تبادلۂ خیال:سرفروشی کی تمنا

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

)ئد"سرفروشی کی تمنا" مشہور نظم ہے۔ یہ اس نظم کی اصلی حالت ہے۔ اور یہ میرے بلاگ، چندفورم اور ویکیپڈیا پر موجود ہے۔

  • تو پھر نظم پر مضمون تحریر فرمائیں۔ صرف نظم چھاپ دینے کی اجازت نہیں۔--Urdutext 01:03, 17 اگست 2011 (UTC)


سرفروشی کی تمنا مشہور ہے کہ غزل ہے۔ مضمون میں یہ بطور پابند نظم پیش کی گئی ہے۔ نظم کی ساخت ، ترتیب اور ڈھانچہ بدل کو لے قاری کے لیے مشکل کا سامان ہے۔ منتظمین اور صارفین کی توجہ درکار۔--Drcenjary (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:19, 15 مئی 2016 (م ع و)

@Drcenjary: صاحب، اردو ٹکسٹ صاحب کی رائے تو اوپر دیکھ ہی رہے ہیں۔ آپ ان سے مختلف رائے دے رہے ہیں۔ اب یا تو اور ساتھی رائے دے کر اس میں مدد کرسکتے ہیں یا پھر ان اصناف سخن کے اوصاف اور اس کلام کی موزونیت پر تشفی بخش روشنی ڈالیے۔ --مزمل (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:34, 15 مئی 2016 (م ع و)
@Hindustanilanguage: اترپردیس اردو اکادمی نے 1998ء میں اپنے جریدے اکادمی (جلد۔۱۷، شمارہ۔۵) کا حرف آزادی نمبر شائع کیا تھا۔ اس شمارے کے مشمولات کے ایک حصہ تذکرہ شعرائے زنداں کے تحت صفحہ 355 پر ایک مضمون موجود ہے اور صفحہ357 پر ان کی غزل ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے کہ ۔۔۔ پنڈت رام پرساد بسمل کی مشہور انقلابی غزل ملاحظہ فرمایئے۔۔۔۔۔۔۔آزادی کی جنگ میں ہمارے بہت سے نوجوان پھانسی کے تختے پر یہ غزل بڑی عقیدت سے گاتے ہوئے لٹک گئے۔--Drcenjary (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:05, 15 مئی 2016 (م ع و)
@Hindustanilanguage:ہاں ایک اور بات بھی ہے۔ جو اس اسے اہم ہے کہ آیا یہ نظم کا شعر ہے یا غزل کا۔ وہ یہ ہے کہ آیا سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ والا شعر رام پرسادبسمل کا ہے یا بسمل عظیم آبادی کا ہے ۔اردو کےاہم تنقید نگار شارب ردولوی صاحب، بغاوت کے اوزار۔ جنگ آزادی کے غیر معروف اردو شعرا (ادب ساز، خاص نمبر اٹھارہ سو ستاون اور اردو ادب )کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ رام پرساد بسمل اردو کے بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کی پہچان جس شعر سے ہوئی وہ دراصل بسمل عظیم آبادی کا شعر ہے جو تخلص کے تسامہ کی وجہ سے ان کے نام سے وابستہ ہو گیا۔ لیکن نیشنل آرکائیوز کی ضبط شدہ نظموں کے اندراج نمبر 1636 میں وطن کا راگ مرتبہ اکسیر سیال کوٹی کے حوالے سے ان کے نام سے درج ہے۔ جس کا مطلع اور مقطع اس طرح ہے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہےدیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتال میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑایک مٹ جانے کی حسرت اب دل بسمل میں ہے

ردولی صاحب نے چوں کہ مطلع اور مقطع کی بات کہی ہے اس لیے یہ طے ہو جاتا ہے کہ یہ نظم نہیں غزل ہی ہے۔ اب رہی بات اس کے اصل شاعر کی تو وہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔--Drcenjary (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:48, 15 مئی 2016 (م ع و)

@Syedalinaqinaqvi: نقوی صاحب! کچھ دیر قبل میں نے ترمیم کی تھی ۔ اور یہ ترمیم اکادمی (جلد۔۱۷، شمارہ۔۵) میں شائع ہوئے مضمون کو دیکھ کر کی گئی تھی اس لیے کہ شاعری کا معاملہ ہے اور بڑے شاعروں کا معاملہ ہے۔ ایک اور مرتبہ دیکھ لیں کہ مناسب کیا ہے۔ آپ کی توجہ ایک اور طرف درکار ہے کہ حقیقت میں ان اشعار کا خالق اصل میں کون ہے۔ یہ بحث بزرگوں میں چل رہی ہے۔ شارب ردولی اردو تنقید کا بہت بڑا معتبر نام ہے ۔ انھوں نے بحوالہ بات بھی سامنے رکھی ہے اب دیکھیے ویکی پیڈیا برادری کیا کہتی ہے۔--Drcenjary (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:06, 15 مئی 2016 (م ع و)
حضور یہ تو طے ہے کہ یہ غزل تھی مگر اسے عرصہ دراز سے نظم میں ڈھال کر پڑھا جاتا رہا ہے۔ دیگر یہ کہ اس کے خالق کے بارے اختلاف سے ہم آگاہ ہیں کہ کتنے افراد سے اس ایک غزل کو اب تک منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ امور ان بزرگان سے مخفی رہے ہیں ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ مطلع بسمل عظیم آبادی کا ہے مگر بقیہ غزل دونوں کی علیحدہ علیحدہ اور مختلف ہے۔ (بقول بسمل عظیم آبادی کے پوتے منور حسن: کہ یہ غزل آزادی کی لڑائی کے وقت قاضی عبد الغفار کی میگزین 'صباح' میں 1922ء میں شائع ہوئی تو انگریز حکومت تلملا گئی تھی۔ اور رام پرساد نے 1926ء میں اسی مطلع کو اپنی علیحدہ غزل میں لیا تھا۔) (جو کچھ بندہ نے رام پرساد سے منسوب غزل کے مطابق لکھا تھا اس پر آپ کی ترامیم عظیم آبادی سے منسوب غزل کے مطابق ہے) البتہ آپ جناب کی ترمیم سے جو ناچیز نے اختلاف کیا ہے وہ کتابت اور املاء کا ہے کہ اگر رہرو کو اضافہ کرنا ہے تو رہروئے لکھا جائے گا جیسا کے بازوئے قاتل یا تمنائے شہادت (آپ کی اپنی ترمیم کے مطابق)۔علی نقی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:34, 15 مئی 2016 (م ع و)
صاحب ! جب یہ طے ہے کہ غزل ہی تھی تو ا) اسے اردو ویکی پیڈیا (اوپ)غزل ہی مان کر چلے گی نہ کہ نظم۔ ہاں اشارہ کر دیا جائے گا کہ ایسا بھی ہوا تھا کہ اسے بسا اوقات نظم بھی سمجھا گیا ۔ ۲) دوسری بات یہ کہ شارب ردولوی صاحب کا حوالہ (جو اوپر درج ہے) اور آپ کا تسلیم کرنا کہ مطلع بسمل عظیم آبادی کا ہےاس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ ایک ہی زمین میں دو غزلیں لکھی گئیں۔ پہلے بسمل عظیم آباد نے لکھی اور اس کے بعد بسمل شاہجہاں پوری (رام پرساد بسمل)نے۔ یعنی اولیت عظیم آبادی کو جاتی ہے۔ ۳) صباح کا حوالہ بہت خوب ہے ۔ اس کی حیثیت بنیادی ہو جاتی ہے۔ شارب ردولوی صاحب کے حوالے کی بھی وہی حیثیت ہے۔ یہ دونوں حوالہ جات اگر کسی طرح اوپ کی زینت بن جائیں تو کیا کہنے۔ تمام صارفین سے استدعا ہے کہ اس طرف دھیان دیں۔ ۴) رہی بات راقم کی ترمیم کی تو اس نے ( اترپردیس اردو اکادمی نے 1998ء میں اپنے جریدے اکادمی (جلد۔۱۷، شمارہ۔۵) کا حرف آزادی نمبر) کے مطابق ہو بہو اشعار کو نقل کردیا۔ وجہ صرف یہی تھی کہ راقم کو اضافت کے علاوہ ترکیب کا بھی گمان گزرا تھا۔ مختصراً یہ کہ بات سمجھنے سے قاصر تھا۔ لہذا نقل کر نے پر اکتفا کیا۔ --Drcenjary (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:33, 16 مئی 2016 (م ع و)