کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام سے مراد کوفیوں کے وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پزیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی گیری کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو ان کے اہل خانہ اور ان کے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔

خطوط کی تعداد[ترمیم]

مؤرخین کوفیوں کے امام حسینؑ کو لکھے جانے والے خطوط کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں سمجھتے ہیں ۔[1] بعض ان خطوط کی تعداد 150ذکر کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک خط ایک، دو یا چار افراد کی طرف سے تھا۔[2] طبری نے ان کی تعداد 53 [3] اور بَلاذُری نے 50 خطوط شمار کیے ہیں.[4] لہوف اور اعیان الشیعہ میں ان خطوط لکھنے والوں کی تعداد 12 ہزار بیان ہوئی ہے (یعنی ہر خط پر اس تعداد میں لوگوں نے دستخط کیے تھے).[5] شیخ عباس قمی کوفیوں کے خطوط کی تعداد کو 12 ہزار سمجھتے ہیں۔[6]

بعض خطوط کا متن[ترمیم]

پہلا خط[ترمیم]

جب اميرمعاویہ کی وفات کی خبر کوفہ کے عوام تک پہنچی تو وہ یزید کے بارے میں متردد ہوئے اور انھیں خطرہ محسوس ہوا۔ اسی اثناء میں انھیں معلوم ہوا کہ امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا ہے اور مکہ چلے گئے ہیں۔[7] چنانچہ شیعیان کوفہ سلیمان بن صُرَدِ خُزاعی کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور اميرمعاویہ کی وفات پر تبادلہ خیال کیا اور اس سلسلے میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ بعد ازاں سلیمان نے کہا:

وفات حضرت امير معاویہ کے بعد امام حسینؑ نے اس جماعت کی بیعت سے انکار کیا اور مکہ چلے گئے اور تم امام حسینؑ کے شیعہ اور آپؑ کے والد کے شیعہ ہو؛ پس اگر تم اپنے اوپر یقین کرسکتے ہو کہ آپؑ کا ساتھ دوگے اور آپؑ کے دشمنوں کے خلاف لڑوگے تو آپؑ کو خبر دو؛ اور اگر شکست اور کمزوری سے خائف ہو تو آپؑ کو فریب مت دو اور آپؑ کی جان کو خطرے میں مت ڈالو۔

انھوں نے کہا: ہم ضرور آپؑ کے دشمنوں کے خلاف لڑیں گے اور اپنی جان آپؑ پر نچھاور کریں گے۔

اس کے بعد انھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔
سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔
امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے مختص ہیں جس نے آپ کے ستمکار اور سرکش دشمن کو توڑ کر رکھ دیا، وہی جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کر دیا اور امت کے اموال کو غصب کر دیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعد ازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کر دیا اور اشرار اور برے انسانوں کو بحال کر دیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہو گئی۔
بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس کے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کو اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔ ان شاء اللہ۔

انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں روانہ کیا اور انھیں حکم دیا کہ تیز رفتاری حرکت کریں۔ وہ تیز رفتاری سے روانہ ہوئے حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔

دوسرا خط[ترمیم]

پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کیے۔ ان خطوط میں بعض ایک ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو اور چار افراد نے مل کر لکھے تھے۔

تیسرا خط[ترمیم]

دوسرا خط بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین اور مسلمین میں سے ہیں۔
امام بعد، ہماری طرف عجلت کے ساتھ آئیے کیونکہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق القول ہیں، پس عجلت کریں، عجلت کریں اور پھر بھی عجلت کریں عجلت کریں! والسلام۔[8]

چوتھا خط[ترمیم]

شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ:

باغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔[9]

کوفیوں کو امام حسینؑ کا جواب[ترمیم]

کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لیے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لیے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔
اما بعد، ہانی اور سعید تمھارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمھارے آخری ایلچی تھے جو میرے پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا اور تمھاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید خداوند متعال تمھارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کر دے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمھاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ، اگر وہ میرے لیے لکھے کہ تمھاری اکثریت کی رائے اور تمھارے دانا افراد اور اکابرین کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمھارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد تمھاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا پابند کر دے۔ والسلام۔[10]

بصریوں کو خطوط[ترمیم]

امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے روانگی کے موقع پر چند خطوط رؤسائے بصرہ کے نام روانہ فرمائے تھے جن میں سے ایک مسعود بن عمرو ازدی کے نام تھا۔مسعود نے اپنے قبیلہ کے تمام اقوام بنی تمیم ، بنی حنظلہ ، بنی سعد اور بنی عامر کو مجتمع کرکے ایک تقریر کی جس میں ان کو نصرتِ امام حسین علیہ السلام پر آمادہ کرنا چاھا۔جس کے نتیجہ میں ایک جماعت نے نصرتِ امام (ع) کا وعدہ کیا۔مسعود نے ایک خط امام (ع) کے نام تحریر کیا جس میں حضرت کی تشریف آوری عراق پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ میں نے بنی تمیم اور بنی سعد کو تمام تر آپ (ع) کی نصرت پر آمادہ کر لیا ہے اور وہ سب آپ (ع) پر اپنی جان نثار کریں گے۔یہ خط حجاج بن زید سعدی کے ہاتھ روانہ کیا گیا تھا۔

مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا جانا[ترمیم]

امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو حاضر کیا اور انھیں قیس بن مسہر صیداوی، عمارہ بن عبد سلولی اور عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا اور انھیں حکم دیا کہ تقوی اختیار کریں اور اپنا کام پوشیدہ رکھیں اور لوگوں کے ساتھ روداری پر مبنی سلوک کریں؛ پس اگر وہ دیکھ لیں کہ لوگ متفق القول ہیں اور اور ان کے درمیان ضرورت کے برابر یکجہتی قائم ہے، تو عجلت سے آپؑ کو مطلع کریں۔[11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شہیدی، قیام حسینؑ، ص114.
  2. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص29؛ مفید، الارشاد(دارالمفید، 1413ق) ، ج2، ص38; ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، 98; ابن جوزی، المنتظم، ج5 ص327؛ خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ السلام)، ج1، ص283؛ اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253؛ شافعی، مطالب السؤول، ج2، ص71؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ(علیہم السلام)، ج2، ص146؛ سید ابن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ص24؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج 8، ص162؛ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص302.
  3. طبری، تاریخ الامم و الملوک (1409ق)، ج4، ص262. وہ ان کے متعلق لکھتا ہے : (حدیث:... فحملوا معهم نحواً من ثلاثة و خمسین صحیفة...)؛ البتہ بعض محققین «ثلاثہ» کی تعبیر میں تصحیف کے قائل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں «مائۃ» تھا اور وہ طبری کی گزارش کو 150 خطوط ہی سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے شیخ مفید، ابن اعثم، خوارزمی اور سبط ابن جوزی کی تعبیرات کو بعنوان شاہد ذکر کرتے ہیں۔احتمال دیتے ہیں کہ ان سب نے ابو مخنف سے ہی نقل کیا ہے (محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص93)؛ لیکن جیسا کہ متن میں ملاحظہ کیا جاتا ہے کہ بلاذری نے شاید ابو مخنف سے 50 کا عدد نقل کیا ہے ،اسی طرح سبط ابن جوزی نے ابومخنف کی بجائے ابن اسحاق سے 150 خطوط نقل کیے ہیں ۔ (محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص244)
  4. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص370
  5. سيد ابن طاووس، کتاب الملہوف في قتلي الطفوف، ص35؛ امين عاملی، أعیان الشیعہ، ج1، ص581.
  6. قمی، منتہی الآمال، ج1، ص566.
  7. المفید، الارشاد، ص295۔
  8. طبری، تاریخ طبری، ج4، ص262؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ ترجمہ تاریخ طبری، ج7، صص2923-2924؛ سماوی، ابصار العین، ص216؛ جلالی، سلحشوران طف، ص262۔
  9. طبری، تاریخ طبری، ج4، صص261-262؛ سماوی، ابصار العین، ص216؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ جلالی، سلحشوران طف، ص262؛ کمرہ‌ای، عنصر شجاعت، ج1، ص162۔
  10. رکـ:طبری، تاریخ طبری، ج4، ص262؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ ترجمہ تاریخ طبری، ج7، صص2924-2925۔
  11. المفید، الارشاد، صص295-297؛ ترجمہ ارشاد، صص339-342۔

مآخذ[ترمیم]

سانچہ:مآخذ

  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق و فہرست یوسف البقاعی، دارالاضواء، 1421ہجری قمری۔
  • سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ‌السلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، مرکز الدراسات الاسلامیة لحرس الثورة، [بی جا]، 1377 ہجری شمسی/1419 ہجری قمری۔
  • ہمو، سلحشوران طف، تحقیق و نگرشی جامع بر زندگانی امام حسینؑ و حماسہ آفرینان کربلا، ترجمہ ابصار العین فی انصار الحسین (علیہ‌السلام)، مترجم عباس جلالی، انتشارات زائر، قم، 1384 ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، المعروف بتاریخ الامم و الملوک، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، 1879عیسوی۔
  • ہمو، تاریخ طبری یا تاریخ الرسل و الملوک، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، انتشارات بنیاد فرہنگ ایران، تہران، 1352 ہجری شمسی۔
  • کمرہ‌ای، خلیل، عنصر شجاعت یا ہفتاد دو تن و یک تن، اصحاب سید الشہداء، دارالعرفان، قم، 1389 ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، قم: سعید بن جبیر، 1428 ہجری قمری۔
  • ترجمہ ارشاد شیخ مفید، سیرہ ائمہ اطہارؑ، ج1، ترجمہ موسوی مجاب، حسن، قم: سرور،  1388ہجری شمسی۔