ہمایوں عباس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس پاک و ہند کے ان اہل قلم میں ہیں جن کو مبدا فیاض کی درگاہِ علم و دین سے حصہ وافرملاہے۔ ان میں دینی حمیت وصلاحیت بھی ہے،علمی تحقیق وفنی کدوکاوش کی بصیرت بھی۔ عربی زبان و ادب سے ان کی ضروری واقفیت ،علوم اسلامی سے ان کے گہرے شغف اورمصادر علم و تحقیق پران کی ماہرانہ گرفت نے ان کو مطالعہ ،تحقیق اورتالیف کاصحیح تناظر بخشا ہے۔ ان کے مذاق کی شفافیت اورذوق کی رنگارنگی نے ان کومتعدد علوم وفنون پر لکھنے کا حوصلہ دیا ہے۔

ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس کی سیرت النبی پر لکھی گئی کتاب ”سیرت النبی کی روشنی میں سماجی بہبود “کی تصنیف پر انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے سال 2005کی بہترین کتاب کا ایوارڈ وزیر اعظم پاکستان جناب شوکت عزیز نے دیا۔ اسی کتاب کے موضوع پر بھارت کی ایک یونیورسٹی میں ایک ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی لکھا گیا۔ اور اس موضوع نے سیرت النبی کا ایک اور دلچسپ اور نہایت اہم پہلو اجاگر کیا ہے۔ جس پر ابھی تک سیرت نگاروں نے بہت کم روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس قدیم علمی درسگاہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ گلاسگو یونیورسٹی کے فیلو بھی ہیں۔ وہ ان دنوں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ علوم اسلامیہ اور عربی کے سربراہ ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی فزکس کے میدان میں جوہری قوتوں پر لکھے گئے مقالے پر صدارتی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب متعدد کتب کے مصنف ہیں اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ جواں نسل اور جواں فکر ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس اسلامی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ مینیجمنٹ کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اور فزکس اور سائنس کے موضوعات پر بھی ان کی گہری اور وقیع نظ رہے۔گذشتہ پندرہ برسوں میں ان کے سو سے زائد علمی، سائنسی، تحقیقی اور ادبی مضامین بین الاقوامی مذہبی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چالیس سے زائد تحقیقی کتب کے بھی مصنف ہیں۔

ڈاکٹر ہمایوں عباس ایک فکری اور تعلیمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے چھوٹے بھائی، محمد ہارون عباس دنیا کے سب سے بڑے آن لائن نیوز نیٹ ورک القمر آن لائن کے بانی ہیں۔

سیرت النبی کے اس پہلو پر اردو زبان میں ابھی تک کسی نے قلم نہیں اٹھایا اور آج کے ہمارے معاشرے میں اس موضوع پر لکھنے کی بہت اہمیت اور ضرورت تھی۔ ڈاکٹر ہمایوں عباس اسی موضوع کے حوالے سے ذکوٰة اورکفالت عامہ (تعلیمات نبوی کی روشنی میں)کے موضوع پر قومی سیرت کانفرس2001ء وزارت مذہبی امور اسلام آباد میں اپنا مقالہ بھی پیش کرچکے ہیں۔ اور ان کی کتاب” خدمت خلق “ بھی اسی موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اخلاص اورحفظ مراتب نہایت اہمیت کے حامل چیزیں ہیں۔ انسان بعض اوقات اپنے قریبی اعزاءواقربا کو غیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ کردوسروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے۔ اسلام نے اس امر کومستحسن نہیں جانا۔ اس طرح بہت ہی اہم اوراہم میں فرق کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان صحراؤں کوگلستان بنانے کی فکر میں پڑجاتا ہے اورمخلوق خدا سسکتی بلکتی رہتی ہے۔ عصرحاضر میں خدمت خلق کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں جیسے کسی کے لیے روزگار کاانتظام کرنا،کسی کے لیے تعلیم کااہتمام کرنا،کوئی چیز عاریةً دینا،نیک مشورہ دینا،مظلوم کی مدد کرنا،خیراتی ہسپتال بنانا،کسی کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیاءفراہم کرناوغیرہ گویا انسانی معاشرہ کے ارتقاءکے ساتھ ان شعبوں کی وسعت یوتی جائے گی۔ اسی وجہ سے اسلام میں صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

ہمایوں عباس قرآن وحدیث اور فقہ پر غیر معمولی دسترس رکھتے ہیں۔ قرآن مقدس پر کیے جانے والے دنیائے عیسایت کی طرف سے رکیک اعتراضات کا انھوں نے جس علمی انداز میں جواب دیا وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ان کے مطابق اس سے انھوں نے انسانی معاشرے کویہ پیغام دیا ہے کہ اگر حیات دنیوی و اخروی میں سکون ،لذت، اطمینان اور نجات حاصل ہو سکتی ہے تو صرف اسلامی تشخص اور شناخت کو زندہ کر کے ،جو نبی کریم کی تعلیمات کی بنیاد اور اساس ہے۔

ہمایوں عباس شمس نے ضعیف اور موضوع احادیث کے موضوع پر گراں قدر تحقیقی کام کیا ہے اور اس موضوع پر ان کی کتاب ”ضعیف اور موضوع روایات (اصول وضوابط - پہچان) “ علمی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تصنیف ”تخریج احادیث(اصول وصوابط) “بھی اس موضوع پر حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا آج پریس اور دیگر ذرائع کی دستیابی کی بدولت ان مفید دستاویزات تک رسائی آسان ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ افسوسناک بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانام لے کر بیان کی جانے والی روایات کے بارے میں شاذ وناذر ہی تحقیق کی جاتی ہے کہ آیا یہ حدیث بھی ہے یا نہیں اور سنداً اس کا کیا مقام ہے بلکہ بیشتر علمی حلقوں میں ان بنیادی اصطلاحات سے خاصی ناواقفیت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت سی سنداً کمزور روایات نہ صرف زبان زدِ عالم ہیں بلکہ ان سے ہمارا مذہبی لٹریچر بھرا ہوا ہے۔ نتیجتاً حقیقی معنوں میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصادم نہ جانے کیا کیا خرافات اور بدعات تیزی سے رواج پا رہی ہیں۔ خالصتاً میدانِ عمل کی طرف مدعو کرنے والا سادہ اورماٰثر دین آج ان کمزور روایات کی نذر ہوکر یاتو بے عملی کا درس دیتا دکھائی دیتا ہے یااس قدر مشکل بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل کرنا ناممکن گردانتا ہے اور راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔