ہند آریائی زبانیں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ہند-آریائی زبانیں سے رجوع مکرر)
ہند-آریائی
انڈک
جغرافیائی
تقسیم:
جنوبی ایشیاء
لسانی درجہ بندی:ہند۔یورپی
سابقہ اصل-زبان:پروٹو-انڈو-آریائی
ذیلی تقسیمات:
آیزو 639-2 / 5:inc
{{{mapalt}}}
ہند آریائی زبانوں کے گروہوں کی موجودہ جغرافیائی تقسیم۔ رومانی، ڈومری، خلوسی، لواتی اور لوماورین نقشے کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
  کھوار (داردی)
  شینا (داردی)
  کوہستانی (داردی)
  کشمیری (داردی)
  سندھی (شمال مغربی)
  گجراتی (مغربی)
  خاندیشی (مغربی)
  بھیلی (مغربی)
  وسطی پہاڑی (شمالی)
  نیپالی (شمالی)
  مشرقی ہندی (مرکزی ہندوستانی)
  بہاری (مشرقی)
  اوڑیا (مشرقی)
  حلبی (مشرقی)
  سنہالی (جنوبی)
  دیویہی (جنوبی)
(نہیں دکھائی گئیں: کنڑ (داردی) اور چنالی-لاہول زبانیں۔)

ہند آریائی زبانیں ہند-یورپی خاندانِ السنہ کی ہند-ایرانی شاخ کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ یہ اِنڈک کے نام سے بھی معروف ہے۔ ایک 2005ء کی تحقیق کے مطابق ہند آریائی زبانوں میں 209 زبانیں شامل ہیں۔ اس خاندان میں ہندوستانی (ہندی-اردو) سب سے بڑی زبان ہے جس کے 64 کروڑ بولنے والے ہیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی زبان بنگالی ہے، جس کے بولنے والے 26 کروڑ ہیں۔ پنجابی تیسرے نمبر پر آتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد 15 کروڑ سے زائد ہے۔ مراٹھی چوتھے نمبر پر ہے جس کے بولنے والے 10 کروڑ سے زائد ہیں۔۔

اس خاندان میں یہ زبانیں آتی ہیں: سنسکرت، ہندی-اردو، بنگالی، پنجابی، کشمیری، سندھی، نیپالی، رومانی، آسامی، گجراتی، مراٹھی، کھاہ زبان وغیرہ ۔

ہند آریائی کی خصوصیتیں[ترمیم]

ہند آریائی میں ہند یورپی مصیت شدہ دم کشیدہ بندشی حروف ’گھ، بھ، دھ‘ اب تک برقرار ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے یہ ایک ہی زبان ہے، جس میں یہ حروف اب تک محفوظ ہیں۔ قدیم ہند آریائی اور خاص کر ٹکسالی سنسکرت میں مرکب الفاظ کا ہجوم بہت بڑھ گیا تھا۔ ٹکسالی سنسکرت میں تو یہ الفاظ میں اتنے بے ہنگام ہو گئے تھے کہ ایک مرکب الفاظ کبھی کبھی ایک صفحہ جگہ لے لیتا تھا۔ ایرانی کے مقابلے میں ہند آریائی کی مندرجہ ذیل خصوصیتیں قابل ذکر ہیں۔ (1) کوزی حروف صحیح کا مظہر (2) آریائی ’ز‘ کی ’ج‘ میں تبدیلی۔ یہ ’ز‘ ایرانی میں برقرار رہے۔ مثلاً

اوستا عہد حاضر کی فارسی ہندآریائی معنی
زات زاد جات پیداشدہ

لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ فارسی اور عربی سے متاثرہ ہند آریائی زبانوں میں ’ز‘ کو ’ج‘ کی بجائے ’ز‘ ہی رکھا جاتا ہے۔ ان زبانوں میں اردو، سندھی اور پنجابی کی وسطی اور مغربی اقسام شامل ہیں۔

ہند آریائی زبان کا ارتقا[ترمیم]

ہند آریائی زبان کے ارتقا کے مختلف مراحل ہیں۔

  1. قدیم آریائی
  2. قدیم ہند آریائی
  3. وسطی ہند آریائی
  4. عہد حاضر کی ہند آریائی زبانیں

ہند آریائی کے ارتقا کی پانچ منزلیں ہیں (1) ویدک منزل (2) زمانہ پانی منزل (3) رزمیہ منزل(4) دنیاوی منزل (5) ٹکسالی منزل

ویدک منزل[ترمیم]

ویدک منزل کی زبان ویدوں میں ملتی ہے۔ یہ عام لوگوں کی بولی نہیں تھی بلکہ ایک خاص جماعت (پُروہت) کی بولی تھی۔ ویدوں میں ایسے بہت کم الفاظ ملتے ہیں جن سے عام لوگوں کی صوتی خصوصیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

زمانہ پانی منزل[ترمیم]

اس منزل میں سنسکرت زبان ہندوستان کے عالموں کی مشترکہ زبان بن گئی۔

رزمیہ منزل[ترمیم]

اس منزل میں خاص کر مہابھارت تصنیف ہوئی۔ عام لوگوں کی زبان سے بھی پراکرت کے الفاط کثیر تعداد میں سنسکرت میں شامل کیے گئے۔

دنیاوی منزل[ترمیم]

اس منزل میں سنسکرت زبان ہندوستان کی سرکاری زبان بن گئی اور اس کا پروہت جماعت سے مخصوص تعلق ٹوٹ گیا۔ سنسکرت کی صرف و نحو سادہ ہو گئی اور کا خزانۂ الفاظ عام لوگوں کی بولیوں کی ممنونیت کی وجہ سے بہت بڑھ گیا۔

ٹکسالی منزل[ترمیم]

اس منزل میں سنسکرت کا عام لوگوں سے پھر ٹوٹ گیا اور سنسکرت ایک بناوتی زبان بن گئی۔

وسطی ہند آریائی[ترمیم]

اس منزل میں اشوک کے کتبے لکھے گئے تھے۔ اس دور کی اہم زبانیں مگدھی، پالی، پراکرات اور اپ بھرنش ہیں۔

مگدھی[ترمیم]

اس دور کی سب سے اہم بولی مگدھی کہلاتی تھی، جس میں سنسکرت کی ’ر‘ کی جگہ ’ل‘ اور سنسکرت کے فاعلی لاحقے ’اح‘ کی جگہ ’اے‘ بولا جاتا تھا۔

پالی[ترمیم]

پالی زبان میں بدھوں کی مقدس کتابیں قلمبند کی گئیں۔ پالی کے معنی کتاب کی اصلی عبارت کے ہیں اور مابعد یہ لفظ کتاب کی اصل زبان کے لیے مستعمل ہونے لگا۔ یہ زبان براست ٹکسالی سنسکرت سے مشتق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں متعدد ایسی تشکیلیں بھی ملتی ہیں جو ویدک ہند آریائی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حالت کا لاحقہ ’ہ‘ ویدک میں ’بھس‘ لیکن ٹکسالی سنسکرت میں ’ائی س‘ ہے۔

اردھ مگدھی[ترمیم]

جین مت کے مقدس کتابوں کی زبان تھی۔ اس میں سنسرت کی ’ر‘ کی جگہ ’ل‘ اور سنسکرت کے فاعلی لاحقہ ’اح‘ کی ’اے‘ ہو گئی تھی۔ ہاں مگدھی پراکرت کی طرح ’س‘ کی ’ش‘ نہیں ہوئی تھی۔ لہذا اسے نصف مگدھی کہتے ہیں، کیوں کہ مگدھی میں یہ تینوں تبدیلیاں ہو گئی تھیں۔

پراکرات[ترمیم]

یہ عام لوگوں کی زبانیں تھیں۔ (1) شورشینی (2) مگدھی (3) مہاراشٹری

پشتو[ترمیم]

یہ زبان جنوب مشرقی افغانستان میں اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بولی جاتی ہے۔ پشتو ایک تاریخی ہند آریائی زبان تھی۔ جدید پشتو کو مشرقی ایرانی زبان کے طور پر درجہ بندی کیا جاتا ہے، لیکن تاریخی پشتو ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا تاریخی سندھی اور پنجابی سے گہرا تعلق تھا۔ پشتو زبان میں 'خ' سے شروع ہونے والے الفاظ اردو یا فارسی میں 'ش'، 'ز' سے شروع ہونے والے 'ج' اور 'ځ' سے شروع ہونے والے الفاظ 'چ' سے لکھے جاتے ہیں۔

شورسینی[ترمیم]

یہ دوآبہ گنگ و جمن و پنجاب کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ اس میں سنسکرت کی ’ش‘ کی ’س ہو گئی تھی۔ مثلاً سنسکرت میں ’دیش‘ (ملک) شورسینی میں ’دیس‘۔ لیکن مگدھی میں الٹی ’س‘ کی ش ہو گئی تھی۔ مثلاً سنسکرت ’سُندرَ‘ مگدھی میں ’شُندرَ‘ (خوبصورت)

مہاراشٹری[ترمیم]

مہاراشٹری میں لفظوں کے اندرونی حروف صحیح تقریباً سب مفقود ہو گئے تھے۔ مثلاً: صرف ایک مہاراشٹری لفظ ’ام‘ سنسکرت کے ’مت‘ (سوچاہوا) ’ند‘ (بھرا ہوا) ’برت‘ (مردہ) ’مرگ‘ (ہرن) کی جگہ مستعل ہوتا ہے۔

اپ بھرنش[ترمیم]

اپ بھرنش جس کے معنی دور افتادہ کے ہیں، یہ پراکرت کا مابعد ارتقا ہیں۔ ان بولیوں کا آغاز چھٹی صدی عیسویں سے ہوا تھا اور یہی زبانیں عہد حاضر کی زبانوں کا پیش خیمہ ہیں۔ ان بولیوں میں دیسی بولیوں کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے اور صرف و نحو سادہ ہو گئی۔ ان کی عام خصوصیات یہ تھی کہ ان میں سنسکرت واحد فاعلی و مفعولی حالت کے لاحقہ ’ح اور اَ‘ ہو گئی تھی۔ مثلاً:

سنسکرت اپ بھرنش معنی
پھلم پھل پھل
ویدہ وید وید
شاشترم ستھ شاستر

عہد حاضر کی ہند آریائی زبانیں[ترمیم]

عہد حاضر کی ہندآریائی زبانوں کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں بنگالی گیت چریا کی تصنیف ہوئی تھی اور اسی زمانے میں پرانی ہندوی (اردو) کی تصانیف بھی نیپال میں راہل سانکر انتیائن کی تحقیقات سے برآمد ہوئیں۔ مراٹھی اور گجراتی زبان میں سنسکرت کی ایک صرف و نحو لکھی گئی۔

عہد حاضر کی ہند آریائی زبانوں کی خصوصیتیں[ترمیم]

عہد حاضر کی ہندآریائی کی نمایاں خصوصیت اس کا تسلسل ہے۔ ہنگری اور رومانی زبانوں کی طرح ہند آریائی میں کبھی عدم تسلسل نہیں ہوا۔ عموماً حروف علت اور وہی حروف صحیح جو قدیم زمانے میں بولے جاتے تھے اب بھی بولے جاتے ہیں۔ اسی تسلسل کی وجہ سے عہد حاضر کی ہندی زبانوں کی حد بندی نہایت مشکل ہو گئی ہے۔ مثلاً: یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ پنجابی کہاں ختم ہوتی ہے اور لہندی کہاں شروع ہوتی ہے۔ یہ گروہ بندی آگے واضح ہوگی۔

گروہ بندی[ترمیم]

جنوب و مغرب اور دوآبہ گنگ جمن کی زبانیں[ترمیم]

ان میں ہندوی (اردو اور ہندی)، راجستھانی، گجراتی اور مراٹھی شامل ہیں۔ ان زبانوں کی عام خصوصیت یہ ہے کہ ان میں قدیم ہند آریائی کے حروف صحیح مفرد ہو گئے ہیں اور ان حروف صحیح سے پہلے جو حروف علت تھے وہ لمبے ہو گئے ہیں۔ مثلاً: سنسکرت میں ’دنت‘ ہندوی ’دانت‘ گجراتی اور مراٹھی میں ’وانت‘

ہندوی (اردو اور ہندی)[ترمیم]

ہندوی کی دو بڑی شاخیں ہیں۔ ایک مشرقی اور دوسری مغربی۔ ان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فاعلی حروف جار ’نے‘ لاحقہ کے بعد لگایا جاتا ہے، جب کہ مشرقی ہندوی میں اس کی عدم موجودگی ہے۔

راجستھانی[ترمیم]

راجستھانی زبان گجراتی سے ملتی جلتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی غیر فاعلی جمع کا لاحقہ ’آں‘ ہے لیکن گجراتی میں ’آ‘ ہے اور راجستھانی میں حالت ایجنٹ (عامل) کے معنی میں حروف جار ’نے‘ کی بجائے خاص لاحقہ ’ائی‘ لگایا جاتا ہے۔

گجراتی[ترمیم]

گجراتی زبان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم ہند آریائی ’و‘ اب تک برقرار رہے۔ دیگر کثیر التعداد ہند آریائی زبانوں میں اس کی ’ب‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً: ہندوی ’بنیا‘ لیکن گجراتی ’وان یو‘ (دکان دار)۔ لہذا گجراتی زبان کا مطالعہ قدیم ہند آریائی ’و‘ کی تحقیقات کے لیے لازمی ہے کہ اس زبان کے ذریعہ پتہ لگ سکتا ہے کہ سنسکرت کے کن الفاظ کن الفاظ میں ’و‘ اور کن الفاظ میں ’ب‘ بولی جاتی ہے۔

مراٹھی[ترمیم]

مراٹھی کی نمایاں قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لفظ کا ماقبل آخر کا رکن لمبا ہو تو چھوٹا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ’کُم رو‘ (لڑکا)، پرفیسر ٹرنر کی رائے میں یہ قدیم ہند یورپی لہجہ کا اثر ہے جو لفظ کے پہلے رکن پر پڑتا ہے۔

مشرقی ہندآریائی زبانیں[ترمیم]

ان میں بہاری، بنگالی، آسامی اور اڑیا زبانیں شامل ہیں۔ ان زبانوں میں قدیم ہند آریائی حروف علت ’ا‘ کی جگہ ’او‘ ہوتا ہے اور مستبل کا لاحقہ ’ب‘ سے بنتا ہے جو سنسکرت کے احتمال مجہورجزو فعل سے بنا ہے۔

بہاری[ترمیم]

بہاری زبان کی خاص نوعیت یہ ہے کہ لفظ سے ماقبل آخر رکن سے بہشتر کوئی رکن لمبا ہو تو چھوٹا ہوجاتا ہے۔ مثلاً ’نَ اُ آ‘ (ھجام)، یہاں ’نااُ آ‘ کا ’نِ اُ آ‘ ہو گیا ہے،

بنگالی[ترمیم]

بنگالی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مگدھی پراکرات کی طرح سنسکرت کی ’س‘ کی ’ش‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً سنسکرت کے ’سُندَرَ‘ کی بجائے ’شندر‘ بولا جاتا ہے۔

اڑیا[ترمیم]

اڑیا زبان کی خاص نوعیت یہ ہے کہ اس میں ہند آریائی کی ابتدائی ’س‘ کی ’خ‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً ’خات‘ (سات) سنسکرت ’سپَتَ‘۔ اس کی دوسری خصوصیت اس میں ہند آریائی کا ’اَ‘ اب تک برقرار ہے۔ مثلاً ’گھرَ‘، بنگالی ’گھور‘ ہندوی ’گھر۔

شمال مغربی ہند آریائی زبانیں[ترمیم]

ان میں پنجابی، سندھی اور لہندی شامل ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان زبانوں میں پراکرت کے حروف صحیح برقرار ہیں۔ مثلاً پراکرت ’ستَ‘، پنجابی، لہندی اور سندھی میں ’ست‘ (سات)

پنجابی[ترمیم]

پنجابی کی خاص نوعیت یہ ہے کہ اس میں اب تک ہندآریائی مرکب حروف صحیح کا ’ر‘ اب تک برقرار ہے۔ مثلاً پنجابی ’ترے‘ سنسکرت ’تریخ‘ (تین)۔

پنجابی کی تین اقسام ہیں:

  • مشرقی پنجابی
  • مغربی پنجابی
  • وسطی پنجابی

ان اقسام میں پنجابی لہجوں کے بہت سے گروہ ہیں جو پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پنجابیوں میں بولی جاتی ہیں۔

سندھی[ترمیم]

سندھی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کے ڈبے ہوئے حروف صحیح ہیں، جن کے تلفظ میں فم حلق کی بالکل بندش ہوجاتی ہے اور پھر یک دم اس کے کھل جانے سے ایک کھوکھلی سے آواز نکلتی ہے، جیسے: ایک سخت کاک کو کھو کو بوتل سے کھولنے سے آواز نکلتی ہے۔ مثلاً: سندھی ’ڈیرا‘ سنسکرت ’دیپکَ ح‘ (چراغ)۔ اس سندھی لفظ میں ’د‘ دباہوا حروف صحیح ہے۔

درد گروہ[ترمیم]

درد گروہ میں، کشمیری اور شنا، شامل ہیں۔ صوتیات کے نکتہ نظر سے یہ زبانیں ابھی پراکرت کی منزل میں ہی ہیں۔ ان میں دوہرے حروف صحیح اور اندرونی ’ی‘ ابھی تک برقرار ہیں۔ کشمیری زبان کی خصوصیت اس کا پیچیدہ نظام حروف علت ہے۔ اس میں ایسے باریک حروف علت موجود ہیں، جن کے وجود کو صرف بولنے والاہی محسوس کر سکتا ہے اور سننے والے کو سنائی نہیں دیتا ہے۔ اگر سنائی دیتے ہیں تو سخت کوشش اور توجہ کے بعد۔ اس کے علاوہ یہ صورتی شکلیں ایسی پراسرار ہیں کہ ان کو صوتی علامات میں قلم بند کرنا اور ان کی حقیقت کو سمجھنا ایک ماہر صوتیات کے لیے بھی نہایت مشکل ہے۔ مثلاً: ’أاِسِ اس‘ (ہم تھے)۔ اس میں تین حروف علت ہیں اور تینوں کو علامات میں ظاہر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ مثلاً: ’س‘ میں ایسا باریک زیر بولا جاتا ہے، جس کو عام طور پر بولنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔

کافری زبانیں[ترمیم]

یہ چترال کے گرد و نواح میں بولی جاتی ہے۔ ان میں کھوار کلاشاوغیرہ کی بولیاں شامل ہیں، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں آریائی ’ز‘ جو قدیم ہند آریائی میں ’ج‘ ہو گئی تھی ،اب تک برقرار ہے۔ مثلاً: کتی میں ’زوست‘(دوست)، اوستا میں ’زوش‘، سنسکرت میں ’جوش ٹر‘ خوش کرنے والا۔

کھوار[ترمیم]

کھوار کا خزانہ الفاظ دیگر کافری زبانوں سے مختلف ہے۔ مثلاً

کھوار کلامتا بش گلی معنی
یشُ گگ گاؤ گائے
کلاشا[ترمیم]

کلاشا میں تذکیر و تاثنیت زیادہ تر مفقود ہو چکی ہے۔ ہاں بے جان قسم کی موجود ہے۔

برصغیر کے باہر کی ہند آریائی زبانیں[ترمیم]

برصغیر کے باہر کی ہند آریائی زبانوں میں سنگھلی اور جپسی شامل ہیں۔

سنگھلی[ترمیم]

یہ جزیرہ لنکا میں بولی جاتی ہے، اس کی خصوصیت ہے کے ان میں دم کشیدہ حروف صحیح اور حنکی حروف صحیح بالکل مفقود ہو چکے ہیں۔

جیپسی[ترمیم]

جیپسی ہند آریائی زبانوں کی نہایت ہی حیرت انگیز اور بے نظیر مثال ہے۔ جپسی چودہویں صدی ہجری میں یورپ کے مختلف ملکوں تک جاپہنچی تھی۔ یہ لوگ خانہ بدوش ہیں اور جو چوری اور پیشن گوئی وغیرہ سے گزارہ کرتے رہے۔

رسم الخط[ترمیم]

بر صغیر میں 800 ق م کے قریب لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ ابتدائی تحریروں کے جو نمونے ملتے ہیں وہ اشوک کے کتبات کے نمونے ہیں۔ اشوک کے کتبات یا تو خروشتی رسم الخط میں ہیں، جو مشرقی افغانستان اور پنجاب میں رائج تھا یا برہمی رسم الخط کے ہیں۔

خروشتی ایک قدیمی آرامی رسم الخط سے اخذ کیا گیا ہے جو 500 ق م میں رائج تھا اور یہ دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ براہمی رسم الخط کو آریوں نے خروشتی رسم الخط میں ترمیم کرکے مقای زبان اور اصوات میں و حروف میں تبدیل کر لیا تھا۔ براہمی رسم الخط میں 64 حروف کی شکلیں معین کی گئیں اور اسے بائیں سے دائیں لکھنے کا قائدہ بنا لیا۔ 500 ق م میں براہمی رسم الخط مکمل ہو گیا تھا۔ قواعد صرف و نحو کے مشہور عالم پاننی، جس کا زمانہ چوتھی صدی قبل عیسوی مانا گیا ہے۔ اس کے زمانے میں یا کچھ عرصہ بعد براہمی رسم الخط کی دوشاخیں ہوگئیں۔ ایک شمالی اور دوسری ناگری۔ ناگری شمالی رسم الخط کی ترمیم شدہ شکل ہے۔ جنوبی ہند کے مختلف رسم الخط جنوبی براہمی سے اخذ کیے گئے ہیں۔[1] پاننی نے قواعد کے ساتھ زبان کو ایک معیاری شکل دے دی۔ یہیں سے ویدی زبان کا سلسلہ ختم ہوکر سنسکرت کا شروع ہوتا ہے۔ بول چال کی زبانیں اس کے بعد بھی وہی رہیں اور ان میں کچھ نہ کچھ ترقی ہوتی رہی، لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی زبان سنسکرت ہی رہی۔[2] سنسکرت کے معنی سنواری ہوئی زبان کے ہیں اور اس کے مدِ مقابل عام بولیاں پراکرت یعنی خود رو کہلاتی تھیں۔[3] اس کے علاوہ یہاں عربی رسم الخط بھی مروج ہے جو زیادہ تر مسلمان استعمال کرتے ہیں ۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پروفیسر محمد مجیب، تمدن ہند 57
  2. پروفیسر محمد مجیب، تمدن ہند۔ 57
  3. حمید اللہ ہاشمی: پنجابی زبان و ادب