یہودیت میں طلاق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت

یہودیت میں بھی دیگر معاشروں کی طرح طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اور ایک سانحہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تورات میں اس سے نفرت کا اظہار ملتا ہے۔ تالمود کے مطابق " جب کوئی شخص اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو معابد کی محرابیں تک گریہ کرتی ہیں "۔[1] ایک یہودی روایت کے مطابق طلاق زندہ کھال کھینچ لینے کے مترادف قرار دی گئی ہے۔[2]

تاہم یہودیت میں اس امر کی گنجائش اور اجازت موجود ہے کہ زوجین کو بے کیف، تلخیوں اور اختلافات سے بھری زندگی گزارنے کی بجائے شائستگی سے علاحدہ ہو جانا چاہیے۔ یہ اجازت ہمیشہ سے یہودی قوانین کا جزو رہی ہے۔[3]

قانون طلاق[ترمیم]

یہودیت میں تاریخی طور پر طلاق کا اختیار صرف مرد کے حصے میں ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ تالمود کے احکام کے مطابق مرد کو یہ اختیار حاصل رہا ہے کہ وہ جب چاہے کسی بھی وجہ کی بنا پر بیوی کو بنا اس کی رضامندی کے طلاق دے سکتا ہے۔[3]

لیکن تالمود میں ان حالات و واقعات اور شرائط کا بھی انتہائی وضاحت کے ساتھ ذکر ہے جن کے تحت ایک مرد کو اس کی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ ۔ اگر عورت جنسی بے راہ روی کا اعتراف کرے؛ ۔ اگر عورت شادی کے دس سال بعد تک بچہ نہ جن پائے؛ ۔ اگر مرد اپنی بیوی کے ساتھ صحبت سے انکار کر دے؛ ۔ اگر مرد اپنی بیوی پر تشدد کرے؛ یا ۔ اگر شوہر کسی کریہہ مرض میں مبتلا ہو جائے؛

آج سے تقریباً ایک ہزار برس قبل، ربیوں نے اجتہادی احکام میں قرار دیا کہ بیوی کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق نہیں دی جا سکتی۔

طلاق کی دستاویزات اور طریقہ کار[ترمیم]

روایتی طور پر طلاق کا یہ عمل دیوانی عدالت کے ساتھ ساتھ ربیونی یعنی یہودی شرعی عدالت بت دین (عبرانی בית דין، انگریزی Beth din) کے ذریعے انجام پاتا ہے اور طلاق کی ڈگری عطا کی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں یہ عمل ہر جگہ رضاکارانہ ہے سوائے اسرائیل کے جہاں یہ معاملات ابھی تک ربیوں کے اختیار میں ہی ہیں۔

بت دین میاں بیوی پر جرح کرتی ہے تاکہ دونوں کی رضامندی جانی جا سکے، مالی معاملات اور دیگرازدواجی، سماجی حالات و واقعات کو بھی جانا اور جانچا جاتا ہے۔ اور اگر طلاق وقوع پزیر ہوتی ہے تو بت دین کی جانب سے ہاتھ سے عبرانی زبان میں لکھی ہوئی "حکم طلاق" کی دستاویز جاری کر دی جاتی ہے۔ عورت نوے روز تک دوسری شادی نہیں کر سکتی تا کہ ان نوے دنوں کے دوران میں وہ حاملہ پائی جائے تو نومولد کے نسب کی درستی ہو سکے

قدامت پسند روایات کے مطابق ایک طلاق یافتہ کو دوسری شادی کے لیے قدامت پسند بت دین سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔غیر تصدیق شدہ طلاق کے بعد کسی عورت کے دوسری شادی سے جو بچہ پیدا ہو اسے ناجائز تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم قدامت پسند یہودی کے بارے میں ایسی بات تصور کرنا کہ وہ غیر تصدیق شدہ طلاق کے بغیر شادی کر لے گا درست نہیں، کیونکہ یہودی شریعت کے مطابق وہ ویسے بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتا ہے۔

لیکن اصلاحات کے اس دور میں ایک دیوانی عدالت سے منظور کی گئی طلاق کو ہی درست تسلیم کیا جا رہا ہے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. “Divorce in Judaism.” Chabad.org. Web. Accessed 20 Mar. 2017
  2. Rich, Tracey R. “Divorce.” Judaism 101. Web. Accessed 20 Mar. 2017.
  3. ^ ا ب Robinson, George. Essential Judaism: A Complete Guide to Beliefs, Customs & Rituals. Atria Books, 2001 170.
  4. Jewish Divorce