یحییٰ بن عبد الحمید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یحییٰ بن عبد الحمید حمانی
معلومات شخصیت
قومیت خلافت عباسیہ
والد عبد الحمید بن عبد الرحمن

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا نام نامی اسم گرامی یحییٰ اور کنیت ابو زکریا ہے۔

  • نسب نامہ یہ ہے: یحییٰ بن عبد الحميد بن عبد الرحمن ابن میمون بن عبد الحمید

حافظ ابن حجر نے عبد الرحمن اور آخری عبد الحمید کی بجائے عبد اللہ اور عبد الرحمن لکھا ہے۔ یحیی کے والد بھی اکابر محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے پردادا میمون کا لقب کشمین تھا۔

خاندان و وطن[ترمیم]

قبیلہ حمان سے نسبتی تعلق رکھتے تھے، یہ قبیلہ کوفہ میں آباد ہو گیا تھا جو یحیی کا وطن ہے اسی لیے وہ کوفی اور حمانی کی نسبتوں سے مشہور ہیں۔

پیدائش[ترمیم]

آپ کے سنہ ولادت کی تعیین وتصرت کتابوں میں نہیں ہے، قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ 155ھ اور 16ھ کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہوں گے۔

سفر[ترمیم]

طلب حدیث کے لیے آپ کے سفر و سیاحت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ علامہ خطیب نے بغداد جانے کی تصریح کی ہے۔

اساتذہ[ترمیم]

اپنے والد ماجد عبد الحمید کے علاوہ انھوں نے جن نامور محدثین سے اکتساب فیض کیا تھا ان کے نام حسب ذیل ہیں۔

  • ابراہیم بن سعد ، ابو اسرائیل ملائی ، ابوبکر بن عياش ، ابوخالد الامر ، ابوعوانہ ، ابومعاویہ ، ضرر جریر بن عبد الحمید ، جعفر بن سلیمان ، حکیم بن ظہیر ، حماد بن زید ، خالد بن عبد اللہ ، سفیان بن عیینہ ، سلیمان بن بلال ، شریک بن عبدالله ، عبد الرحمن بن زید ، عبد الرحمن بن غسیل ، عبد اللہ بن مبارک ، عبد الواحد بن زیاد ، قیس بن ربیع ، ہشام ، وکیع اور یحیی بن یمان وغیرہ۔

حدیث میں درجہ[ترمیم]

آپ بلند پایہ اور نامور محدث تھے۔ آپ کے اساتذہ میں سفیان بن عیینہ وغیرہ آپ کے علم و فضل اور حدیث میں کمال کے معترف تھے۔ علامہ ذہبی اور خطیب نے احد اركان الحديث اور احد المحدثین کے الفاظ سے آپ کا تعارف کرایا ہے۔

قوت حافظہ[ترمیم]

آپ کی قوت حفظ غیر معمولی تھی۔ ائمہ فن نے الحافظ ، الحافظ الكبير وكان من اعيالي الحفاظ وغیرہ الفاظ سے آپ کو موسوم کیا ہے۔ ابن معین کا بیان ہے کہ کوفہ میں آپ سے بڑا کوئی حافظ حدیث نہیں تھا۔ شریک کے مرویات خاص طور پر آپ کو حفظ تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی سات ہزار حدیثوں کا ذخیره یحیی حمانی کے پاس تھا۔

ثقاہت[ترمیم]

اکثر محدثین نے آپ کی توثیق کی ہے۔ ابن عدی فرماتے ہیں لا بأس به ینعی ان کی روایات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ابن معین نے آپ کی ثقاہت کا اعتراف کیا ہے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ وہ صدوق تھے محض حسد کی وجہ سے ان میں کلام کیا گیا ہے لیکن امام نسائی نے انھیں ضعیف اور امام احمد ابن مدینی ، ذہلی اور علامہ ابن سعد وغیرہ ائمہ نے ان پر جرح بھی کی ہے لیکن ان کی اکثریت ان کوثقہ اور حجت مانتی ہے اور امام بخاری تک نے اپنی صحیح میں فضائل قرآن کے ابواب میں آپ کے واسطہ سے ایک روایت نقل کی ہے۔

وفات[ترمیم]

مشہور روایت کے مطابق آپ کا انتقال رمضان 228ھ میں ہوا لیکن علامہ ابن سعد کی روایت کے مطابق 230ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔

تصنيفات[ترمیم]

آپ کی ایک تصنیف مسند کا پتہ چلتا ہے جو بہت ضخیم تھی۔ ابن عدی لکھتے ہیں

  • وله مسند صالح ولم أر شيئا مند منكرا فی مسنده

مسند حمانی نہایت عمدہ اور بہتر ہے مجھے اس کے اندر کوئی منکر حدیث نظر نہیں آئی۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے یہی مسند مرتب کی گئی ، جو صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ عبید ابن موسی بھی صاحب مسند ہیں، ان کے اور حمانی کے سنہ وفات میں کم ازکم پندرہ سال کا تفاوت ہے، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انھوں نے حمانی سے پہلے مسند مرتب کی ہوگی لیکن مسند حمانی کی قدامت بھی مسلم ہے۔

تلامذہ[ترمیم]

آپ کے حلقہ فیض سے جو اہم اور جلیل القدر محدثین وابستہ تھے، ان کے نام یہ ہیں۔ ابوبکر بن ابی الدنیا ، ابوحاتم ، ابوقلابہ قاشی ، ابویعلی موصلی ، احمد بن یحیی حلوانی ، حمدان بن علی دراق ، عبد اللہ بن احمد دورتی ، عبد الله بن محمد بغوی ، عثمان بن خرزاد ، علی بن عبد العزیز لغوی ، قسیم این عباد ترمذی ، محمد بن ابراہیم بوشخجی ، محمد بن ایوب ، محمد بن حسین وداعی ، محمد بن عبید بن ابی الاسد ، موسی بن اسحاق انصاری اور موسی بن ہارون وغیرہ۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرة المحدثین جلد اول مولف ضیاءالدین اصلاحی صفحہ 118 تا 120