یوم آزادی بھارت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(یوم آزادی (بھارت) سے رجوع مکرر)
بھارت کا یوم آزادی
The national flag of India hoisted on a wall adorned with domes and minarets.
بھارت کے قومی پرچم کی لال قلعہ میں پرچم کشائی
منانے والے بھارت
قسمقومی
اہمیتبھارت کی آزادی کا جشن
تقریباتپرچم کشائی، پریڈ، آتش بازی، ملی نغمے اور جن گن من، وزیراعظم بھارت اور صدر بھارت کی تقریریں
تاریخ15 اگست
تکرارہر سال
تاریخ ہندوستان
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن

یوم آزادی بھارت میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سنہ 1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ یہ آزادی تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا واقعہ بھی پیش آیا اور برطانوی ہند کو مذہبی بنیادوں پر دو ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت ڈومینین اور پاکستان ڈومنین۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف خطرناک مذہبی فسادات ہوئے جن میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ مارے گئے اور بے گھر ہوئے۔ 15 اگست سنہ 1947ی کو بھارت کے وزیر اعظم بھارت جواہر لعل نہرو نے دہلی میں واقع لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر بھارت کا نیا پرچم لہرایا۔ اسی دن ہر سال بھارت کا وزیر اعظم بھارتی پرچم لہراتا ہے اور ملک کو خطاب کرتا ہے۔[1] اس دن پورے ملک میں قومی تعطیل منائی جاتی ہے اور جگہ جگہ پرچم کشائی اور دیگر رسمی تقریبات کے ذریعہ جشن آزادی منایا جاتا ہے۔ [2][3]

تاریخ[ترمیم]

17 ویں صدی میں یورپی تجار بر صغير میں آنا شروع ہوئے اور انھوں نے اپنی چوکیاں قائم کر لیں۔ دھیرے دھیرے انھوں نے فوج جمع کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج بنا لی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔ جب ہندوستانی علما اور بڑے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کو روکا نہ گیا تو مستقبل میں یہ ہندوستان کی حکمران بن جائے گی، لہذا ملک گیر تحریک آزادی ہند کا آغاز ہوا اور جنگ آزادی ہند 1857ء کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد حکومت ہندوستان ایکٹ 1858ء بنا جس کی رو سے تاج برطانیہ نے براہ راست ہندوستان کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اس کے بعد ہندوستان بھر میں تدریجاْ منتعدد تنظیمیں ابھرنا شروع ہوئیں جن میں سب سے مشہور انڈین نیشنل کانگریس ہے جس کی بنیاد سنہ 1885ء میں رکھی گئی۔ [4][5]:123 پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں بہت ساری اصلاحات کی گئیں جن میں مونٹیگو چیمسفرڈ اصلاحات قابل ذکر ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ رولٹ ایکٹ جیسا تکلیف دہ قانون بھی نافذ کیا گیا اور ہندوستانی سماجی کارکنوں نے خود کی حکمرانی کا مطالبہ کیا۔ ہندوستانی عوام کو برطانوی حکومت کا یہ رویہ ہرگز پسند نہیں آیا اور اس طرح موہن داس گاندھی کی قیادت میں ملک بھر میں عدم اعتماد اور سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا اور پورے ملک میں عدم تشدد تحریک کی لہر دوڑ گئی۔ [5]:167

1930ء کی دہائی میں برطانوی اصلاحات قانونی شکل اختیار کرنے لگی تھیں؛ کانگریس نے انتخابات میں متعدد فتوحات حاصل کیں۔ [5]:195–197 اگلی دہائی مکمل طور سیاسی گھماسان کی دہائی ہے: جیسے پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی شراکت داری، تحریک عدم اعتماد کے لیے کانگریس کی آخری کاوشیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی زیر قیادت اتحاد اسلامیت کا ہنگامہ۔ مگر یہ تمام بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگیاں 1947ء میں آزادی ملنے کے بعد محدود ہو گئیں۔ برصغیر کا جغرافیہ خونی تقسیم ہند کے ذریعہ بھارت و پاکستان میں منقسم کر دیا گیا۔[5]:203

یوم آزادی ماقبل آزادی[ترمیم]

19 دسمبر 1929ء کو لاہور میں ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں مکمل حکومت اور آزادی ہند کا اعلان کر دیا اور [6] اور 15 اگست کو یوم آزادی منانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ [6] کانگریس نے عوام کو خود کو سول نافرمانی کے لیے سونپ دینے کی گزارش کی اور ہدایت دی کہ وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے کانگریس کی ہدایات پر عمل کریں یہاں تک کہ ہمیں مکمل آزادی مل جائے۔ [7]

اس طرح یوم آزادی منانے کا مقصد ہندوستانی عوام میں آذادی کا شوق اور جذبہ قائم کرنا تھا اور برطانوی حکومت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ جلد از جلد مکمل آزادی دینے پر غور کریں۔ [8]:19 1930ء اور 1946ء کے دوران میں کانگریس نے 26 جنوری کو یوم آزادی منایا۔ [9][10] جشن آزادی کے موقع پر متعدد جلسے ہوتے تھے جہاں حاضرین آزادی کا عہد کرتے تھے۔ [8]:19–20

جواہر لعل نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے: “اس طرح کے جلوس مکمل خاموش، سنجیدہ اور اور پرامن ہوتے تھے جہاں تقریر و تحریر سے مکمل گریز کیا جاتا تھا۔ “[11] مہاتما گاندھی ان جلسوں میں پورا دن خالی بیٹھ کر گزارنے کی بجائے کوئی تعمیری کام کیا کرتے تھے مثلاً چرخا چلایا کرتے تھے، اچھوت لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے، ہندو اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوششیں کیا کرتے تھے یا پھر یہ تمام کام ایک ساتھ کیا کرتے تھے۔[12] 1947 میں حقیقی آزادی ملنے کے بعد 26 جنوری 1950 کو آئین ہند نافذ کیا گیا اور تب سے یہ دن یوم جمہوریہ بھارت کے طور پر منایا جانے لگا۔

فوری پس منظر[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم کے کے بعد برطانوی خزانہ خالی ہو گیا، تب 1946 میں برطانیہ میں لیبر پارٹی نے محسوس کیا کہ اس کو نا تو گھر میں رائے عامہ ہے، نہ ہی کوئی عالمی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ہندوستان کو بے چین اور خستہ حال کردینے کی وجہ سے برطانوی ہندی فوج کا بھروسا حاصل ہے۔ [5]:203[13][14][15] 20 فروری 1947ء کو وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ برطانوی ہند کو 1948ء تک مکمل آزادی اور حکومت کا اختیار سونپ دیا جائے گا۔ [16]

نئے گورنر جنرل ہند لوئس ماؤنٹ بیٹن نے یہ سوچتے ہوئے آزادی کی تاریخ آگے بڑھادی کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین مسلسل تنازعات کی وجہ سے عبوری حکومت گر سکتی ہے۔ [17] انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی دوسری سالگرہ کی تاریخ، 15 اگست کو منتقلی حکومت کے لیے مناسب سمجھا۔ [17] 03 جون 1947ء کو حکومت برحانیہ نے اعلان کیا کہ تقسیم ہند کامشورہ منظور کر لیا گیا ہے اور ملک کو دو ریاستوں میں تقسیم کریا جائے گا، [16] دونوں حکومتوں کو ڈومینین کا درجہ دیا جائے گا اور یوں دولت مشترکہ ممالک میں شامل ہونے کی اہلیت دونوں کو حاصل ہو جائے گی۔ قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت عظیم برطانوی ہندوستان کو دو آزاد ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا اور 15 اگست 1947ء سے یہ قانون نافذ ہو گیا۔ اور اس طرح دونوں نئے قانون ساز اسمبلیوں کو مکمل قانونی اختیار حاصل ہو گیا۔ [18] 18 جولائی 1947ء کو اس پر شاہی مہر بھی لگ گئی۔

تقسیم اور آزادی[ترمیم]

صبح 0830 بجے - گورنر ہاوس پر گورنر جنرل اور وزرا کی حلف برداری

صبح 0940 بجے- وزرا کا قانون ساز اسمبلی کی طرف کوچ
صبح 0950 بجے- قانون ساز اسمبلی تک سٹیٹ ڈرائیو
صبح 0955 بجے- گورنر جنرل کو شاہی سلامی
صبح 1030 بجے- قانون ساز اسمبلی میں پرچم کشائی
صبح 1035 بجے- گورمنٹ ہاوس تک سٹیٹ ڈرائیو
شام 0600 بجے - انڈیا گیٹ پر پرچم کشائی
شام 0700 بجے- روشنی
شام 0745 بجے- آتش بازی
شام 0845 بجے- گورنر ہاوس پر رسمی عشائیہ

رات 1000 بجے- گورنر ہاوس پر استقبالیہ

ترتیب وار سرگرمیاں، 15 اگست 1947ء[19]:7 [19]:7

آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم کا اعلان ہونا تھا کہ لاکھوں مسلم، سکھ اور مسیحی پناہ گزیں ریڈکلف لائن کے آس پاس کئی دنوں تک بھٹکتے رہے۔ ان کو پکڑا جاتا اور مارا جاتا تھا۔ [20] خطۂ پنجاب کی تقسیم نے سکھ کے علاقوں کو دو حصوں میں منقسم کر دیا اور وسیع پیمانہ پر قتل عام ہوا، لیکن بنگال اور بہار میں چونکہ مہاتما گاندھی خود موجود تھے لہذا ان علاقوں میں فسادات نسبتاً کم ہوئے۔ مجموعی طور پر سرحد کے دونوں جانب ڈھائی لاکھ سے 10 لاکھ افراد فسادات میں ہلاک ہوئے۔ [21] جس وقت پورا ملک جشن آزادی میں مشغول تھا، مہاتما گاندھی کلکتہ میں قتل عام کو روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ [22] 14 اگست 1947ء کو یوم آزادی پاکستان کا اعلان کیا گیا اور اسی دن محمد علی جناح نے کراچی میں پہلے گورنر جنرل پاکستان کے طور پر حلف لیا۔ دوستور ساز اسمبلی ہند کا پانچواں اجلاس 14 اگست کو 11 بجے صبح نئی دہلی کے کونسٹی ٹیوشن ہال میں منعقد ہوا۔ [23] اس اجلاس کی صدارت راجندر پرساد نے کی۔اس موقع پر جواہر لعل نہرو نے بھارت کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے ایک تقریر کی جسے تقدیر سے وعدہ ملاقات کا نام دیا گیا تھا۔

کئی برس قبل ہم نے تقدیر سے وعدہ ملاقات کا عہد کیا تھا اور اب وہ وقت آگیا ہے جب ہمیں اس کا پھل ملنے والا ہے، مکمل نہیں بلکہ کافی اور وافر مقدار میں۔ رات کے اس نصف پہر میں جب کہ پوری دنیا سو رہی ہے، بھارت ایک نئی زندگی اور آزادی کی صبح میں سانس لے گا۔ وہ لمحہ آگیا ہے جو تاریخ میں بہت کم آتا ہے، جب ہم پرانا سے نیا کی طرف قدم رکھ رہے ہیں، جب ایک عہد کا خاتمہ ہورہا ہے، جب ایک قوم کی روح برسوں دبائے جانے بعد اب آزاد ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس پر امن موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی خدمت کریں گے، اس کی عوام کی خدمت کریں گے اور پوری انسانیت کی خدمت کریں گے۔

تقریر کامیابی کا عہد، جواہر لعل نہرو، 15 اگست 1947ء [24]

بھارت ڈومینین کے آزاد ہونے کے بعد نئی دہلی میں سرکاری جشن منایا گیا۔ نہرو نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا اور لوئس ماؤنٹ بیٹن بدستور گورنر جنرل ہند کے عہدہ پر برقرار رہے۔ [19]:6

جشن آزادی[ترمیم]

یوم آزادی بھارت میں عام تعطیلات میں سے ایک ہے- باقی دو قومی تعطیلات یوم جمہوریہ بھارت 26 جنوری اور گاندھی جینتی 02 اکتوبر کو منائی جاتی ہیں۔ یوم آزادی سرکاری طور پر بھارت کے تمام صوبوں اور متحدہ عملداریوں میں منایا جاتا ہے۔ یوم آزادی سے پہلی شام کو صدر بھارت قوم کے نام خطاب کرتا ہے۔ 15 اگست کو وزیر اعظم تاریخی لال قلعہ پر پرچم بھارت لہراتا ہے۔ اس قابل فخر موقع پر 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ [25] اپنی تقریر میں وزیر اعظم سرکار کی گذشتہ سال کی کامیابیوں کو عوام سے سامنے رکھتا ہے، اہم مسائل پرروشنی ڈالتا ہے اور مزید ترقی کا وعدہ کرتا ہے۔ وہ تحریک آزادی ہند کے مجاہدین کو سلامی پیش کرتا ہے۔ بھارت کا قومی گیت جن گن من گایا جاتا ہے۔ تقریر کے بعد بھارتی مسلح افواج اور پیرا ملٹری افواج کا مارچ ہوتا ہے۔ بھارت کی وسیع تہذیب و ثقافت اور آزادی کی جدوجہد سے متعلق تصاویر اور اشیاء کی نمائش کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی تقریبات تمام صوبہ جات میں کی جاتی ہے جہاں متعلق صوبہ کا وزیر اعلیٰ پرچم کشائی کرتا ہے اس کے بعد افواج کی پریڈ ہوتی ہے اور پھر نمائش کی جاتی ہے۔ [26][27] سنہ 1973ء تک صوبہ کا گورنر ہی پرچم کشائی کیا کرتا تھا مگر فروری 1974ء میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سامنے اس مسئلہ کو اٹھایا کہ یوم آزادی کے موقع پر جیسے وزیر اعظم لال قلعہ پر پرچم کشائی کرتا ہے ویسے صوبوں میں وزیر اعلیٰ کو پرچم کشائی کی اجازت ہونی چاہیے۔ [28] ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں، اسکولوں اور کالجوں میں تقریب پرچم کشائی اور دیگر ثقافتی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ [29] بڑی سرکاری عمارتوں میں قمقہ بازی اور روشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ [30] دہلی اور دوسرے شہروں میں اس موقع پر پتنگ بازی خوب جم کر ہوتی ہے۔ [25][31] اور اس موقع پر کافی تعداد میں مختلف ناپ کے جھنڈے یوم آزادی کی رونق کو دوبالا کردیتے ہیں۔ [32] بھارتی شہری اچھے لباس پہنتے ہیں، کلائیوں میں ترنگا دھاگا باندھتے ہیں اور گھروں اور کاروں کو جھنڈہ کے رنگ سے سجاتے ہیں۔ [32]

دنیا بھر میں موجود بھارت کے باشندے جشن آزادی مناتے ہیں، پریڈ کرتے ہیں اور جن گن من گاتے ہیں۔ [33] نیو یارک شہر اور امریکا کے دیگر کچھ شہروں میں 15 اگست یوم بھارت کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں علاقائی باشندے بھی شامل ہوتے ہیں۔

سلامتی کے خطرات[ترمیم]

آزادی کے تین برسوں کے بعد ناگا نیشنل کونسل نے شمال مشرقی بھارت میں یوم آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ [34] 1980 کی دہائی میں اس علاقہ میں علیحدگی پسند احتجاجات نے کافی زور پکڑا ہے؛ باغی تنظیموں نے یوم آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور دہشت گردانہ حملوں کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ان میں آزاد آسام اور نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ شامل ہیں۔ [35] 1980ء کی دہائی سے جموں و کشمیر میں بغاوت نے زور پکڑنا شروع کیا، [36] علیحدگی پسند جماعتوں نے احتجاج کرنا اور یوم آزادی کا بائیکاٹ شروع کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ لوگ ہڑتال کرنے لگے، کالے جھنڈے لہرائے گئے اور حتیٰ کہ بھارت کے پرچم کو جلایا بھی گیا۔ [37][38][39] لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور جیش محمد جیسی فعال تنظیموں نے متعدد مرتبہ یوم آزادی کے موقع حملہ کی دھمکیاں دی ہیں اور اور کئی مرتبہ تو حملے بھی کردئے ہیں۔ [40] باغی نکسلیوں اور ماؤویوں نے بھی جشن کا آزادی کا بائیکاٹ کیا ہے۔ [41][42] ان خطرات کی وجہ سے اور حملوں کی دھمکیوں اور چند حملوں کے پیش نظر حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اہم شہروں جیسے دہلی اور بمبئی اور پریشان حالات سے دوچار علاقہ جیسے جموں و کشمیر میں حفاظت کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ لال قلعہ کے ارد گرد کسی پرواز کی اجازی نہیں ہوتی۔ دیگر شہروں میں مزید پولس تعیینات کر دی جاتی ہے۔ [43][44][45][46]

ثقافت عامہ میں[ترمیم]

یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹی وی اور ریڈیو پر مخلتلف زبانوں میں وطن پرستی سے معموم نغمے نشر کیے جاتے ہیں۔ [47] یہ نغمے پرچم کشائی کی تقریب میں بھی گائے جاتے ہیں۔ [47] تحریک جنگ آزادی اور بھارتیت پر مبنی فلمیں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ [29] مگر گذشتہ کچھ دہائیوں سے، دی ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق، ان فلموں کی تکرار کی وجہ ان کے مشاہدہ در میں کمی آئی ہے۔ [48] نئی نسل کے نوجوان آج کے دنوں میں جشن آزادی کو وطن پرستی کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔اور یہ وطن پرستی ترنگے کپڑوں اور ایسے لباسوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جن سے وطن پرستی، قومی تہذہب و ثقافت اور مختلف روایات کی صاف عکاسی ہوتی ہے۔ [49][50][51][52] دکانیں یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم کے رنگ سے سجا دی جاتی ہیں اور آزادی سیل بھی لگاتے ہیں۔ [51][52] کچھ خبروں نے یوم آزادی کی تجارتی منافع کے لیے استعمال کی نفی کی ہے۔ [51][53][54] بھارتی ڈاک نے 15 اگست کے موقع تحریک آزادی کی یاد میں مجاہدین آزادی، وطن پرست تھیم اور دفاعی تھیم پر متعدد ڈاک ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ [55] آزادی اور تقسیم کے موضوع پر وسیع پیمانے پر فلمیں بنیں، کتابیں، ناول افسانے لکھے گئے۔ اور شاعروں نے اپنے ردیف و قافیے آزادی کے واقعات، وطن پرست جذبات اور تقسیم کے تلخ حقائق سے بھر دئے۔ [56][57] سلمان رشدی کا ناول مڈنائٹ چلڈرن (1980)، جس کو مین بکر پرائز سے نوازا گیا، اس ناول میں مصنف نے 14-15 اگست 1947ء کی رات میں پیدا ہوئے بچوں کے واقعات کو بڑے ہی ساحرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ [57] 99 فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، محمد علی جوہر اور حسرت موہانی جیسے شاعروں نے آزادی سے متعلق اچھی شاعری کی ہے۔ فیض احمد فیض کی نظم

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

خاص و عوام میں کافی مقبول ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ آزادی اور اردو شاعری میں رقمطراز ہیں:

آزادی کی دیوی نمودار تو ہوئی لیکن خون میں ڈوبی ہوئی۔ زمین سے آسمان تک فرقہ واریت کا زہر بھر گیا۔ تعصب اور تنگ نظری کی آگ اتی بھڑک چکی تھی کہ صدیوں کا تہذیبی سرمایہ اس میں فنا ہوتا نظر آتا تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور درندگی، سفاکی اور بربریت کی وحشتی قوتیں بے لگام ہوگئیں۔ ہندوستان کی ترقی اور سربلندی کا خواب دیکھنے والوں کو ان حالات سے سخت صدمہ پہونچا۔ اس وقت ملک میں جو بجھی بجھی فضا اور درد کی لہر تھی وہ فیض کی نظم ‘‘صبح آزادی‘‘ کے مصرعوں میں ہمیشہ کے لیے مجسم ہو گئی ہے۔[58]

لیری کولنز اور ڈومینق لیپیر نے ایک کتاب ‘‘فریڈم ایٹ مڈنائٹ (1975) لکھی جس میں پہلے یوم آزادی کے موقع ہوئی تقریبات کو پیش کیا ہے۔ کچھ فلموں میں بھی آزادی کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. PTI (15 اگست 2013)۔ "Manmohan first PM outside Nehru-Gandhi clan to hoist flag for 10th time" آرکائیو شدہ 21 دسمبر 2013 بذریعہ وے بیک مشین۔ دی ہندو۔ Retrieved 30 اگست 2013ء
  2. "Terror strike feared in Delhi ahead of Independence Day : MM-National, News – India Today"۔ Indiatoday.intoday.in۔ 05 اگست 2015۔ 07 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2015 
  3. "69th Independence Day: Security Tightened at Red Fort as Terror Threat Looms Large on PM Modi"۔ Ibtimes.co.in۔ 28 فروری 2015۔ 14 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2015 
  4. Sumit government (1983)۔ Modern India, 1885–1947۔ Macmillan۔ صفحہ: 1–4۔ ISBN 978-0-333-90425-1 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ B. Metcalf، T. R. Metcalf (09 اکتوبر 2006)۔ A Concise History of Modern India (2nd ایڈیشن)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ISBN 978-0-521-68225-1 
  6. ^ ا ب Stanley A. Wolpert (12 اکتوبر 1999)۔ India۔ University of California Press۔ صفحہ: 204۔ ISBN 978-0-520-22172-7۔ 09 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2012 
  7. V. N. Datta (2006)۔ "India's Independence Pledge"۔ $1 میں Kishore Gandhi۔ India's Date with Destiny۔ Allied Publishers۔ صفحہ: 34–39۔ ISBN 978-81-7764-932-1۔ We recognise, however, that the most effective way of getting our freedom is not through violence. We will therefore prepare ourselves by withdrawing, so far as we can, all voluntary association from British Government, and will prepare for civil disobedience, including non-payment of taxes. We are convinced that if we can but withdraw our voluntary help and stop payment of taxes without doing violence, even under provocation; the need of his inhuman rule is assured. We therefore hereby solemnly resolve to carry out the Congress instructions issued from time to time for the purpose of establishing Purna Swaraj. 
  8. ^ ا ب Ramachandra Guha (12 اگست 2008)۔ India After Gandhi: The History of the World's Largest Democracy۔ Harper Collins۔ ISBN 978-0-06-095858-9۔ 31 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2012 
  9. Ranbir Vohra (2001)۔ The Making of India: a Historical Survey۔ M. E. Sharpe۔ صفحہ: 148۔ ISBN 978-0-7656-0711-9۔ 11 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2012 
  10. Radhika Ramaseshan (26 جنوری 2012)۔ "Why جنوری 26: the History of the Day"۔ دی ٹیلی گراف (بھارت)۔ 20 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولائی 2012 
  11. Jawaharlal Nehru (1989)۔ Jawaharlal Nehru, An Autobiography: With Musings on Recent Events in India۔ Bodley Head۔ صفحہ: 209۔ ISBN 978-0-370-31313-9۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2012 
  12. (Mahatma) Gandhi (1970)۔ Collected Works of Mahatma Gandhi۔ 42۔ Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ صفحہ: 398–400۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2012 
  13. Ronald Hyam (2006)۔ Britain's Declining Empire: the Road to Decolonisation, 1918–1968۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 106۔ ISBN 978-0-521-68555-9۔ By the end of 1945, he and the Commander-in-chief, کلاڈ آچنلیک were advising that there was a real threat in 1946 of large-scale anti-British disorder amounting to even a well-organized rising aiming to expel the British by paralysing the administration.
    ۔۔۔it was clear to Attlee that everything depended on the spirit and reliability of the Indian Army:"Provided that they do their duty, armed insurrection in India would not be an insoluble problem. If, however, the Indian Army was to go the other way, the picture would be very different.
    ۔۔۔Thus, آرچیبالڈ ویول concluded, if the army and the police "failed" Britain would be forced to go. In theory, it might be possible to revive and reinvigorate the services, and rule for another fifteen to twenty years, but:It is a fallacy to suppose that the solution lies in trying to maintain the status quo. We have no longer the resources, nor the necessary prestige or confidence in ourselves.
     
  14. Judith Margaret Brown (1994)۔ Modern India: the Origins of an Asian Democracy۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 330۔ ISBN 978-0-19-873112-2۔ India had always been a minority interest in British public life; no great body of public opinion now emerged to argue that war-weary and impoverished Britain should send troops and money to hold it against its will in an empire of doubtful value. By late 1946 both Prime Minister and Secretary of State for India recognized that neither international opinion nor their own voters would stand for any reassertion of the raj، even if there had been the men, money, and administrative machinery with which to do so 
  15. Sumit Sarkar (1983)۔ Modern India, 1885–1947۔ Macmillan۔ صفحہ: 418۔ ISBN 978-0-333-90425-1۔ With a war weary army and people and a ravaged economy, Britain would have had to retreat; the Labour victory only quickened the process somewhat. 
  16. ^ ا ب Jan Romein (1962)۔ The Asian Century: a History of Modern Nationalism in Asia۔ University of California Press۔ صفحہ: 357۔ ASIN B000PVLKY4۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2012 
  17. ^ ا ب Anthony Read، David Fisher (01 جولائی 1999)۔ The Proudest Day: India's Long Road to Independence۔ W. W. Norton & Company۔ صفحہ: 459–60۔ ISBN 978-0-393-31898-2۔ 21 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اگست 
  18. "Indian Independence Act 1947"۔ The National Archives، Her Majesty's Government۔ 30 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2012 
  19. ^ ا ب پ Rama Chandra Guha (2007)۔ India After Gandhi: The History of the World's Largest Democracy۔ London: Macmillan۔ ISBN 978-0-230-01654-5 
  20. John Keay (2000)۔ India: A History۔ Grove Press۔ صفحہ: 508۔ ISBN 978-0-8021-3797-5۔ East to west and west to east perhaps ten million fled for their lives in the greatest exodus in recorded history. 
  21. Karl DeRouen، Uk Heo (28 مارچ 2007)۔ Civil Wars of the World: Major Conflicts since World War II۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 408–414۔ ISBN 978-1-8510901 تأكد من صحة |isbn= القيمة: length (معاونت)۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2012 
  22. Horace Alexander (1 اگست 2007)۔ "A miracle in Calcutta"۔ Prospect۔ 08 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  23. "Constituent Assembly of India Volume V"۔ Parliament of India۔ 04 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  24. "Jawaharlal Nehru (1889–1964): Speech On the Granting of Indian Independence, اگست 14، 1947"۔ Fordham University۔ 18 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2012 
  25. ^ ا ب "Independence Day"۔ Government of India۔ 06 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2012 
  26. "India Celebrates Its 66th Independence Day"۔ آؤٹ لک۔ 15 اگست 2012۔ 20 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2012 
  27. "Barring Northeast, Peaceful I-Day Celebrations across India (State Roundup, Combining Different Series)"۔ Monsters and Critics۔ 15 اگست 2007۔ 29 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
  28. "Karunanidhi had a role in Chief Ministers hoisting flag"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ 2009-08-16۔ ISSN 0971-751X۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2018 
  29. ^ ا ب K. R. Gupta، Amita Gupta (01 جنوری 2006)۔ Concise Encyclopaedia of India۔ Atlantic Publishers۔ صفحہ: 1002۔ ISBN 978-81-269-0639-0۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2012 
  30. "Independence Day Celebration"۔ Government of India۔ 15 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2012 
  31. Suryatapa Bhattacharya (15 اگست 2011)۔ "Indians Still Battling it out on Independence Day"۔ The National۔ 22 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2012 
  32. ^ ا ب "When India Wears its Badge of Patriotism with Pride"۔ DNA۔ 15 اگست 2007۔ 01 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  33. "Indian-Americans Celebrate Independence Day"۔ دی ہندو۔ 16 اگست 2010۔ 02 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2012 
  34. Suresh K. Sharma (2006)۔ Documents on North-East India: Nagaland۔ Mittal Publications۔ صفحہ: 146, 165۔ ISBN 978-81-8324-095-6۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2012 
  35. Prasanta Mazumdar (11 اگست 2011)۔ "ULFA's Independence Day Gift for India: Blasts"۔ DNA۔ 01 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
    Office of the Coordinator for Counterterrorism۔ Country Reports on Terrorism 2004۔ United States Department of State۔ صفحہ: 129۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
    Willem Van Schendel، Itty Abraham (2005)۔ Illicit Flows and Criminal Things: States, Borders, and the Other Side of Globalization۔ Indiana University Press۔ صفحہ: 55–56۔ ISBN 978-0-253-21811-7۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
    "Rebels Call for I-Day Boycott in Northeast"۔ Rediff۔ 10 اگست 2010۔ 16 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
    Prasenjit Biswas، Chandan Suklabaidya (06 فروری 2008)۔ Ethnic Life-Worlds in North-East India: an Analysis۔ SAGE۔ صفحہ: 233۔ ISBN 978-0-7619-3613-8۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
    Nava Thakuria (05 ستمبر 2011)۔ "Appreciating the Spirit of India's Independence Day"۔ Global Politician۔ 13 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
  36. Marianne Heiberg، Brendan O'Leary، John Tirman (2007)۔ Terror, Insurgency, and the State: Ending Protracted Conflicts۔ University of Pennsylvania Press۔ صفحہ: 254۔ ISBN 978-0-8122-3974-4۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2012 
  37. "Kashmir Independence Day Clashes"۔ BBC۔ 15 اگست 2008۔ 2 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
  38. Navnita Chadha Behera (2007)۔ Demystifying Kashmir۔ Pearson Education India۔ صفحہ: 146۔ ISBN 978-81-317-0846-0۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  39. Suranjan Das (01 اگست 2001)۔ Kashmir and Sindh: Nation-Building, Ethnicity and Regional Politics in South Asia۔ Anthem Press۔ صفحہ: 49۔ ISBN 978-1-898855-87-3۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  40. "LeT, JeM Plan Suicide Attacks in J&K on I-Day"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ 14 اگست 2002۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2012 
    "Ayodhya Attack Mastermind Killed in Jammu"۔ OneIndia News۔ 11 اگست 2007۔ 13 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2012 
    "LeT to Hijack Plane Ahead of Independence Day?"۔ The First Post۔ 12 اگست 2012۔ 14 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2012 
    "Two Hizbul Militants Held in Delhi"۔ این ڈی ٹی وی۔ 07 اگست 2009۔ 14 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2012 
  41. "Maoist Boycott Call Mars I-Day Celebrations in Orissa"۔ The Hindu۔ 15 اگست 2011۔ 11 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
  42. Bharat Verma (01 جون 2012)۔ Indian Defence Review Vol. 26.2: Apr–Jun 2011۔ Lancer Publishers۔ صفحہ: 111۔ ISBN 978-81-7062-219-2۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  43. Ram Ramgopal (14 اگست 2002)۔ "India Braces for Independence Day"۔ CNN۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2012  [مردہ ربط]
  44. "US Warns of India Terror Attacks"۔ BBC۔ 11 اگست 2006۔ 30 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2012 
  45. "Rain Brings Children Cheer, Gives Securitymen a Tough Time"۔ The Hindu۔ 16 اگست 2011۔ 30 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2012 
  46. "India Heightens Security ahead of I-Day"۔ The Times of India۔ 14 اگست 2006۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  47. ^ ا ب Pramod K. Nayar (14 جون 2006)۔ Reading Culture: Theory, Praxis, Politics۔ SAGE۔ صفحہ: 57۔ ISBN 978-0-7619-3474-5۔ 21 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  48. Nikhila Pant، Pallavi Pasricha (26 جنوری 2008)۔ "Patriotic Films, Anyone?"۔ The Times of India۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2012 
  49. Shabana Ansari (15 اگست 2011)۔ "Independence Day: For GenNext, It's Cool to Flaunt Patriotism"۔ DNA۔ 1 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2012 
  50. Meera Vohra، Shashank Tripathi (14 اگست 2012)۔ "Fashion fervour gets tri-coloured!"۔ The Times of India۔ 13 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2012 
  51. ^ ا ب پ Kalpana Sharma (13 اگست 2010)۔ "Pop Patriotism—Is Our Azaadi on Sale?"۔ The Times of India۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2012 
  52. ^ ا ب Sreeradha D Basu، Writankar Mukherjee (14 اگست 2010)۔ "Retail Majors Flag Off I-Day Offers to Push Sales"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2012 
  53. Sudeshna Chatterjee (16 اگست 1997)۔ "The Business of Patriotism"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 14 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2012 
  54. Partha Sinha (18 ستمبر 2007)۔ "Commercial Patriotism Rides New Wave of Optimism"۔ The Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2012 
  55. "Indian Postage Stamps Catalogue 1947–2011" (PDF)۔ India Post۔ 17 جنوری 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2012 
  56. Nandi Bhatia (1996)۔ "Twentieth Century Hindi Literature"۔ $1 میں Nalini Natarajan۔ Handbook of Twentieth-Century Literatures of India۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 146–147۔ ISBN 978-0-313-28778-7۔ 30 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  57. ^ ا ب Rituparna Roy (15 جولائی 2011)۔ South Asian Partition Fiction in English: From Khushwant Singh to Amitav Ghosh۔ Amsterdam University Press۔ صفحہ: 24–29۔ ISBN 978-90-8964-245-5۔ 2 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2012 
  58. https://www.rekhta.org/ebooks/hindustan-ki-tahreek-e-azadi-aur-urdu-shayari-gopi-chand-narang-ebooks