یہودیت میں تجہیز و تکفین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تالیت میں لپٹی ہوئی میتیں، جفعات شاؤل، اسرائیل

یہودیت میں تجہیز و تکفین سے مراد وہ اعمال و رسومات ہیں جو کسی یہودی کی وفات کے بعد اسے دفنانے سے قبل انجام دیے جاتے ہیں۔یہودیت میں موت کو جزو حیات اور منشائے ایزدی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماتم و عزا کی یہودی رسومات اس بات کی دلیل ہیں کہ موت برحق ہے اور یہودیت کسی طور بھی اس سے انکار یا احتجاج پر یقین نہیں رکھتی بلکہ اسے حیات انسانی کے اہم جزو کے طور پر مانتی ہے۔

رسوم میت[ترمیم]

جب کسی یہودی برادری میں کوئی انتقال کر جاتا ہے تو اس کی آنکھیں بند کرکے میت کو فرش پر لٹا کر اسے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور قریب ہی شمعیں روشن کر دی جاتی ہیں۔ احتراماً میت کو کسی بھی وقت اکیلا نہیں چھوڑا جاتا۔ میت کے قریب کچھ کھانا پینا یا کوئی متزوط ادا کرنا ممنوع ہے اس عقیدے سے کہ چونکہ مرنے والا اب ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا لہذا اس کی روح کو تکلیف ہوگی۔ میت کے قریب موجود رہنے والوں کو شومیرم (عبرانی: שומרים، انگریزی: shomerim) کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہودی برادریوں میں رضاکاروں کی ایک مخصوص جماعت ہوتی ہے جسے شیروا کادیشا (عبرانی: חֶבְרָה קַדִישָא، انگریزی: Chevra kadisha) یعنی مقدس لوگ کہا جاتا ہے جن کے ذمے تجیہز و تکفین کی رسومات ادا کرنا ہوتا ہے۔ میت کو غسل و کفن دینا اور اسے یہودی روایات کے مطابق تدفین کے لیے تیار کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے اور ان افراد کو انتہائی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایسے لوگوں کی خدمت انجام دیتے ہیں جو ان کو بدلے میں کچھ بھی نہیں دے سکتے۔

یہودی اعتقادات کے مطابق میت کو چھونا روحانی ناپاکی کا سبب ہوتا ہے لہذا کوہن (عبرانی: כֹּהֵן، انگریزی: Kohen) کو میت والے کمرے یا جگہ پر موجود ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کوہن یہودیت میں مثل پادری ایک منصب ہے اور وہ لوگ جنھوں نے میت کو مس کیا ہے ان پر غسل یا کم از کم ہاتھ پاؤں دھونا لازم ہوتا ہے۔

تدفین[ترمیم]

تدفین کا عمل ہر ممکن صورت جلد از جلد انجام دیا جاتا ہے۔ میت کو حنوط کرنا یا جلانا ممنوع ہے البتہ اگر مرحوم نے اعضاء عطیہ کیے ہوں تو اس کی مشروط شرعی اجازت لی جا سکتی ہے اگر یہ ثابت ہو کہ ایسا کرنے سے کوئی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔کیونکہ جسم کو اس کے مکمل اعضاء سمیت دفن کرنا لازم ہے۔

کفنانے کے بعد کفن یا تابوت کو کھولنے کی اجازت نہیں تاکہ مرحوم کے دشمن اسے اس بے بسی اور بے چارگی کی حالت میں نہ دیکھ پائیں۔ میت کے اوپر ایک شال جسے تالیت (عبرانی טַלִּית، انگریزی Tallit ) کہا جاتے ہے بھی ڈال دی جاتی ہے۔

اسرائیل میں تابوت استعمال کرنے کا رواج نہیں اور اگر کسی وجہ سے استعمال کیا جائے تو اس میں سوراخ رکھے جاتے ہیں تاکہ خاک ارض سے میت کا تعلق برقرار رہے۔ ایک رسم یہ بھی ہے کہ مرنے والے کا قریبی عزیز ایک مشت خاک اس کے کفن میں ڈالتا ہے۔ یہ رسوم و عقائد اس بات کی دلیل ہیں کہ مرحوم کا جسم خاک ارض مقدس سے مس رہے۔

الواح مزار[ترمیم]

قوانین یہودیت کے مطابق الواح مزار کا ہونا لازم ہے تاکہ قبور کی شناخت برقرار رہے۔کچھ گروہ بوقت زیارت قبور اس پر پتھر رکھنے کے بھی قائل ہیں۔ یہودی الواح مزار پر مرحوم کا نام، تاریخ پیدائش اور کچھ حالات زندگی (خصوصاً مذہبی خدمات) عبرانی زبان میں کندہ کیے جاتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ مذہبی علامات مثلاً ستارہ داؤدی، منورا، آیات تورات اور اقتباسات دس احکام بھی لکھے جاتے ہیں۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]