گودی میڈیا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

گودی میڈیا (انگریزی: Lapdog media/journalism) کسی بھی ملک کے ذرائع ابلاغ کے ایسے طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے جو بالعموم حکمران طبقے کی مدح سرائی کرتا ہے، ان کے ہر اقدام کو سراہتا ہے، مگر ان خبروں کو جو حکمران طبقے کے خلاف ہوتی ہیں انھیں یا قابل توجہ نہیں سمجھتا یا پھر ان خبروں کو شاذ و نادر ہی اپنی اہم خبروں کے بیچ جگہ دیتا ہے۔ یہ رویہ یا تو ذرائع ابلاغ کے ان حلقوں کے بیچ پایا جاتا ہے جو فکری ہم آہنگی کی وجہ سے حکمرانوں کا ساتھ دیتا ہے یا پھر کسی لالچ اور طمع کی وجہ سے حکمرانوں کا ساتھ دیتا ہے جس میں حکومت کی جانب سے جاری اشتہارات اور دیگر فوائد میڈیا کی زبان گوئی کی ہیئت بدل دیتے ہیں۔ کبھی کبھی بر سر اقتدار حکومت یا اس کی مشنری کا ڈر جیسے کہ انکم ٹیکس اور انفورس منٹ ڈائریکٹوریٹ کے چھاپے، ہتک عزت کے مقدمے اور دیگر تادیبی اقدامات بھی میڈیا کو حکومت کا طابع، مطیع و فرماں بردار بنا دیتے ہیں۔ ان سبھی صورتوں میں ذرائع ابلاغ اور صحافت کی آزادانہ کار کردگی بے حد متاثر ہوتی ہے۔

اصطلاح کا آغاز[ترمیم]

تاریخی اعتبار سے میڈیا کا حکومتوں کی جانب سے جھکاؤ اور ان کے شانہ بشانہ موافقت کرنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ گرچہ عام طور سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں میڈیا ایک آزاد حیثیت رکھتا ہے لیکن شمالی کوریا اور دنیا کے کچھ خطوں میں میڈیا کو کوئی آزادی حاصل نہیں ہے اور چھاپنے اور برقی میڈیا دونوں پر حکومت کا زبردست کنٹرول رہتا ہے۔ تاہم بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں میڈیا کی آزادی مختلف ادوار میں مختلف نوعیت اور شکل میں رہی ہے۔ گودی میڈیا کی اصطلاح کا آغاز 2016ء میں نوٹ بندی کے بعد ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگ ملک میں 85 فی صد رائج الوقت کرنسی نوٹ یکسر منسوخ اور ناکارہ ہونے کی وجہ سے بینکوں کے آگے قطاروں میں کھڑے دھکے کھا رہے تھے اور بھارت کے تقریباً سارے چینل یہ دکھا رہے تھے کہ لوگ حکومت کے اس اقدام سے خوش ہیں۔ اسی طرح بعد کے کچھ سالوں میں میڈیا کا بڑا حلقہ حکومت کے ہر اقدام کا حامی ہو گیا اور صرف حزب اختلاف میں سقم ڈھونڈنے لگا۔ رویش کمار، ابھیسار شرما، پونیا پرسون واجپائی اور کرن تھاپڑ جیسے چند صحافیوں کے سوا جو متوازن تنقید کی دعوت دیتے رہے، بیش تر میڈیا حکومت کی تعریف میں ہی لگا رہا۔

2017ء میں این ڈی ٹی وی کے معاون بانی اور کار گزار صدر پرنے رائے کے گھر پر سی بی آئی کے چھاپہ کے بارے میں رویش کمار نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ‘تو آپ ڈرائیے، دھمکائیے، انکم ٹیکس محکمے سے لے کر سب کو لگا دیجیے گا۔ یہ لیجیے ہم ڈر سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے چمپوؤں کو لے کر بدنامی چالو کر دیجیے، لیکن اسی وقت میں سب گودی میڈیا بنے ہوئے ہیں، ایک ایسا بھی ہے جو گود میں نہیں کھیل رہا ہے‘[1]۔ ان ہی رویش کمار نے 2019ء میں بھارت کے عام انتخابات کی شفافیت اور عوام کی آزاد ذہن سازی کے لیے یہ بھی مشورہ دے دیا تھا کہ لوگ خبروں کے چینلوں پر رو نما ہونے والے مباحثوں کا 72 دنوں تک مقاطعہ (بائیکاٹ) کریں اور پھر چناؤ میں حزب اختلاف عوام کے آگے لڑ کر دکھائے۔ [2]

گودی میڈیا کے نقصانات[ترمیم]

  • حکومت کی ہر بات کی مدح سرائی
  • حزب اختلاف کی کردار کشی اور اس کا منفی انداز میں پیش ہونا
  • کئی اہم خبروں کا شائع نہ ہو یا دکھایا نہ جانا
  • غیر جانب دار تجزیے سے گریز

حوالہ جات[ترمیم]

  1. J. K. R. Staff (19 جولائی، 2017)۔ "रवीश कुमार ने 'गोदी मीडिया' पर फिर निकाली भड़ास, कहा- 'गोदी में खेलती हैं इसकी हज़ारों मीडिया'" 
  2. News Desk (12 مارچ، 2019)۔ "72 दिनों के लिए गोदी मीडिया के डिबेट का बहिष्कार करे और उससे लड़ कर दिखाए विपक्ष"۔ 10 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2019 

بیرونی روابط[ترمیم]