مندرجات کا رخ کریں

یزید بن ابی مسلم ثقفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یزید بن ابی مسلم ثقفی
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 721ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ والی ،  سیاست دان ،  عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

یزید بن ابی مسلم ثقفی

[ترمیم]

تعارف

[ترمیم]

یزید بن ابی مسلم ثقفی اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں شخصیت تھا، جو عہد اموي میں اہم مناصب پر فائز رہا۔ وہ حجاج بن یوسف ثقفی کا مولیٰ (آزاد کردہ غلام) تھا اور اس کے کاتبوں اور مشیروں میں شمار ہوتا تھا۔ حجاج کی سرپرستی میں، یزید کو انتظامی اور دفتری معاملات میں مہارت حاصل ہوئی اور وہ اموی حکمرانوں کے قریب ہو گیا۔ بعد میں سلیمان بن عبد الملک کے دور میں بھی اس نے اہم خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں، جب یزید بن عبد الملک خلیفہ بنا، تو اس نے یزید بن ابی مسلم کو افریقیہ کا گورنر مقرر کیا۔ تاہم، اس کی حکومت ظالمانہ طرزِ عمل اور سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے مقامی لوگوں میں سخت ناپسند کی گئی، جس کے نتیجے میں اسے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار افریقیہ کے باشندوں نے اسے قتل کر دیا۔[1]

یزید بن ابی مسلم ثقفی کی پیشہ ورانہ زندگی

[ترمیم]
  • حجاج کے ساتھ کام

یزید بن ابی مسلم ثقفی کو حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے دور میں مالیاتی امور کی نگرانی کے لیے منتخب کیا تھا۔ حجاج کی وفات کے وقت وہ خراج (ٹیکس) کے محاصل کی دیکھ بھال پر مامور تھا اور اس کی ذمہ داری ریاست کے مالی وسائل کو منظم اور محفوظ رکھنا تھی۔ بعد ازاں، خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بھی یزید کو اسی منصب پر برقرار رکھا، جس سے اس کی مالیاتی امور میں مہارت اور حکومتی اعتماد کا اندازہ ہوتا ہے۔

  • انتظامی صلاحیت

یزید بن ابی مسلم ثقفی کی انتظامی مہارت اور صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "میری، حجاج اور ابی العلاء (یزید بن ابی مسلم) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا درہم گم ہو جائے اور اسے دینار مل جائے۔" یہ قول ظاہر کرتا ہے کہ یزید بن ابی مسلم نہ صرف ایک باصلاحیت منتظم تھا بلکہ اس کی کارکردگی اتنی شاندار تھی کہ اسے حجاج کے متبادل کے طور پر ایک قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔[2]

سلیمان بن عبد الملک کے ساتھ تعلقات

[ترمیم]
  • اقتدار میں تبدیلی

جب سلیمان بن عبد الملک خلافت پر فائز ہوا، تو یزید بن ابی مسلم پر سخت ناراض تھا اور اس سے پہلے کے اقدامات کی وضاحت طلب کی۔ اس کی ماضی کی زیادتیوں کے سبب سلیمان نے اس سے دینار (مال) طلب کیا اور اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

  • ذاتی شکل و صورت اور تاثر

یزید بن ابی مسلم کا ظاہری حلیہ غیر متاثر کن تھا—وہ پستہ قد، بدصورت، موٹے پیٹ والا اور بدنما نقوش والا شخص تھا۔ جب سلیمان نے اسے دیکھا تو کہا: "اللہ اس پر لعنت کرے جس نے تمھیں کوئی عہدہ دیا!"[3] یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سلیمان کو یزید کے بارے میں پہلے سے ہی منفی تاثر تھا۔

  • یزید کا جواب

یزید بن ابی مسلم نے بڑی چالاکی اور تدبر کے ساتھ جواب دیا: "اے امیر المؤمنین! ایسا مت کہیے، آپ نے مجھے اس وقت دیکھا ہے جب معاملات میرے حق میں نہیں تھے۔" اس جملے سے اس کا سیاسی شعور ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ پہلے حجاج کی طاقت کے زیر سایہ تھا اور اب وہ بے اختیار ہو چکا ہے۔[4]

انجام

[ترمیم]
  • سلیمان بن عبد الملک کا فیصلہ

سلیمان نے اس پر مزید غور کیا اور اس سے حجاج بن یوسف کے بارے میں سوالات کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے حجاج کے ظالمانہ طرزِ حکمرانی کا ایک اہم فرد سمجھتا تھا اور ممکنہ طور پر اسے سزا دینا چاہتا تھا۔

  • افریقیہ کی ولایت اور قتل

بالآخر، یزید بن ابی مسلم کو افریقیہ کا گورنر مقرر کیا گیا، لیکن اس کی حکمرانی سخت اور جابرانہ تھی۔ اس کی قساوت کے خلاف مقامی لوگوں، بالخصوص خوارج نے مزاحمت کی۔ 102 ہجری میں، اس کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے، افریقیہ کے باشندوں نے اسے قتل کر دیا اور اس کا اقتدار جلد ہی ختم ہو گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. المصدر: "تاريخ الإسلام" - الذهبي
  2. المصدر: "تاريخ الطبري" - محمد بن جرير الطبري
  3. المصدر: "البداية والنهاية" - أبو الفرج ابن الجوزي
  4. المصدر: "كشاف الأعلام" - الشيخ منصور بن أحمد