گلوری
گلوری برصغیر میں ایک خاص وضع پر لپٹے ہوئے پان کو کہا جاتا ہے جو تقسیم ہند سے قبل نوابوں اور رؤسا کے یہاں انتہائی مقبول، ہندوستانی ثقافت کا اہم جز اور ضیافت و وضعداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ برصغیر میں گلوری اور پان خوری کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ گلوری اس وقت بھی رائج ہے، گلوری پیش کرتے وقت عموماً اس پر کسا ہوا کھوپرا اور لونگ کی کیلیں یا لکڑی کا خلال لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اہتمام اور احتشام اب مفقود ہے جو شہنشاہوں، رؤسا اور عمائدین کے یہاں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کی نفاست طبع اور لطافت مزاج نے پان تیار کرنے، پان کے اجزائے ترکیبی میں ذائقہ پیدا کرنے اور پان بنانے کو فن کے درجہ تک پہنچا دیا تھا۔ پان کی اسی اہمیت کے پیش نظر ؏ "برگ سبز است تحفہ درویش" مصرع ضرب المثل بن چکا تھا۔[1]
مشرقی معاشرت میں گلوری پیش کرنا آداب ضیافت میں شامل تھا، اگر کسی مہمان کی گلوری سے تواضع نہیں کی جاتی تو میزبان کے اس عمل کو توہین کے مترادف سمجھا جاتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں پانوں اور گلوریوں کی خصوصی اہمیت تھی۔ چنانچہ جہیز میں پاندان سب سے اہم چیز سمجھی جاتی، دلہن کو دو طرح کے پاندان دیے جاتے۔ ایک چاندی کا مرصع پاندان اور دوسرا عمومی استعمال کے لیے تانبے کا قلعی شدہ پاندان۔[2]
گلوری کے لوازمات میں خاصدان، پاندان، اگالدان، گلوری دان، پیک دان، سروتا، چنگیر، پن کٹی وغیرہ شامل تھے۔ دفتر یا سفر میں لے جانے کے لیے چاندی کی منقش ڈبیا کا استعمال عام تھا۔ نیز سڑک کے کناروں، گلی اور نکڑ کے سروں اور چوراہوں پر پان ٹھیلوں کا رواج نہیں تھا بلکہ تمام لوازمات گھر میں موجود ہوتے اور تمام اجزائے ترکیبی گھر ہی میں تیار کیے جاتے۔
دلی
[ترمیم]مغل سلاطین اور ان کا خاندان گلوری کے انتہائی شائق تھے۔ قلعہ معلی میں گلوری عموماً ڈیڑھ پان کی بنائی جاتی اور لپیٹ کر اس میں سونے، چاندی، لوہے یا لونگ کی کیل لگا دی جاتی تھی۔[3]
گلوری کے اقسام
[ترمیم]مغل سلاطین کے یہاں درج ذیل اقسام کی گلویاں رائج تھیں:
- سموسہ گلوری جو تکونی ہوتی تھی
- لقمی گلوری جو چوکنی ہوتی اور اوپر سے نوکدار
- تعویذی گلوری جو بالکل مربع یا مستطیل ہوتی
- بیڑا جو گول اور لمبوترا ہوتا
تمام اقسام کی گلوریوں میں یہ امر قدر مشترک تھا کہ پان میں ہر جگہ کتھا اور چونا یکساں ہوتا۔ ان قسموں کے علاوہ جاڑے کے موسم میں خاص انداز سے گلوری تیار کی جاتی اور کتھا چونا اس تناسب سے لگایا جاتا کہ کھاتے ہی بدن میں حرارت دوڑ جاتی۔ نیز گرمی اور برسات کے پان بھی مختلف ہوتے تھے۔ ان میں مسالا تو یکساں ہوا کرتا تھا لیکن موسم کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی کی جاتی۔[4]
لکھنؤ
[ترمیم]دلی کی طرح لکھنؤ بھی ہندوستان کا اہم ثقافتی مرکز رہا ہے۔ چنانچہ لکھنؤ کی معاشرت میں بھی پان کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ روزمرہ کھانا کھانے اور دعوتوں کے بعد گلوری پیش کرنا اور پان کھانا ضروری سمجھا جاتا، حتی کہ لوگ دن بھر چلتے پھرتے بھی منہ میں پان دبا لیا کرتے تھے۔ دعوتوں میں گلوریوں کو انتہائی فنکارانہ طور پر بنا اور چاندی کے ورق میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا۔ لکھنؤ میں دیسی دسوری پان زیادہ رغبت سے کھایا جاتا تھا، چنانچہ اس پان کے پتوں پر کچھ محنت کرکے ان کو لذیذ اور خوش رنگ بنایا جاتا، بالو کی تہ میں پان کے ان پتوں کو رکھتے اور اوپر سے پانی چھڑک دیتے۔ دوسرے تیسرے دن جب ان پتوں کو الٹا جاتا تو کثیر تعداد میں سڑ چکے ہوتے تھے تاہم ان سے جو پان تیار ہو کر نکلتے ان کا رنگ پستئی ہوجاتا تھا، چنانچہ اس مناسبت سے انھیں پستئی پان بھی کہا جاتا تھا۔[1]
اجزائے ترکیبی
[ترمیم]پان کے اجزائے ترکیبی میں کتھا، چونا، ڈلی، الائچی اور تمباکو شامل ہوتے۔ ان تمام چیزوں کو گھروں پر تیار کیا جاتا تھا، کتھے کو خوب کوٹ کر پانی میں بھگو دیتے اور جوش دینے کے بعد اسے چھان کر کسی اونچی جگہ ایک دبیز کپڑے پر پھیلاتے تاکہ پانی نتھرے اور کتھا خشک ہو جائے۔ اس کتھے کو دھوپ سے بچایا جاتا تھا اور ہر دوسرے تیسرے دن اوپر سے عرق کیوڑہ چھڑکا جاتا۔ دس بارہ روز میں یہ کتھا خشک ہو کر اس قابل ہو جاتا کہ اس کی لوذیں تراشی جا سکے۔ تراشنے کے بعد ان لوذوں کو کسی ایسے بانس کے برتن میں رکھا جاتا جس میں نیچے سے ہوا آسکے اور انھیں پوری طرح خشک کر لیا جاتا۔ اور پان میں لگانے کے وقت دو چار ٹکڑے پانی میں بھگو کر لگا لیتے۔
اسی طرح چونا بھی بڑی محنت سے تیار کیا جاتا، نیز بعض خاندانوں میں سیپ کا چونا بھی تیار کیا جاتا جس میں پسی اور چھنی ہوئی باریک سیپ کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔ نیز ڈلی بھی انتہائی مہارت سے مساوی جسامت کی کتری جاتی تھی۔ پان میں ڈالنے کے لیے سفید الائچی کا استعمال ہوتا۔ تمباکو بھی گھروں میں تیار کیے جاتے تھے۔[5]
پان خوری
[ترمیم]عموماً گلوری کو منہ میں رکھ لیا جاتا، اس دوران میں کچھ عرق معدہ میں پہنچ جاتا، اسے تھوک کر دوسری گلوری رکھ لی جاتی۔ پوری گلوری کھا لینے کا چلن نہیں تھا۔ پان تھوکنے کے لیے گھروں میں کسی مخصوص جگہ پر ایک اگالدان رکھا جاتا تھا، جس پر ایک رومال پڑا رہتا۔ تھوکتے وقت اس رومال کو منہ کے سامنے کر لیا جاتا۔ کسی کے سامنے یا کسی بھی جگہ پر پان کی پیک تھوکنا انتہائی مذموم سمجھا جاتا تھا۔ پان کے چبانے اور کھانے کے دوران میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ جبڑوں کی حرکت ظاہر نہ ہو اور ہونٹوں سے کسی قسم کی آواز نہ نکلے۔ گلوری کی وجہ سے خواتین کے لبوں پر ہلکی سرخی آجاتی جو پسندیدہ تھی تاہم سرخی کی اتنی فراوانی کہ دھڑی سی جم جائے معیوب تھی۔ البتہ مردوں کے ہونٹوں پر سرخی پسندیدہ نہیں تھی۔[6]
سری لنکا
[ترمیم]سری لنکا میں پان نہ صرف کھایا جاتا ہے بلکہ اسے عقیدت کی نگاہوں سے بھی دیکھا جاتا ہے، چونکہ سری لنکا کی ایک دیومالائی داستان میں پان کو دیوتاؤں سے منسوب کیا گیا ہے چنانچہ سری لنکا کے معاشرے میں یہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ دعوتوں اور ضیافتوں میں پان کی موجودگی انتہائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ وہاں گلوری میں کتھا نہیں لگایا جاتا، صرف چونا اور خشک سپاری استعمال کی جاتی ہے۔ نیز پان پیش کرتے وقت اسے لپیٹا نہیں جاتا اور ناگ پھن کی مشابہ جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ پان کو لپیٹ کر یا نوک کی جانب سے پیش کرنا برا شگون تصور کیا جاتا ہے۔ بعض افراد پان کے پتے پر موجود مسالا چاٹ کر پتا پھینک دیتے ہیں۔[7]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، ص: 130
- ↑ سہ ماہی بیلاگ اکتوبر تا دسمبر 2013ء، ص: 28، 29
- ↑ قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 3
- ↑ قلعہ معلی کی جھلکیاں از عرش تیموری، ص: 3، 4
- ↑ قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، ص: 131, 132
- ↑ قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، ص: 133
- ↑ سہ ماہی بیلاگ اکتوبر تا دسمبر 2013ء، ص: 37