کورونائی ادب تخلیق ہوا"۔ روزنامہ جنگ۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2022 
  8. علی کمیل قزلباش۔ "خالی راہیں، باہیں خالی ، ہر چہرہ ویران"۔ اکادمی ادبیات پاکستان۔ علی کمیل قزلباش۔ 03 مارچ 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2022 
  9. محمد اعظم ندوی (2021)۔ کورونائی ادب۔ Lucknow (Up): مکتبہ احسان، لکھنؤ۔ صفحہ: 319–320